"DLK" (space) message & send to 7575

1946ء کا فراموش کردہ انقلاب …(2)

ریلوے سٹیشنز، بندرگاہوں، ڈاک خانوں اور دوسرے شعبوں کے مزدور بھی اس تحریک سے ریڈیکلائز اور ہڑتالی تحریک میں شامل ہو رہے تھے۔ یہ ایک ایسی صورت حال تھی جس کا برطانوی سامراج کو قطعاً اندازہ نہیں تھا اور یہی وہ تحریک تھی جس نے انہیں پست قدمی پر مجبور کر دیا۔ مارچ 1956ء کو کلیمنٹ ایٹلی، جو بعد از جنگ برطانیہ کا وزیر اعظم تھا، نے ایک انٹرویو میں کہا، ''جہازیوں کی بغاوت نے برطانیہ کو یہ احساس دلایا کہ برطانوی راج کو قائم رکھنے کے لیے ہندوستانی مسلح افواج پر مزید تکیہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ جب ان سے سوال کیا گیا کہ برطانیہ کے ہندوستان کو چھوڑنے کے فیصلے میں گاندھی اور اس کی تحریک کا کتنا کردار تھا تو ایٹلی کے ہونٹ حقارت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ پھیل گئے اور اس نے کہا، '' بہت کم‘‘۔
سر سٹیفورڈ کرپس نے برطانوی دارالعوام میں ایک بحث کے دوران کہا تھا، ''(رائل انڈین) آرمی میں ہندوستانی، برطانوی افسروں کا حکم نہیں مان رہے... ان حالات میں اگر ہم نے لمبے عرصے تک ہندوستان میں حکمرانی کرنی ہے تو ہمیں چالیس کروڑ کے اس وسیع ملک میں ایک مستقل برطانوی فوج رکھنی ہو گی۔ ہمارے پاس نہ وہ فوج ہے اور نہ پیسے...‘‘۔
کراچی میں ہڑتالی جہازیوں نے منوڑا جزیرے میں لنگر انداز HMS ہندوستان اور بہادر شپ پر قبضہ کر لیا تھا۔ پھر ان جہازیوں نے کراچی کی گلیوں میں ایک جلوس نکلا جس میں شہریوں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔ کراچی کے برطانوی فوجی کمانڈر نے ان کو کچلنے کے لیے بلوچ سپاہیوں کے دو پلاٹون بھیجے‘ لیکن انہوں نے اپنے بھائیوں پر گولی چلانے سے انکار کر دیا۔ برطانویوں نے اس کے بعد اپنے 'وفادار‘ گورکھا سپاہیوں کو بغاوت کو کچلنے کے لیے بھیجا۔ برطانوی کمانڈر اس وقت ہکا بکا رہ گئے‘ جب گورکھا سپاہیوں نے بھی ہڑتالی سپاہیوں پر گولی چلانے سے انکار کر دیا۔ پھر برطانوی سپاہیوں کو بلایا گیا‘ جنہوں نے گولیاں چلانا شروع کر دیں اور جہازوں پر موجود جہازیوں نے انتقامی اقدام کیے۔ فائرنگ، حملے اور جوابی حملے چار گھنٹے تک جاری رہے۔ چھ جہازی مارے گئے، تیس سے زائد زخمی ہوئے۔ ٹریڈ یونینوں نے کراچی میں عام ہڑتال کا اعلان کیا‘ اور پورا شہر بند ہو گیا۔ 35000 سے زائد لوگوں، جن میں ہندو اور مسلمان سبھی شامل تھے، نے عیدگاہ کی طرف مارچ کیا اور تمام تر جبر، خوف، گرفتاریوں، لاٹھی چارج اور فائرنگ کے باوجود ایک بڑی ریلی نکالی جس میں پچاس سے زائد مظاہرین زخمی ہوئے۔
عالمی جنگِ دوئم کے خاتمے کے ساتھ ہی ہندوستان محنت کش طبقے کی تحریکوں کے ایک طوفانی عہد میں داخل ہو رہا تھا۔ تمام بڑے شہروں بمبئی، کلکتہ، الہ آباد، دہلی، مدراس، لاہور اور کراچی میں صنعتی ہڑتالیں اپنی پوری قوت کے ساتھ پھٹ پڑیں۔ ہندوستانی محنت کش طبقہ جراتمندانہ انداز میں تمام تر ریاستی جبر، گرفتاریوں، تشدد اور گولیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اس جدوجہد میں فیصلہ کن قوت کے طور پر کود پڑا۔
1946ء کے آغاز میں اس ہڑتالی لہر نے ایک بلند تر سیاسی کردار اپنا لیا۔ ''آزاد ہندوستان حکومت‘‘ کے رہنما اور انڈین نیشنل آرمی کے منتظم سبھاش چندر بوس کی سالگرہ منانے والے مظاہرین پر گولی چلانے کے خلاف 24 جنوری 1946ء کو 175,000 ٹیکسٹائل اور صنعتی مزدور ہڑتال پر چلے گئے۔ ریلوے مزدوروں کی ہڑتال اور پورے ہندوستان میں طلبہ کے مظاہروں نے صنعتوں اور خدمات کے دوسرے شعبوں میں ہندوستانی پرولتاریہ کو ایک جنگجویانہ جدوجہد میں دھکیل دیا۔ ان تمام تر مظاہروں میں سب سے پرجوش نعرہ 'انقلاب زندہ باد‘ کا تھا جو پورے ہندوستان میں گونج رہا تھا۔
نوآبادیاتی حکمرانی کے آخری سالوں میں پورے ملک میں معاشی مسائل کے گرد گھومتی ہڑتالوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا‘ جن میں ملکی سطح پر پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین کی ہڑتال سب سے نمایاں تھی۔ جنگ کے دوران معاشی بدحالیوں کے خلاف مجتمع غم و غصہ، مہنگائی، خوراک اور دوسری ضروریات کی قلت اور اجرتوں میں گراوٹ نے محنت کش طبقے کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا تھا۔ آزادی کی امید میں لوگوں کی توقعات آسمان کو چھو رہی تھیں۔ وہ آزادی کو اپنے تمام تر دکھوں کا مداوا سمجھتے تھے۔
یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کانگریس اور مسلم لیگ، جو بظاہر سخت حریف تھیں، نے رائل انڈین نیوی کی سرکشی کی مذمت کی تھی۔ مقامی بورژوازی کے ان لیڈروں نے بھی ہڑتالی مزدوروں اور جہازیوں کی مذمت کی تھی۔ گاندھی نے ایک بیان جاری کیا جس میں باغیوں پر تنقید کی گئی تھی۔ ولبھ بھائی پٹیل نے مطالبہ کیا کہ جہازی ہتھیار ڈال دیں اور ہڑتالی کمیٹی کے نائب صدر مدن سنگھ کو بمبئی کے ایک فلیٹ میں بلا کر بغاوت کو ختم کرنے کا کہا۔ نہرو بھی کسی سے پیچھے نہ تھے۔ انہوں نے بھی مدن کے ساتھ ایک اور میٹنگ میں اسے اور اس کے ساتھیوں کو ہتھیار ڈالنے اور بغاوت کو ختم کرنے کی نصیحت کی۔ 
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اپنے رہنمائوں کی نظریاتی کج فہمیوں کی وجہ سے شش و پنج میں تھی جبکہ کمیونسٹ پارٹی 'عوام کے ساتھ‘ رہنے کی خواہش رکھتی تھی تاکہ جنگ کے دوران ہونے والی اپنی ہزیمت کا ازالہ کر سکے۔ ان کے کارکنان، بالخصوص طلبہ، نے پرجوش انداز میں بمبئی اور کلکتہ میں سرکشی میں شمولیت کی۔ پالیسی میں اس فرق کی وجہ سے پارٹی میں پھوٹ کا آغاز ہوا۔ رنادیو پارٹی کا ایک اہم ٹریڈ یونین لیڈر تھا اور اسی وجہ سے ہڑتال میں سرگرمی سے شامل تھا۔ وہ سرکشی سے بہت متاثر ہوا۔ وہ چاہتا تھا کہ پارٹی انقلابی تحریک کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لے لے‘ جبکہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری جوشی ماسکو میں سٹالن کے احکامات کے زیر اثر تھے۔ لیکن فروری 1948ء میں کلکتہ میں منعقد ہونے والی پارٹی کانگریس میں پارٹی نے جوشی کی بجائے رنا دیو کو کمیونسٹ پارٹی کا جنرل سیکرٹری منتخب کر لیا۔ لیکن 1950ء میں رنا دیو کو برطرف کر دیا گیا اور ''بائیں بازو کے مہم جو‘‘ کا الزام لگا کر اس کی مذمت کی گئی۔ 1964ء میں پھوٹ پڑ گئی اور دو پارٹیاں CPI اور CPI (M) ابھر آئیں۔
سیاسی قیادت کی غداری کی وجہ سے بالآخر تحریک بکھر گئی۔ 24 فروری 1946ء کو تمام کشتیوں پر سفید جھنڈے لہرائے گئے۔ اپنے آخری سیشن میں ہڑتالی کمیٹی نے ایک قرارداد پاس کی جس میں یہ اعلان کیا گیا، ''ہماری سرکشی ہمارے لوگوں کی زندگیوں میں ایک اہم تاریخی واقعہ تھا۔ پہلی مرتبہ باوردی اور بغیر وردی کے مزدوروں کا خون ایک ہی دھارے میں مشترکہ مقصد کے لیے بہا۔ ہم باوردی مزدور یہ بات کبھی نہیں بھولیں گے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ ہمارے پرولتاری بہن بھائی بھی اس بات کو نہیں بھولیں گے۔ ہماری آنے والی نسلیں سبق سیکھتے ہوئے ہمارے ادھورے کام کو پورا کریں گی۔ محنت کش طبقہ زندہ باد۔ انقلاب زندہ باد!‘‘
ایک ایسی انقلابی پارٹی جن کے کیڈرز کی تربیت مارکس ازم کی بنیادی تعلیمات پر ہوئی ہو، وہ ان جہازیوں، سپاہیوں اور لاکھوں مزدوروں کو ایک سمت دکھا سکتی تھی‘ جو متحدہ ہندوستان میں سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ بمبئی، لاہور، کلکتہ، کراچی، الٰہ آباد، پشاور، مدراس، کانپور، دہلی اور دوسرے بڑے شہروں میں آسانی سے سوویتیں قائم کی جا سکتی تھیں‘ لیکن بدقسمتی سے یہ تاریخی موقع ضائع ہو گیا۔ سامراجی جنگ کی حمایت کرکے برطانیہ کو خوش کرنے کے اقدام کے باوجود جب اقتدار منتقل کرنے کا وقت آیا تو برطانوی سامراجیوں کے لیے بہترین ترجیح کانگریس اور مسلم لیگ جیسی بورژوا پارٹیاں ہی تھیں کیونکہ وہ سرمایہ دارانہ لوٹ مار کا تسلسل جاری رکھنا چاہتے تھے۔
1946ء کے انقلاب کی فتح تاریخ کے دھارے کو موڑ سکتی تھی۔ عوامی تحریک نہ تو قومی آزادی کے مرحلے پر رکتی اور نہ سرمایہ دارانہ استحصال اور جبر کو قبول کرتی۔ 1947ء کی گرمیوں میں ہونے والا قتل عام، بالخصوص پنجاب اور بنگال میں، آج بھی جنوبی ایشیا کے سماجی تانوں بانوں کو چیر رہا ہے۔ یہ رک سکتا تھا۔ متحدہ طبقاتی جدوجہد آگے بڑھ کر سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سماجی معاشی تبدیلی لا سکتی تھی۔ چین میں اس وقت پہلے ہی ایک انقلابی طوفان برپا تھا۔ متحدہ ہندوستان میں ایک انقلابی فتح سے پورے براعظم ایشیا پر سرخ سویرا طلوع ہو سکتا تھا۔ سرمایہ داری کو اکھاڑ کر سامراجی جبر کی زنجیروں کو توڑا جا سکتا تھا‘ جس کے اثرات عالمی سطح پر انسانیت کو سوشلسٹ مستقبل سے مزید قریب تر کر دیتے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں