"DLK" (space) message & send to 7575

سراب

ایک دیوالیہ نظام کے حکمران مسائل کو حل کرنے کی بجائے ایسے ناٹک ہی کر سکتے ہیں جیسے آج کل کیے جا رہے ہیں۔ بیشتر بنیادی ضروریات آبادی کی اکثریت کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ علاج بذات خود ایک اذیت بن کے رہ گیا ہے۔ 
سرمایہ داری کے اپنے معیارات یعنی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق حکومتوں کے لیے جی ڈی پی کا کم از کم 6 فیصد صحت پر خرچ کرنا ضروری ہے جبکہ پاکستان پچھلے 11 سال سے صرف 0.5 فیصد سے 0.8 فیصد تک صحت پر خرچ کر رہا ہے۔ صحت کی سہولیات کے حساب سے 195 ممالک میں پاکستان 154ویں نمبر پر آتا ہے‘ جس میں انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھوٹان بھی اس سے آگے ہیں۔ یہاں پیدا ہونے والے 1000 بچوں میں سے 88 زندگی کے بجائے موت لے کے دنیا میں آتے ہیں۔ سالانہ 216000 بچے پیدائش کے بعد پہلے ماہ ہی اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے‘ جہاں لوگوں کو اپنی جیب سے علاج خریدنے کے لئے بھاری رقوم خرچ کرنا پڑتی ہیں۔
ڈاکٹرز کی تعداد کے حساب سے پاکستان میں 1200 افراد کے لیے صرف ایک ڈاکٹر میسر ہے۔ صرف ڈاکٹرز ہی نہیں بلکہ پیرامیڈیکل سٹاف بھی مناسب تعداد اور مکمل تربیت کے ساتھ میسر نہیں ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے مطابق صرف کراچی میں 80000 سے زائد جعلی ڈاکٹر یا عطائی موجود ہیں۔ ہر 37ویں منٹ پر ایک خاتون نئی زندگی دنیا میں لانے کی کوشش میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ پاکستان کے 44 فیصد بچے غذائی قلت اور غیر معیاری صفائی کی صورتحال کی وجہ سے نامکمل نشوونما کا شکار ہیں۔ زیادہ تر افراد غیر سائنسی علاج کرانے پر مجبور ہیں‘ جس کی وجہ سے پیروں فقیروں کے پاس رش کم نہیں ہوتا۔ نچلی سطح پر سرکاری ڈسپنسریاں اور ہسپتال اول تو موجود نہیں اور اگر ہیں بھی تو ان کی حالت یہ ہے کہ ایک ایک بیڈ پر کئی کئی مریض لیٹے ہیں۔ صحت کا پرائمری اور سیکنڈری نظام کم و بیش ناپید ہے۔ اسی وجہ سے بڑے ہسپتالوں پر حد سے زیادہ بوجھ ہے اور مریض تبھی ہسپتال تک پہنچتے ہیں جب بیماری کو قابو کرنے کا وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ مریض ہسپتالوں کے باہر قطاروں میں ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ پسماندہ علاقوں سے ٹرشری ہسپتالوں تک پہنچنے کے لئے نہ تو مناسب سڑکیں ہیں نہ ہی کوئی انسانی ٹرانسپورٹ۔ 
سرکاری ہسپتال ویسے ہی ضرورت سے انتہائی کم اور زبوں حال ہیں اور جہاں ہیں وہاں عملہ نہیں ہے اور اگر عملہ ہو تو دوائیں دستیاب نہیں ہوتیں‘ اور اگر دوائیں بھی ہوں تو ان میں سے زیادہ تر جعلی یا گھٹیا معیار کی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستانی مارکیٹوں میں بکنے والی 45 فیصد ادویات جعلی ہوتی ہیں۔ ملک میں 4000 ادویات بنانے والے ادارے رجسٹرڈ ہیں‘ جبکہ 100,000 سے زائد ادارے ادویات بنا کر بیچ رہے ہیں‘ جن کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ پورے ملک میں ایک بھی ایسا سرکاری ہسپتال نہیں جہاں اس ملک کے حکمران طبقات یا سرکاری افسر شاہی اپنا علاج کرانا پسند کرے۔
اتنی ابتر صورتِ حال میں حکومت کی طرف سے صرف ایک ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اعلان زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ یہ ہیلتھ کارڈ کم آمدنی والے گھرانوں میں تقسیم کیے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ویسے تو 'کم آمدنی‘ کی اصطلاح بذات خود تشریح کی متقاضی ہے۔ جس حکومت کا وفاقی وزیرِ خزانہ ملک کا سب سے زیادہ تنخواہ پانے والا شخص رہا ہو‘ وہاں کم از کم اجرت میں دو منی بجٹ دینے کے باوجود ایک پیسے کا اضافہ بھی نہیں کیا گیا۔ پھر سوال یہ آتا ہے کہ یہ ہیلتھ کارڈ کس طرح تقسیم کئے جائیں گے؟ ریاستی ڈھانچے میں کرپشن اوپر سے نیچے تک اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ کسی بھی سکیم کو صاف شفاف طریقے سے عوام تک پہنچانا تقریباً ناممکن ہے۔ میرے خیال میں یہ ہیلتھ کارڈ یقینا سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے سیاسی طریقے سے تقسیم کئے جائیں گے۔ ہر پارٹی سے فیض یاب ہونے والے لوٹے اس ہیلتھ کارڈ کو تقسیم کرنے کی اجارہ داری لیں گے۔ عوام کو ایک مرتبہ پھر ہندسوں کے گورکھ دھندے میں پھنسانے کے لئے '720000‘ (روپے فی گھرانہ سالانہ) کی رقم کو بڑے بڑے حروف میں بار بار جگہ جگہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ 
یہ کارڈ بنیادی طور پر ہیلتھ انشورنس کارڈ ہے۔ انشورنس کمپنی سٹیٹ لائف ہے‘ جو غریب گھرانوں کی ہیلتھ انشورنس کرے گی اور اس کمپنی کو انشورنس کی رقم حکومت ادا کرے گی۔ ضرورت پڑنے پر سٹیٹ لائف نجی یا سرکاری ہسپتالوں کو علاج کا معاوضہ ادا کرے گی۔ تھوڑا سا غور کیا جائے تو یہ سارا گورکھ دھندا علاج کے کاروبار کو سرکاری آشیر باد دینے کے لئے ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ انتہائی عیاری سے بڑے پیمانے پر شعبہ صحت کی نجکاری کے مترادف ہے۔ بجائے علاج کو ہر انسان کا بنیادی حق تسلیم کرنے اور اسے مفت قرار دینے کے اِسے سرکاری طور پر پیسوں میں تول کے بازار کی جنس بنایا جا رہا ہے۔ اس معاملے میں ایک اہم پہلو ایم ٹی آئی ایکٹ ہے جس کے تحت سرکاری ہسپتال فیس لے کر علاج کرنے کے مجاز ہو جائیں گے۔ یہ ایکٹ تحریک انصاف حکومت خیبر پختونخوا میں نافذ کر چکی ہے اور اس ایکٹ کو اب پورے پاکستان میں نافذ کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے جس کے بعد سرکاری ہسپتالوں میں بھی علاج کی فیس نافذ کر دی جائے گی۔ پنجاب کے ہسپتالوں میں علاج معالجے اور ٹیسٹوں کی فیسوں میں کئی گنا اضافہ اِسی سلسلے کی کڑی ہے جو غریب مریضوں کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے۔ ایم ٹی آئی ایکٹ کے نفاذ کے بعد چونکہ سرکاری ہسپتال بھی فیس لے کر علاج کریں گے‘ اس لئے عوامی پریشر کو کم کرنے کے لئے یہ ہیلتھ انشورنس کارڈ بانٹے جا رہے ہیں تاکہ یہ کہا جا سکے کہ کارڈ سے ادائیگی کر دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایم ٹی آئی ایکٹ سرکاری ہسپتالوں کو 'خود مختار اداروں‘ میں تبدیل کر دے گا جس سے حکومتی فنڈنگ نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی اور سرکاری ہسپتالوں کو اپنے 'فنڈ‘ خود سے جنریٹ کرنے پڑیں گے۔ یعنی یہ نجی اداروں میں بدل جائیں گے۔ اس سے ہسپتالوں میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین (ڈاکٹر، نرسز، پیرامیڈیکل سٹاف وغیرہ) کے مستقبل پر بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ اِس نام نہاد صحت انصاف کارڈ کا ایک اور پہلو پہلے سے موجود نجی ہسپتالوں کی تجوریاں بھرنا بھی ہے‘ کیونکہ بعض مستند اخباری رپورٹوں کے مطابق جہاں یہ کارڈ جاری کیے گئے ہیں وہاں 60 فیصد ادائیگیاں نجی شعبے کو کی جا رہی ہیں۔ یوں بہر صورت معاملہ یہ ہے کہ صحت کا بجٹ بڑھانے‘ نئے سرکاری ہسپتال بنانے اور پہلے سے موجود ہسپتالوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کی بجائے لوگوں کو اِس کارڈ کی بتی کے پیچھے لگا کے نجی شعبے کی طرف ہانکا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں کارڈ حاصل کر لینے والوں کے لئے بھی علاج کی فراہمی کی کوئی ضمانت نہیں ہو گی۔ یہ سارا نظام اتنا پیچیدہ ہے کہ اکثر صورتوں میں انہیں ایک دفتر سے دوسرے دفتر، ایک قطار سے دوسری قطار اور ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال بھیجا جاتا رہے گا۔ نجی ہسپتال چند گھونٹ میں ہی کارڈ میں موجود ساری رقم پی جائیں گے‘ جس کے بعد لوگوں کی جیب سے پیسے نکلوائے جائیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہسپتالوں کی نجکاری کے بعد یہ سارا پروگرام ہی بند کر دیا جائے اور یہ کارڈ محض پلاسٹک کے ٹکڑے بن کے رہ جائیں۔ 
پاکستان جیسے معاشروں میں صحت کی ایسی سہولیات جو ایک 'انسان‘ کا حق ہونی چاہئیں‘ فراہم کرنے کے لئے جتنے بڑے پیمانے کی سرکاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے‘ اس کے بارے میں اِس نظام کے تحت سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ ہزاروں نئے ہسپتال اور لاکھوں کی تعداد میں نئے ڈاکٹر اور نرسز درکار ہیں۔ پرائمری سطح پر لاکھوں ہیلتھ یونٹ تعمیر کرنے ہوں گے۔ طبی تحقیق کے نئے ادارے کھڑے کرنا ہوں گے۔ ایسا سماجی انفراسٹرکچر اور نظامِ صحت متعارف کروانا ہو گا جو انسان کو بیمار ہونے ہی نہ دے۔ یا ہر فرد کے باقاعدہ طبی معائنے کے ذریعے بیماری کو شروعات میں ہی قابو کر لیا جائے۔ نجی ہسپتالوں اور ادویات کی کمپنیوں کو قومی تحویل میں لے کے باہم مربوط کرنا ہو گا۔ اس سب کے لئے جتنا پیسہ درکار ہے وہ شاید اِس ریاست کے مجموعی وفاقی اور صوبائی بجٹوں سے بھی تجاوز کر جائے۔ لیکن ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے تحت یہ ناممکن نہیں ہو گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں