"DLK" (space) message & send to 7575

مقبوضہ کشمیر: ظلم مٹ جاتا ہے!

مقبوضہ کشمیر میں بی جے جی پی کی علیحدگی سے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی حکومت ٹوٹ گئی ہے۔ یہ عمل نہ صرف کشمیر کے بالادست طبقات کی مفاہمتی پالیسیوں کی ناکامی کی غمازی کرتا ہے بلکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بحران زدہ نظام کا ظلم آخر ٹوٹ ہی جاتا ہے۔ یہ مخلوط حکومت شروع سے ہی جعلی اور متضاد بنیادوں پر مبنی تھی۔ لیکن عید سے پہلے ہی بھارت کے وزیر داخلہ کی جانب سے نہتے کشمیریوں کے خلاف 'جنگ بندی‘ کا فیصلہ واپس لینا اس معزولی کا فوری موجب بنا ہے۔ اس سے محبوبہ مفتی اور بی جے پی میں تنائو شدت اختیار کرگیا ہے۔ 
لیون ٹراٹسکی نے لکھا تھا کہ ''کوئی بھی جدوجہد کبھی رائیگاں نہیں جاتی‘‘۔ پچھلے دو سالوں سے چلنے والی کشمیری عوام کی تحریک نے یہ پہلی کامیابی حاصل کی ہے۔ سری نگر سے شائع ہونے والے 'رائزنگ کشمیر‘ نامی اخبار کے مدیر اور نامور کشمیری صحافی شجاعت بخاری کا قتل وہ چنگاری ثابت ہوا ہے جس نے بھڑک کر اس مخلوط حکومت کو بھسم کر دیا ‘لیکن اس کے پیچھے قربانیوں کی ایک طویل داستان کشمیری عوام نے رقم کی ہے۔ 
منگل کو بھارتی مقبوضہ کشمیر کے تمام اخبارات میں اداریے کی جگہ خالی چھوڑ دی گئی تھی۔ عید کی چھٹیوں کے بعد اخبارات کے اس پہلے ایڈیشن کی اشاعت میں یہ ایک ایسا احتجاج تھا جو پہلے کبھی دیکھنے میںنہیں آیا۔ یہ دراصل شجاعت بخاری کے بہیمانہ قتل کی صحافتی برادری کی جانب سے مذمت تھی۔ اس قتل کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی۔ حریت پسند اور کچھ علیحدگی پسند گروہوں نے اس قتل کا ذمہ دار مودی سرکار کو ٹھہرایا ہے جبکہ بھارتی میڈیا اور سرکار نے اس قتل کی ذمہ داری کچھ مذہبی دہشت گرد تنظیموں پر عائد کی ہے۔ اس وقت برصغیر کے ممالک میں جو سرکاری جبر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اس کا نشانہ سب سے زیادہ وہ صحافی بن رہے ہیں جو اس بدعنوان کارپوریٹ میڈیا کی یلغار میں بھی کچھ سچ بات کہنے یا لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ حالیہ عہد میں ایسے صحافی بہت ہی کم رہے گئے ہیں۔ کچھ معروف صحافی بھی ہیں جو مقتدر قوتوں اور مروجہ 'رائے عامہ‘ کے تسلط کو مسترد کرتے ہوئے کسی حد تک سچ بولنے کی جرأت کرتے ہیں۔ لیکن ہزاروں بے نام صحافی ایسے بھی ہیںجو گمنام سپاہیوں کی طرح سچائی کا کھوج لگانے اور برائی کو بے نقاب کرنے کی پرخلوص کوششیں کرتے ہیں۔ قلیل اجرتوں اور تلخ حالات میں کام کرنے والے ان عام اور بے نام صحافیوں پر ہونے والے کسی جبروتشدد کی خبر چھپتی ہے نہ کوئی احتجاج ہوتا ہے۔ ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والی فعال صحافتی تنظیمیں یا یونینز بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ 
شجاعت بخاری خوش قسمتی سے کشمیر کے جانے پہچانے صحافیوں میں شامل تھے۔ ان پر پہلے بھی تین قاتلانہ حملے ہو چکے تھے‘ لیکن اب کی بار قاتلوں نے دو محافظوں سمیت دفتر کے سامنے شجاعت بخاری کا خون کر دیا۔ برصغیر کے نامی گرامی افراد کے قتل آج تک معمہ ہی بنے رہے ہیں۔
اس قتل کا الزام بھارتی ریاست اپنے مخالف مسلح گروہوں پر لگا کر اپنے جبر کے لئے جواز حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شجاعت بخاری نے نریندر مودی کی حکومت اور کشمیر میں ہونے والی ریاستی دہشت گردی کے خلاف بارہا آواز بلند کی تھی۔ اس کی بہت سی مثالیں ایک تسلسل سے ملتی ہیں۔ اپریل کے شروع میں جب ایک معصوم کشمیری بچی آصفہ بانو، جس کی عمر صرف آٹھ سال تھی، کو بنیاد پرست ہندو شاونسٹوں سے تعلق رکھنے والے گروہ نے پہلے اغوا کرکے ہیرانگر کے دیوستان مندر میں جنسی زیادتی کی اور پھر قتل کر دیا تو بخاری صاحب کے 'رائزنگ کشمیر‘ میں اس کیس سے متعلقہ ثبوت پیش کئے گئے اور جتنی ممکن تھی کوریج بھی دی گئی۔ اس رپورٹ کے خلاف ان جنسی درندوں کے حق میں دائیں بازو کے ہندو بنیاد پرستوں نے ایک پوری مہم چلائی جس میں بخاری صاحب پر بھی خاصا کیچڑ اچھالا گیا۔ اس طرح 20 مئی کو نریندر مودی کے دورۂ سری نگر میں اسکی تقریر پر بخاری صاحب نے ایک شدید تنقیدی کالم بھی لکھا تھا۔ بخاری صاحب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان 'ٹریک ٹو‘ مذاکرات کے ذریعے امن کے مشن پر بھی کام کرتے رہے تھے‘لیکن بخاری صاحب ایسے سیاسی نظریات سے وابستہ تھے جو موجودہ نظام کی حدود و قیود میں ہی مسائل کا حل اور امن چاہتے ہیں۔ ایسے حلقوں کی دونوں طرف بھرمار ہے۔ لیکن ایسے اصلاح پسند افراد، جن میں بہت سے دیانتدار لوگ بھی شامل ہیں‘ یہ ادراک حاصل کرنے سے شاید قاصر ہیں کہ جس نظام میں حکمران طبقات‘ سرکاری اشرافیہ اور اسلحہ بیچنے والی سامراجی طاقتوں کے سیاسی و مالیاتی مفادات ہی مذہبی و قومی منافرتوں اور جنگی جنون سے وابستہ ہوں‘ اس میں کبھی دور رس امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اس نظام کے اداروں کی ایک المناک حقیقت یہ بھی ہے کہ جس روز بخاری صاحب کا قتل ہوا اسی روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی کشمیر پر پہلی رپورٹ30 سال بعد پیش کی گئی۔ اس رپورٹ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید اور ایک بین الاقوامی کمیشن بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔بھارتی حکومت نے اس رپورٹ کو یکسر مسترد کر دیا ہے‘ لیکن کانگریس اور تقریباً تمام دوسری سیکولر پارٹیاں بھی اسی انداز سے رپورٹ کو مسترد کررہی ہیں۔ یوں کوئی متبادل نہ ہونا بھی مودی کی حاکمیت کا سب سے بڑا سہارا ہے۔چونکہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کی انتہا سے پوری دنیا واقف ہے اسی لیے رپورٹ میں بھارتی ریاست کو پہلے اور زیادہ بھاری تنقید کا نشانہ بنایا گیا ‘ لیکن اس رپورٹ میںکوئی ایسی نئی بات نہیں ہے جو یہاں کے عام لوگوں کو معلوم نہ ہو۔ 
لیکن کشمیر ہی کیا پورے خطے میں ریاستی دھونس اور جبر اتنا بڑھ گیا ہے کہ نام نہاد جمہوری حکومتوں میں بھی زہریلی اور نظر نہ آنے والی آمریت مسلط ہو چکی ہے جو براہِ راست فوجی آمریتوں سے کہیں بدتر ہے۔ ہندوستان میں نریندر مودی کی بی جے پی سرکار کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہ عمل زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ جہاں گوری لنکیش سے لے کر برکھادت جیسی مذہبی دائیں بازو کی مخالفت کرنے والی صحافی خواتین کو یا تو مار دیا جاتا ہے یا پھر پراسرار انداز میں خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ 
لیکن مودی کی دشمنی اور مذہبی منافرت کی یہ پالیسی بھی اب اتنی طویل ہوچکی ہے کہ بے اثر معلوم ہونے لگی ہے۔ چنانچہ اب یہ بھی ممکن ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت پہلی بار پاک بھارت افواج کی مشترکہ فوجی مشقیں بھی ہوں اور اسلام آباد کی سارک سربراہی کانفرنس میںمودی شرکت بھی کرے اور امن کا کوئی نیا دوطرفہ ناٹک بھی شروع کیا جائے۔ لیکن کبھی امن اور کبھی جنگی جنون کے یہ ناٹک تو ستر سال سے یہاں چلتے رہے ہیں اور یہ ایک ہی سکے کے دو رخ بن کے رہ گئے ہیں۔ 
مسئلہ صرف کشمیر کا بھی نہیں ہے۔ برصغیر کے تقریباً ڈیڑھ ارب عام لوگ ہر طرح کی غربت، محرومی اور ذلتوں کا شکار ہیں۔ دنیا کی آدھی غربت اس خطے میں پلتی ہے‘ لیکن یہاں کے حکمران طبقات کو صرف دولت اور طاقت کی ہوس ہی مقدم ہے۔ اس نظام میںنسل انسان کا مقدر یہی بنا دیا گیاہے۔ جب تک اس نظام کی حاکمیت رہے گی یہ بربادی بڑھتی ہی جائے گئی۔ مسئلہ صرف اس کو پرکھنے اور سمجھنے کا نہیں ہے اس سرمائے کے نظام کو بدلنے کا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں