کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ بات چیت پر پارلیمنٹ کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے حالیہ اجلاس کے اختتام پر جاری کیے جانے والے اعلامیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان طالبان کی وساطت سے گزشتہ سال اکتوبر سے کابل میں شروع ہونے والے مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ کمیٹی میں موجود پاکستان کی اہم سیاسی جماعتوں نے اس پر اتفاق کا اظہار کیا ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ یہ مذاکرات کب تک جاری رہیں گے اور کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں یا نہیں‘ ایک سوال بار بار ذہن میں آتا ہے کہ چار دہائیوں پر محیط عرصے کے دوران افغان مسئلے سے کسی نہ کسی طرح مگر مسلسل الجھے رہنے کے پیچھے پاکستان کا کیا سٹریٹیجک مقصد تھا؟ اور ہزاروں افراد کی قربانی دے کر تیس لاکھ سے زیادہ افغان باشندوں کو مہاجرین کے نام پر مستقل مہمان بنا کر رکھنے اور ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کو پورے ملک میں پھیلنے کی اجازت دے کر کیا وہ مقصد حاصل کر لیا گیا ہے؟ اور اگر وہ مقصد حاصل نہیں ہوا تو اس ناکامی‘ جسے ایک بڑی تباہی کہنا چاہیے‘ کا کون ذمہ دار ہے؟ اور ذمہ داروں کی نشاندہی کر کے ان کا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟ کیونکہ پاکستان کو سکیورٹی‘ معیشت اور خارجہ تعلقات میں اس وقت جو چیلنجز درپیش ہیں ان سب کا تعلق کسی نہ کسی طرح گزشتہ چالیس برسوں سے ہماری افغان پالیسی سے ہے۔
جدید ریاست‘ جو موجودہ عالمی نظام کی بنیادی اکائی ہے‘ ایک علاقائی ریاست ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرحدوں کا تعین‘ ان کی حفاظت ریاست کی بقا کا اہم اصول ہے۔ افغانستان سے سرحدی جھگڑا ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ پاکستان کے قومی مفاد کا بنیادی تقاضا ہے کہ ہم افغانستان کے ساتھ 2500 کلومیٹر طویل سرحد کو ایک بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے پر کابل حکومت کی رضامندی حاصل کرتے۔ اس سے پاکستان اور افغانستان‘ دونوں کو فائدہ ہوتا۔ ہر طرف سے خشکی میں گھرا ہونے اور بیرونی دنیا کے ساتھ رابطے کیلئے پاکستان پر خصوصی انحصار رکھنے کی وجہ سے افغانستان کو پاکستان کے ساتھ سرحدی تصفیے سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی تجارت میں سہولت اور بچت ہوتی۔ پاکستان کیلئے ڈیورنڈ لائن پر جھگڑے کا خاتمہ پاک افغان سرحد پر مستقل امن اور گہرے تعاون پر منتج ہوتا۔ اس وقت افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقے دہشت گردوں کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔ 500 ملین ڈالر سے زائد لاگت سے سرحدی باڑ لگانے کے باوجود ہم افغانستان سے اپنے علاقوں میں قائم چوکیوں پر حملوں کو روکنے میں ناکام ہیں۔ اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ حل کر لیا جاتا تو پاکستان کے شمال مغربی سرحدی علاقے نہ صرف امن کا گہوارا ہوتے بلکہ ترقی میں بھی ملک کے دوسرے حصوں کے برابر ہوتے۔
ہم اس پر اکثر رونا روتے ہیں کہ آج کا پاکستان وہ نہیں جس کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا یا جیسا قائداعظمؒ چاہتے تھے‘ لیکن یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتے کہ علامہ اقبالؒ نے پاکستان کی صورت میں کیا خواب دیکھا تھا اور قائداعظمؒ کیسا پاکستان چاہتے تھے۔ بانیانِ پاکستان نے امید ظاہر کی تھی کہ پاکستان کے قیام سے نہ صرف ہندو مسلم تنازع کا ایک تسلی بخش اور مستقل حل نکل آئے گا بلکہ دو آزاد ممالک کے درمیان اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات قائم ہوں گے۔
افغانستان کے ساتھ تنازع کے خاتمے اور نارمل تعلقات کی اہمیت کے بارے میں دو مواقع پر ذکر کی شہادت موجود ہے۔ ایک‘ 1951ء میں جب کوریا میں جنگ چھڑی اور کمیونسٹ روس اور سرمایہ دارانہ نظام کے چیمپئن امریکہ کے درمیان سرد جنگ کا فوکس یورپ سے مشرق بعید شفٹ ہوا تو امریکہ کو ایشیا میں اپنے حلیف ڈھونڈنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس ضرورت کے تحت امریکہ نے پاکستان سے رابطہ کیا اور وزیراعظم لیاقت علی خان سے شمالی کوریا اور چین کے خلاف امریکہ کی سرکردگی میں لڑنے والی نام نہاد بین الاقوامی فوج میں شمولیت کیلئے پاکستانی فوج کے ایک دستے کو بھیجنے کی درخواست کی‘ اور اس کے بدلے پاکستان کی ایک ڈویژن فوج کو جدید ترین اسلحہ سے لیس کرنے کی پیشکش کی۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے ہامی بھر لی مگر اس شرط پر کہ امریکہ اقوامِ متحدہ اور اس کے باہر اپنے اثر و رسوخ کو کام میں لا کر پاکستان کو درپیش دو بڑے مسائل‘ ایک: کشمیر اور دوسرا: افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ‘ حل کروا دے۔ امریکی خارجہ تعلقات پر ڈی کلاسیفائی ہونے والی دستاویزات کے مطابق امریکہ کے اس وقت کے وزیر خارجہ آمادہ نہ ہوئے اور جواب میں کہا کہ یہ پاکستان کے اپنے مسائل ہیں اور انہیں حل کرنے کیلئے پاکستان کو خود کوشش کرنی چاہیے‘ امریکہ ان میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ اس پر وزیراعظم لیاقت علی خان کا بھی جواب تھا کہ پاکستان بلا وجہ کسی دوسرے کی جنگ میں نہیں کود سکتا۔ ڈیورنڈ لائن کے قضیے کے خاتمے اور افغانستان کے ساتھ قریبی اور برادرانہ تعلقات کے امکانات اور مواقع پر بات کرنے والے دوسرے پاکستانی رہنما ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ موت کی کال کوٹھڑی میں لکھی جانے والی کتاب If I am assassinated میں لکھتے ہیں کہ اگر جولائی 1977ء میں ان کی حکومت کا تختہ نہ الٹا جاتا تو افغانستان کے ساتھ نہ صرف ڈیورنڈ لائن کا تنازع حل ہو جاتا بلکہ ایران‘ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک ڈھیلی ڈھالی یونین (Confedration) بھی قائم ہو جاتی کیونکہ انہوں نے نہ صرف گلبدین حکمت یار اور دیگر افغان منحرفین کو مدد فراہم کر کے سردار داؤد کی پاکستان دشمنی اور پختونستان کے پروپیگنڈے پر مبنی مہم کو کمزور کر دیا تھا بلکہ ایران کے ذریعے سردار داؤد کو روس سے دور کرنے میں کافی کامیابی بھی حاصل کر لی تھی۔ شاہِ ایران کی ان کوششوں میں سعودی عرب بھی شامل تھا اور امریکہ بھی اس کا حامی تھا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے مطابق شاہِ ایران اور سعودی عرب نے افغانستان میں ترقی اور تعمیر کیلئے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی پیشکش کرکے سردار داؤد کو افغانستان کی روایتی روس نواز پالیسی ترک کر کے مغربی اور جنوبی ایشیائی ممالک کے قریب ہونے پر راضی کیا تھا۔ جنابِ بھٹو کے مطابق تینوں ملکوں کی ایک کنفیڈریشن کے قیام کیلئے بات چیت کافی آگے بڑھ چکی تھی‘ لیکن 5 جولائی1977ء کو ضیا الحق نے مارشل لا لگا کر اس عظیم منصوبے کی کامیابی کے امکانات کو بھی ختم کر دیا تھا۔
1979ء کی سوویت لشکر کشی کے بعد افغان مسئلے سے پاکستان کی وابستگی کی ایک ایسی داستان کا آغاز ہوا جس کی تفصیل سے سارا جہاں آگاہ ہے‘ لیکن مجال ہے کہ ایک دہائی پر محیط اس دور کے دوران ضیا حکومت نے موقع سے فائدہ اٹھاکر پاک افغان سرحدی مسئلے کو مستقل طور پر حل کرنے کی کوئی ہلکی سی بھی کوشش کی ہو۔ اس کے برعکس ڈیورنڈ لائن کو عام افغان باشندوں اور مجاہدین کی بلا روک ٹوک آمدورفت کیلئے اس طرح کھول دیا گیا کہ عملی طور پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی بین الاقوامی سرحد نہ رہی۔ افغانستان سے روسیوں کے نکل جانے کے بعد صورتحال اور بھی خراب ہو گئی تا آنکہ مشرف کے دور میں مسئلے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے بارڈر کنٹرول کے کچھ اقدامات کیے گئے‘ مگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان بلا روک ٹوک آنے اور جانے کی روایت اتنی راسخ ہو چکی ہے کہ کثیر رقم خرچ کر کے باڑ کھڑی کرنے سے بھی آمدورفت نہیں رک سکی۔ طالبان کی موجودہ حکومت‘ جسے اقتدار میں لانے کا الزام پاکستان پر عائد ہوتا ہے‘ نے نہ صرف ڈیورنڈ لائن کو دونوں ملکوں کے درمیان بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے بلکہ پاکستان کو تنبیہ کی ہے کہ وہ سرحد پر باڑ لگانے سے باز رہے‘ ورنہ سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ آدمی سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ ان چالیس برسوں میں پاکستان کی افغان پالیسی کا کیا مقصد تھا؟