"DLK" (space) message & send to 7575

ایران امریکہ تنازع میں نیا تناؤ …(2)

اگر تصادم ہوتا ہے تو یہ جنگ صرف ایران کو ہی نہیں بلکہ پورے خطے کو آگ اور خون میں لپیٹ دے گی۔ ایران کوئی عراق نہیں ہے۔ اس کی فوج زیادہ منظم اور مستعد ہے۔ سماج پر ریاست کی گرفت زیادہ ہے اور اسے آبادی کے کئی حصوں میں خاصی حمایت بھی حاصل ہے جو کسی بیرونی حملے کی صورت میں بڑھ سکتی ہے۔ جنگی ہتھیار بھی خاصے جدید ہیں (اگرچہ سات سو ارب ڈالر سالانہ اپنی فوج پہ خرچ کرنے والے امریکہ سے ان کا مقابلہ نہیں بنتا)۔ ایران اس وقت 'ریورس انجینئرنگ‘ کے ذریعے ڈرون جہازوں سمیت اپنے بیشتر جنگی طیارے اور میزائل خود تیار کر رہا ہے۔ مختصراً یہ کہ ایران امریکہ کو 'ٹف ٹائم‘ دے سکتا ہے۔ چند ایک جنگی جنونیوں اور احمقوں کو چھوڑ کے ان حقائق سے امریکی پالیسی ساز بھی واقف ہیں۔ 
امریکہ اور اس کے حواری ایران پر فضائی یا سمندری بم باری ہی کر سکتے ہیں۔ برّی فوج کی جارحیت امریکہ کے لئے تقریباً نا ممکن ہے۔ ایران کے اسلحہ ساز ٹھکانے اور ذخیرے زیادہ تر زیرِ زمین ہیں‘ بلکہ کہا جاتا ہے کہ اس حوالے سے زیرِ زمین سرنگوں کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے۔ فضائی بم باری کی صورت میں ان میں سے بیشتر ٹھکانے بچ جائیں گے اور ایران کو اگر مجبور کیا گیا تو وہ چند ماہ میں ایٹم بم بنا لے گا‘ جس سے صورت حال مزید سنگین ہو جائے گی اور جس کی ذمہ داری امریکہ ہی پر عاید ہو گی۔ 
ایران سے باہر کی بات کی جائے تو اس کی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ اور اس کے ذیلی گروہ لبنان، یمن، شام اور عراق میں بہت تربیت یافتہ، مضبوط اور پوری طرح مسلح ہیں۔ یوں کسی براہِ راست جنگ کی صورت میں اسرائیل، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور خطے کے دوسرے امریکی اتحادیوں کے لئے نئی مشکلات اور عذاب ابھریں گے۔ ان کو شدید نقصانات اٹھانے پڑ سکتے ہیں۔ 
لیکن سب سے بڑھ کے یہ کہ عالمی تجارت میں تہلکہ مچ جائے گا۔ تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی۔ مثلاً پاکستان میں جو حالات چل رہے ہیں‘ جنگ کی صورت میں شاید پٹرول کی فی لیٹر قیمت ایک ہزار روپے یا اس سے بھی اوپر پہنچ جائے۔ سرمایہ دارانہ معیشتوں کی اپنی حالت پہلے ہی پتلی ہے۔ بیشتر معیشتیں ویسے ہی منہدم ہو جائیں گی۔ پوری دنیا میں کہرام مچے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیشتر حکمران اس جنگ کے امکانات سے خوفزدہ ہیں اور دونوں اطراف کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جتنے بڑبولے ہیں‘ اس سے کہیں زیادہ عیار بھی ہیں۔ وہ بڑھک بازی زیادہ کرتے ہیں اور ڈرا دھمکا کے کام نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غور کیا جائے اپنے قومی سلامتی کے موجودہ مشیر جان بولٹن (جو خبط کی حد تک جنگی جنونی ہے) اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو (جو امریکی سامراج کے بے حد طاقت ور ہونے کا تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے) کو انہوں (ڈونلڈ ٹرمپ) نے دبائو ڈالنے کے لئے رکھا ہوا ہے۔ کچھ ہفتے قبل تک وینزویلا پر امریکی حملہ ناگزیر معلوم ہو رہا تھا‘ لیکن جب ٹرمپ کو اس کے مضمرات نظر آنے لگے تو انہوں نے بیان بازی تو جاری رکھوائی لیکن حملہ کرنے سے گریز کیا۔
اس سے پیشتر شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ کے ساتھ بھی ٹرمپ کی شدید لفظی گولہ باری ہوتی رہی ہے۔ کم جونگ نے ٹرمپ کو پاگل اور خر دماغ‘ جبکہ ٹرمپ نے اسے 'راکٹ مین‘ قرار دیا تھا۔ یہی محسوس ہوتا تھا کہ بس اب شمالی کوریا پر حملہ ہوا کہ ہوا۔ فاکس نیوز جیسے دائیں بازو کے میڈیا ہائوسز تو رات کو تقریباً جنگ کروا کے سوتے تھے۔ پھر کِم اور ٹرمپ کی ''دوستی‘‘ ہو گئی۔ دو ملاقاتیں ہوئیں جن کی ناکامی کے باوجود پیار محبت کے سندیسے اور بیانات جاری ہیں۔ 
کِم جونگ کے ساتھ ٹرمپ کی ملاقات کے وقت ہی ایرانی صدر روحانی کے ساتھ بھی ایسی کسی ملاقات کی قیاس آرائیاں ہونے لگی تھیں‘ لیکن ایران کے ساتھ امریکہ کے اپنے مفادات کے ٹکرائو کے ساتھ ساتھ اس کے علاقائی حواریوں کی مداخلت بھی صورتحال کو پیچیدہ کر دیتی ہے۔ بعض معاملات میں امریکہ سے زیادہ اسرائیل اور سعودی عرب کو ایرانی پالیسیوں سے مسئلہ ہے۔ پچھلے ہفتے خلیج فارس میں چار سعودی اور اماراتی آئیل ٹینکروں پر 'پراسرار حملہ‘ ظاہر کرتا ہے کہ اس خطے میں ایسی ریاستیں اور ان کی پراکسیاں موجود ہیں‘ جو اشتعال کے ذریعے اس تصادم کو بھڑکانا چاہتی ہیں۔ 
یہ درست ہے کہ امریکہ کی فوجی طاقت ایران سے بہت بڑی، جدید اور سفاک ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ 1988ء میں پہلی خلیجی جنگ کے دوران بھی ایران اور امریکہ کے درمیان ایک جھڑپ ہوئی تھی‘ جس کو امریکیوں نے 'آپریشن پریئنگ مینٹس‘ کا نام دیا تھا۔ اس کی وجہ ایک امریکی بحری جنگی جہاز کا ایران کی بچھائی سمندری بارودی سرنگ سے ٹکرا کے ڈوبنا تھا۔ جواب میں امریکیوں نے بھی ایران کے دو چھوٹے بحری جہاز تباہ کر دئیے تھے۔ اسی عرصے میں امریکی بیڑے نے 'غلطی سے‘ ایک مسافر ایرانی جہاز کو بھی مار گرایا تھا جس میں 290 افراد (بشمول 66 بچے) بھی ہلاک ہو گئے تھے۔ لیکن اتنی شدید اشتعال انگیزیوں کے باوجود دونوں ممالک کے حکمرانوں نے اس خونیں جھڑپ کو ایک مکمل جنگ میں بدلنے سے روکا تھا‘ اور دونوں اطراف نے ہی پسپائی اختیار کر لی تھی۔ 
آج ایرانی فوج طاقت ماضی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ ایران کے پاس پورے مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑا میزائلوں کا ذخیرہ ہے۔ پچھلے ہفتے ڈرون حملوں اور میزائلوں سے سعودی تیل کی پائپ لائنوں اور ذخائر پر یمن سے جو حملے ہوئے‘ ان کا الزام بھی سعودی عرب نے ایران پر دھرا ہے۔ لیکن سعودی نائب وزیر خارجہ کا بیان بڑا ذومعنی ہے: ''سعودی عرب خطے میں نہ جنگ چاہتا ہے نہ اس کی کوشش کرے گا... لیکن اگر دوسرا فریق جنگ کا طریقہ اپناتا ہے تو اس کا جواب بھرپور عزم اور طاقت سے دیا جائے گا‘‘۔ 
پاکستان پر بھی اس تنائو کے شدید اثرات مرتب ہو رہے ہیں جو کھلے تصادم کی صورت میں مزید سنگین ہو جائیں گے۔ ایک طرف آئی ایم ایف کے قرضوں، جن کے لئے امریکی رضا مندی ناگزیر ہے، کی مجبوری ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب سے ''برادرانہ تعلقات‘‘ ہیں اور پاکستانی جرنیل راحیل شریف کا 'سعودی اتحادی فوج‘ کا کمانڈر ہونا پاکستان کو ایران مخالف الحاق کا حصہ بنا دیتا ہے۔ لیکن پھر ایران کے ساتھ سینکڑوں میل لمبی سرحد بھی ہے اور بہت سے تزویراتی، جغرافیائی اور اقتصادی مفادات بھی وابستہ ہیں۔ اس سے زیادہ خارجہ پالیسی کا بلنڈر کیا ہو سکتا ہے‘ جو ان حکمرانوں نے پاکستان کے عوام پر نازل کیا ہے۔ 
لیکن یہ جنگ ہو نہ ہو‘ بحران جلد ختم ہونے والا نہیں ہے۔ اس کے ختم ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔ خلیج فارس، جہاں سے دنیا کے 34 فیصد تیل اور 38 فیصد گیس کی تجارت ہوتی ہے، کا عدم استحکام پہلے سے بھی بڑھ جائے گا۔ ان عالمی و علاقائی سامراجی قوتوں کے تضادات بار بار بھڑکیں گے۔ 
امریکہ ہو یا ایران‘ ان تمام ممالک میں جو سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے اس کا بحران ان کے حکمرانوں کو ایسی خارجی مہم جوئیوں پہ اکساتا ہے۔ لیکن ایک بحران سے نکلنے کے یہ راستے پہلے سے بڑے بحرانات کو جنم دیتے ہیں۔ 
ایران امریکہ تنازع اب تقریباً آدھی صدی پرانا ہو چکا ہے۔ حل ہونے کی بجائے یہ پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن یہ ان ممالک کے حکمران طبقات کی لڑائی ہے۔ اور اپنی ہر لڑائی کی طرح اس تنازع کا ایندھن بھی یہ عام لوگوں کو بناتے ہیں۔ 
امریکہ میں دہائیوں بعد سرمایہ داری کے خلاف نئی تحریکیں گزشتہ دس سالوں کے دوران ابھر رہی ہیں۔ 2011ء میں آکوپائی وال سٹریٹ تحریک ابھری تھی۔ اب برنی سینڈرز 'جمہوری سوشلزم‘ کے نعرے کی بنیاد پر کروڑوں لوگوں میں مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ ایران میں نوجوانوں اور محنت کشوں کے پاس جرأت مندانہ بغاوتوں کی انقلابی میراث ہے۔ وہاں ایک درجن سے زائد چھوٹی بڑی تحریکیں معاشی و ریاستی جبر کے خلاف ابھر چکی ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں محلاتی سازشیں تیز تر ہو چکی ہیں (جو دھماکہ خیز انداز سے سارے منظر نامے کو بدل سکتی ہیں) اور سماجی بے چینی بھی بڑھ رہی ہے۔ 
سوڈان اور الجزائر کی حالیہ تحریکیں پورے خطے کے حکمرانوں کے لئے ایک انتباہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایک اِس نظام کے حکمرانوں کی قومی جنگیں ہیں جو مزید بربادیاں ہی لا سکتی ہیں۔ ایک طبقاتی جنگ ہے جو محنت کشوں اور نوجوانوں کو لڑ کے اِن بربادیوں کا خاتمہ کرنا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں