"DLK" (space) message & send to 7575

سامراج کا ٹوٹتا غلبہ

آج امریکی سامراج شدید ترین داخلی و خارجی بحران کا شکار ہے جو اس کی تاریخی تنزلی اور سرمایہ دارانہ نظام کی متروکیت کی غمازی کرتا ہے۔ داخلی طور پر امریکی مالیاتی خسارے اور اقتصادی بحران نے وائٹ ہائوس اور کانگریس کے درمیان تنازعات کو امریکی ریاست کے اداروں ہی کی بندش کی صورت میں تصادم کی شکل دے دی ہے۔ تقریباً ایک ماہ سے 8 لاکھ سرکاری ملازمین اجرتوں سے محروم ہیں‘ اور اپنے روزگار کے بارے میں مشکوک ہیں۔ اس مالیاتی بندش کی وجہ سے ایف بی آئی، کوسٹ گارڈ اور دیگر انتہائی حساس سکیورٹی کے ادارے نیم مفلوج ہو چکے ہیں۔ خارجی طور پر بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی شام اور افغانستان سے فوجی انخلا کی ٹویٹ بازی واشنگٹن اسٹیبلشمنٹ اور ایوان صدر کے درمیان تضادات کو بڑھانے کا موجب بن رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا صدر منتخب ہونا ہی بنیادی طور پر امریکی سیاست کے انتشار کا عکس تھا جو سامراجی معیشت کے شدید بحران کی پیداوار تھا۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے منصوبے پر سامراجیوں کے سب سے اہم تھنک ٹینک اور پالیسیوںکی بنیادیں رکھنے والے ادارے رینڈ (Rand) کارپوریشن کی اتوار کو شائع ہونے والی انتہائی تشویشناک رپورٹ کے مطابق ''امریکی انخلا سے ''طالبان‘‘ کی امن مذاکرات میں دلچسپی ختم ہو جائے گی اور افغانستان کے کچھ ہمسایہ ممالک (روس، ایران، بھارت، چین اور ازبکستان‘ جو ماضی میں بھی مختلف مذہبی اور نسلی گروپوں کی حمایت کے ذریعے اپنے مفادات کا کھلواڑ کرتے رہے ہیں) زیادہ متحرک ہو جائیں گے۔ اس سے خانہ جنگی اور خونریزی میں مزید اضافہ ہو گا‘‘۔
افغانستان سے متعلق حالیہ متضاد بیانات اور سفارت کاری کی کشیدگی سے امریکی سامراجیوں کی پریشانی واضح ہو رہی ہے۔ پاکستان کی ریاست کے بارے میں متضاد بیانات اور ٹرمپ کے یوٹرن یہ ثابت کرتے ہیں کہ امریکہ کے حالیہ صدر کا کلیدی اصول ہی یہی ہے کہ ان کا کوئی اصول ہی نہیں ہے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو شام سے فوجیں واپس بلانے کی پالیسی سامراجیوں کے لیے داخلی اور مشرقِ وسطیٰ میں اپنے حواریوں سے تعلقات میں زیادہ بڑے انتشار کو جنم دے رہی ہے۔ 19 دسمبر 2018ء کو ٹرمپ نے 2000 امریکی فوجیوں کے انخلا کا جو اعلان کیا‘ اس کے خلاف واشنگٹن کی اشرافیہ خصوصاً جرنیلوں کا سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ وزیر دفاع 'جیمز میٹس‘ جس کو امریکی محنت کش ''Mad Dog‘‘ گردانتے ہیں‘ نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ یہی جیمز میٹس ''فلوجہ (عراق) کے قصاب‘‘ کے طور پر بھی بدنام ہے۔ میٹس نے نیو یارک ٹائمز میں لکھا ''یہ انخلا‘ شام کی حکومت اور اس کے روسی اور ایرانی اتحادیوں کے آگے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہو گا‘‘۔ اسی طرح امریکی فوجی اشرافیہ کے ایک اور ہیرو جنرل سٹینلے میکرسٹل (Stanley A. McChrystal) نے وارننگ دی کہ ''قومی سالمیت اور سکیورٹی کی جانب ٹرمپ کا رویہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے‘‘۔ لیکن 8 سال قبل افغانستان میں امریکی فوج کے سپہ سالار کے طور پر اسی جنرل میکرسٹل نے امریکی نائب صدر 'جو بائیڈن‘ کے اس بیان کی شدید مذمت کی تھی کہ ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور دوسری خلیجی ریاستیں ایک منظم انداز میں القاعدہ اور شام میں دوسرے دہشت گرد گروہوں کی امداد اور تربیت کر رہی ہیں۔ ان کا صرف ایک مقصد ہی تھا کہ بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے۔ اس وقت امریکہ کے سنجیدہ فوجی تجزیہ کار بیان کر رہے ہیں کہ ''داعش کے جنگجو بھاگ تو رہے ہیں لیکن ان کی شکست مکمل نہیں ہو سکی ہے‘‘۔ ٹرمپ کی انخلا والی پالیسی کے خلاف امریکی اسٹیبلشمنٹ کی مہم میں نیویارک ٹائمز اور دوسرا کارپوریٹ میڈیا بھی سرگرم ہے۔ اسی طرح امریکی حکمران طبقے کے ایک کلیدی تھنک ٹینک‘ فارن ریلیشنز کونسل (CFR) کے سربراہ اور امریکی پلاننگ کمیشن کے سابقہ ڈائریکٹر رچرڈ ہاس (Richard M.Haas) نے بیان دیا ہے کہ '' شام پر اسرائیلی ہوائی حملے، یمن میں سعودی جنگ کا جاری رہنا، ترکی کا شامی کردوں پر حملہ آور ہونا، ایران کا خطے میں اثرورسوخ اور غلبے کو پھیلانا، روس کا سب سے زیادہ خطے کی حاوی طاقت بن جانا‘ یہ سبھی بعد از امریکی انخلا کے مشرق وسطیٰ کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں‘‘۔ اسی طرح جنگجو ڈیموکریٹوں کا اپنے ریپبلکن ساتھیوں سے اس مہم میں جرنیلوں کے ساتھ مل جانا‘ اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ امریکی صدور حتمی پالیسیوں کا تعین نہیں کرتے بلکہ یہ طاقت صرف کھربوں ڈالر کے کارپوریٹ سرمایہ دار طبقے کے پاس ہے۔
نیویارک ٹائمز کی ایک حالیہ رپورٹ سے واضح ہو گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا انخلا کے لیے دیا گیا تیس دن کا وقت بے معنی ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے موجودہ وزیر خارجہ 'پومپیو‘ نے بھی ٹرمپ کی اس میعاد پر گول مول جواب دے کر اس کی تاخیر اور شاید کبھی بھی نہ کیے جانے والے امکان کو رد نہیں کیا ہے۔ اس سارے انخلا کے عمل میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر کے اس کو لا متناہی مدت کے لیے موخر بھی کروایا جا سکتا ہے۔ اس خانہ جنگی میں امریکی جارحیت کے بعد سے اب تک 350,000 سے 500,000 شامی باشندوں کا قتل عام ہو چکا ہے۔ رچرڈ ہاس نے ہی کچھ عرصہ قبل یہ لکھا تھا ''ہم مشرقِ وسطیٰ سے اپنے ہاتھ دھو کر نکلنا چاہتے ہیں لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ ہمیں ایسا کرنے نہیں دے گا‘‘۔ آج یہ حقائق کھل کر سامنے آ گئے ہیں کہ امریکی سامراجیوں نے جو نام نہاد'' فری سیرین آرمی‘‘ تشکیل دی تھی وہ کوئی ''جمہوریت پسند‘‘ یا ''اعتدال پسند‘‘ عناصر پر مبنی نہیں تھی بلکہ القاعدہ، النصرہ اور دوسرے جنونی گروہوں کے 30,000 جنگجو دہشت گردوں پر مبنی تنظیم تھی۔ اس کو امریکی اور اس کے شاہی حواریوں کی دولت پر چلایا جا رہا تھا۔ اس میں صرف امریکہ کے خزانے کا خرچہ 5 ارب ڈالر سالانہ تھا۔
امریکی سامراج کی تمام تاریخ ہی ایسی پراکسی جنگوں، براہِ راست جارحیتوں اور داخلی دراندازیوں پر مبنی رہی ہے۔ افغانستان میں 50,000 کی ''نجی‘‘ (ٹھیکیداروں اور کرائے کے قاتلوں پر مبنی) فوج سے دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی جارحیت کروائی گئی۔ نکاراگوا میں منشیات کے کاروبار سے منسلک مجرموں کو پروان چڑھا کر بائیں بازو کی حکومت کے خلاف خانہ جنگی کروائی گئی۔ کیوبا میں 1961ء کی بالواسطہ جارحیت ڈومینیکن ریپبلک کی سرزمین سے کروائی گئی۔ اسی طرح ویت نام سے کوریا اور مشرقِ وسطیٰ سے افریقہ، یمن تک ہر قسم کی سامراجی جارحیت کی گئی۔ لیکن شام میں امریکی سامراج کی حالیہ شکست‘ افغانستان اور عراق کی شکستوں سے بھی کئی حوالوں سے زیادہ کاری نوعیت کی ہے۔ ایک طرف ٹرمپ امریکی خزانے کے دیوالیہ ہونے کی وجہ سے فوجی اخراجات ختم کروانے کے لیے فوجیں واپس نکالنے کی پالیسی لاگو کرنا چاہ رہے ہیں۔ دوسری جانب امریکہ میں لاک ہیڈ مارٹن (Lack Heed Martin) سے لے کر جنرل ڈائنامکس (General Dynamic) تک امریکی کھرب پتی اسلحہ ساز صنعت کے دھنوانوں کے مفادات ہیں جو ان جنگوں میں شدت اور امریکی مداخلت کو جاری رکھنے پر مبنی ہیں۔ یہ وہ تضاد ہے جس کا آج کے امریکی سامراج اور حکمرانوں کو سامنا ہے۔ جنگی آلات اور تیل کی اجارہ داریوں نے امریکی سیاستدانوں اور جرنیلوں میں اربوں ڈالر کے کمیشن کے عوض خونریزی جاری رکھنے کا ایک مستقل پروگرام جاری رکھا ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اگر امریکی صدر بھی ایسی جارحانہ پالیسیوں میں رخنہ اندازی کرنے کی کوشش کرے تو امریکی ریاست اس کو بھی اس کی اصل اوقات فوری یاد دلا رہی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی سرمایہ داروں اور ان جنگی اجارہ داریوں کے مالکان کو نہ امریکہ سے کوئی ہمدردی ہے نہ اس کے عوام سے۔ انہی کے کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے امریکی محنت کشوں کو ذہنی طور مفلوج کرنے کیلئے حب الوطنی پھیلائی جاتی ہے۔ امریکی سامراج کا زوال اس کے کارپوریٹ سیکٹر اور اسکی ریاست کے مالی معاملات میں تضادات اور تصادم سے واضح ہوتا ہے۔ آج امریکی کارپوریٹ سرمائے کا ''امریکی مفادات‘‘ سے بھی ٹکرائو بھڑک رہا ہے۔ تاریخی طور پر اس متروک نظام میں استحکام، امن اور ترقی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ ہر طرف مزید بربادی ہی پھیلائے گا۔ لیکن امریکہ میں ہی برنی سینڈرز کی مہم میں ایک پوری نئی نسل سوشلزم کے حق میں اتر آئی‘ جو امریکہ اور دنیا بھر کے عام انسانوں کے لیے رجائیت کا باعث بنی۔ امریکہ میں برپا ہونے والا سوشلزم تمام نسلِ انسان کی ترقی میں ایک فیصلہ کن پھلانگ ثابت ہو گا۔ یہ انسانیت کے درخشاں مستقبل کی نوید اور اس کو تشکیل دینے والی فولادی بھٹی ثابت ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں