فرانس کے تاریخی کارزار میں طبقاتی جنگ اور معرکے کانتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ رعونت زدہ صدر میکرون اور ظلم وجبر کی تاریخی علامت فرانس کی ریاست نے منگل 4دسمبرکو فرانس کے محنت کشوں اور طلبہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں ۔ بجلی وپیٹرولیم سمیت بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں اضافوں کو نہ صرف واپس لیا گیابلکہ ان کو ضمنجمد کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ۔ لیکن تحریک کے تیور اور اعتماد بتارہے ہیں کہ میکرون کی سبکدوشی اور دوسرے بڑے مطالبات کی مکمل تکمیل کے بغیر زندگی معمول پر جانے کو تیار نہیں۔
1968ء کے بعد فرانس میں حالیہ تحریک سب سے بڑی عوامی بغاوت ہے۔یہ بے دھڑک بغاوت برق بن کر کوندی اور پوری ریاست کو ہلا کے رکھ دیا۔ اس کی تپش کی شدت کی انتہائیں بتاتی ہیں کہ بظاہر خاموش طبقاتی معاشرے بھی ناانصافیوں، استحصال اور دولت کی مسلسل غیر مساوی تقسیم کو ہرگز تسلیم نہیں کر رہے ہوتے۔ برداشت کی بھی حدود ہوتی ہیں۔ جتنے مکارانہ ستم اس معاشرے پر ڈھائے گئے ہیں اور جتنے طویل عرصے بعد یہ تحریک پھٹی ہے اسی حساب سے عام لوگوں میں انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے۔ اور یہ سب ایک ایسے معاشرے میں ہو رہا ہے جسے پسماندہ ممالک کے لوگ بڑا خوشحال اور 'آئیڈیل‘ سمجھتے ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں میں سرمایہ داری کا جبر و استحصال کچھ کم نہیں ہے۔ بس شکلیں اور طریقہ واردات مختلف ہیں۔
یہ درست ہے کہ مظاہروں میں انتہائی دائیں بازو کے رجحانات (بالخصوص نیشنل فرنٹ) کے حامی بھی موجودرہے ۔ لیکن اول تو یہ بہت چھوٹی اقلیت میں رہے اور دوسرا یہ کہ ہر خودرو تحریک اپنے آغاز میں نہ صرف نظریات بلکہ ترکیب کے لحاظ سے بھی کئی طر ح کے تذبذب کا شکار ہوتی ہے اور وقت کے ساتھ ہی صراحت، نکھار اور بلوغت حاصل کرتی ہے جس میں انقلابیوں کی مداخلت اور درست حکمت عملی کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔ لیکن اس تحریک کی سب سے بڑی کامیابی فرانس کی 70 فیصدآبادی کی حمایت ہے۔ شدید ٹھنڈ اور بارشوں کی پروا کیے بغیر لاکھوں لوگوں نے تاریخ کے میدان میں اتر کر مروجہ اقتدار کو چیلنج کیا۔ فرانس کے سرمایہ داری نواز صدر میکرون کی حمایت 18 فیصد سے بھی نیچے گر گئی ہے۔پولیس اور تحریکیں کچلنے کے دوسرے خصوصی اداروں نے ظلم کی انتہا کر دی ۔ ریاستی اشتعال کاروں کی مداخلت سے املاک کی تباہی، جلائو گھیرائو اور خون خرابے کی وارداتیںہوئیں۔ کارپوریٹ میڈیا حسب روایت یا تو خاموشی اختیار کیے رہا یا پھر تحریک پر تخریب کاری کے الزامات عائد کرتا رہا۔
اس تحریک کامروجہ سیاسی پارٹیوں اور ٹریڈ یونینوں کے روایتی لیڈروں کے کنٹرول اور عمل دخل میں نہ ہونا بھی تحریک کی منفرد خصوصیت تھی۔لیکن اس خود رو تحریک کے آگے حکومت کو بالآخر گھُٹنے ٹیکنے پڑے اور قیمتوں میں اضافہ یکسر واپس لینا پڑا۔ طلبہ کی پرتیں بھی تحریک میں شامل ہوئیں اور ملک بھر میں طلبہ نے 100کے قریب سکولوں کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کردیں۔ یہ ایک طرح کی شہری مورچہ بندی کا آغاز تھا جو یورپ بالخصوص فرانس میں ایسی تحریکوں کی خاصیت رہی ہے۔ 1968ء کی تحریک میں بھی پورے پیرس کو طلبہ نے ایسی مورچہ بندیوں سے جام کر دیا تھا۔
ایک طویل عرصے تک فرانس کے محنت کشوں اور طلبہ نے مسلسل کٹوتیاں (آسٹیریٹی) اور دوسرے معاشی حملے برداشت کیے ہیں۔ ان کی روایتی قیادتوں نے انہیں مسلسل مایوس اور بدگمان ہی کیا ہے۔ ''سوشلسٹ پارٹی‘‘ کی پچھلی حکومت نے اولاندے کی قیادت میں جارحانہ سرمایہ داری کی انتہا کر دی تھی۔ کمیونسٹ پارٹی آف فرانس، جو کبھی یورپ کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی ہوا کرتی تھی، اب ایک کھنڈر بن چکی ہے۔ ایسے میںایک خلا اور سکوت تھا جس میں میکرون حکومت نے آتے ہی زیادہ شدید کٹوتیاں شروع کر دی تھیں۔ امیروں پر ٹیکس مسلسل ختم کیے جا رہے تھے اور سارا بوجھ محنت کش طبقے پر ڈالا جا رہا تھا۔ ایسے میں پہلے ریلوے یونینوں نے بندشوں اور ہڑتالوں کا بتدریج سلسلہ شروع کیا، لیکن میڈیا نے ''عوام‘‘ کے خلاف مزدوروں کی سازش قرار دے کر اس تحریک کی حمایت کو جلد ہی کند کر دیا۔ روایتی یونین لیڈر پسپا ہو کر بیٹھ گئے۔ میکرون نے جشن منایا اور فرانس کے فولادی مزدوروں پر غلبہ حاصل کر لینے کا دعویٰ کر دیا۔ پھر اور زیادہ شدت سے کٹوتیاں شروع کردی گئیں۔ طلبہ کی تحریکیں ابھریں۔ بکھر گئیں۔ حکمرانوں کے ماہرین کی میکانکی سوچ کے مطابق طبقاتی کشمکش ہی دم توڑ چکی تھی۔ لیکن حالیہ بغاوت، جس کی فوری وجہ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ بنا، جس برق رفتاری سے بھڑکی‘ اس میں وہ سارے غم و غصے پھر سے ہرے ہو گئے ۔ فرانس میں گاڑیوں میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ایندھن ڈیزل ہے جس کی قیمتوں میں گزشتہ 12 ماہ میں 23 فیصد اضافہ ہوا اور یہ اس وقت سب سے بلند سطح پر ہیں۔ حالیہ تحریک 'پیلی جیکٹوں والوں کی تحریک‘کے طور پر مشہور ہوئی کیونکہ فیول کی قیمتوں میں مسلسل اضافوں سے تنگ آ کر اس کا آغاز ڈرائیوروں نے کیا جنہیں فرانسیسی قانون کے مطابق گاڑی میں پیلے رنگ کی شوخ جیکٹ رکھنی پڑتی ہے تاکہ خرابی کی صورت میں اسے پہن کر گاڑی کی مرمت کر سکیں۔ لیکن فوری وجوہات سے ہٹ کر یہ رنگ احتجاج کی علامت بن گیا۔ جرات مندانہ تحریکیں اپنے رنگ بھی خود تخلیق کر لیا کرتی ہیں جو پوری دنیا میں ان کی علامت بن جاتے ہیں۔
اوائل میں میکرون حکومت اگرچہ ''طاقتور‘‘ ہونے کاڈھونگ رچاتی رہی لیکن ابتدائی دنوں کی ڈھٹائی کے بعدجب تحریک ختم ہونے کی بجائے مزید زور پکڑ گئی تو مذاکرات کے ذریعے ہار تسلیم کرنا پڑی ۔تحریک اس قدر زور پکڑرہی تھی کہ غیرمعمولی صورتحال میں ساری حکومت کی معزولی کو بھی رد نہیں کیا جا سکتاتھا۔ لیکن بہرصورت جن طبقاتی تضادات کا اظہار اس تحریک کی شکل میں ہواوہ آنے والے دنوں میں اپنا سماجی و سیاسی اظہار جاری رکھیں گے۔ ریاست کی اشتعال انگیزی اور تخریب کاری سے پیرس کی تاریخی عمارات اور عجائبات کے چہروں پر جو زخم لگے ہیں وہ مٹنے میں بہت وقت لگے گا۔ لیکن ان پتھروں پر لگے گھائو‘ عام انسانوں کے جسموں اور روحوں پر لگی ضربوں سے زیادہ اذیت ناک نہیں ہوسکتے۔
فرانس کی حالیہ تحریک نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیاکہ پارٹیاں اور قیادتیں آتی جاتی رہتی ہیں، لیکن جب تحریکیں بھڑک جائیں اور انقلابی راستوں پر چل نکلیں تو اپنے راستے اور قیادتیں بھی تراش سکتی ہیں۔ لیکن اس سے بڑھ کر یہ عیاں ہوا ہے کہ طبقاتی کشمکش ناقابل مصالحت ہے۔ وہ پسپا تو ہو سکتی ہے، ماند بھی پڑ سکتی ہے‘لیکن مر نہیں سکتی۔
فرانس میں شاید جدید دنیا کی تاریخ کے سب سے زیادہ اور سب سے سبق آموز انقلابات ہوئے ہیں۔ مارکس اور اینگلز نے انقلابی جدوجہد کی پرکھ کی بنیاد پر فرانس کو انقلابات کی ماں کہا تھا۔ جدید فرانس ایک بورژوا انقلاب کی پیداوار ہے۔ اس کے بعد پیرس کمیون سمیت کئی سوشلسٹ انقلابات بھی اُٹھے جو منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکے۔ ان میں 1968ء کا انقلاب بالخصوص قابل ذکر ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ فرانس میں سوشلسٹ انقلاب کبھی فتح یاب نہیں ہوگا۔
آج سرمایہ داری نہ صرف فرانس بلکہ عالمی سطح پر جن حالات میں داخل ہوچکی ہے ان میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیوں اور روایتی قیادتوں کی زوال پذیری کے باوجود سوشلسٹ انقلاب کی اشد ضرورت ہے۔ اس تحریک نے یہ ضرورت اور انقلاب کا امکان زیادہ واضح کر دیا ہے۔ دنیا کے کونے کونے میں نوجوانوں اور محنت کشوں میں نئے انقلابی ارمان بیدار ہو رہے ہیں۔ یورپ میں ان کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔ اٹلی کے مزدوروں نے فرانس میں بغاوت کا ساتھ دیتے ہوئے سرحد پر دونوں ملکوں کے درمیان ٹریفک سرنگ بند کر دی تھی۔ یورپ کے سامراجی ایوان لرز رہے ہیں۔ ''فرانس تمام انقلابات کی ماں ہے۔‘‘ آج مارکسی استادوں کے قول کی سچائی افق پر نمایاں ہے۔