پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان ایک عرصے سے کہہ رہے تھے کہ وہ بہت جلد ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اور فیصلہ کن لانگ مارچ کریں گے۔ پہلے پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے اعلان کیا کہ لانگ مارچ کی تاریخ کا فیصلہ ستمبر میں ہی کر لیا جائے گا لیکن ستمبر گزر گیا اور لانگ مارچ کا اعلان نہ ہوا۔ اس پر عمران خان نے کہا کہ وہ اس مارچ کی تاریخ پوری تیاری کے بعد دیں گے‘ کب دیں گے؟ یہ صرف انہیں معلوم ہے۔ جوں جوں اکتوبر کے دن گزرتے جا رہے تھے‘ انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ اس مارچ کی کسی بھی وقت بلکہ ایک دن کے نوٹس پر بھی کال دے سکتے ہیں۔ بالآخر گزشتہ روز وہ لاہور سے اپنے لانگ مارچ کا آغاز کر چکے ہیں۔ بظاہر لگتا یہی ہے کہ خان صاحب نے لانگ مارچ کا آغاز مکمل تیاری کے ساتھ کیا ہے اور یہ تیاری انہوں نے گزشتہ چھ ماہ میں پچاس ساٹھ سیاسی جلسوں‘ ورکرز کنونشنز‘ طلبہ اور وکیلوں کے اجتماعات سے خطاب کے ذریعے مکمل کی ہے۔ ان جلسوں اور اجتماعات میں انہوں نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے بار بار زور دیا تھا کہ وہ اس مارچ میں شرکت کریں کیونکہ بقول اُن کے یہ لانگ مارچ سیاست نہیں بلکہ پاکستان کو ''حقیقی آزادی‘‘ دلانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ خان صاحب لانگ مارچ کو کامیاب بنانے کے لیے بھرپور زور لگا چکے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ 25 مئی کے برعکس اس دفعہ عوام بہت بڑی تعداد میں ان کے مارچ میں شامل ہوں گے جس کے بعد وہ حکومت پر جلد نئے انتخابات کے لیے بھرپور دبائو ڈال سکیں گے۔
خان صاحب کے لانگ مارچ کے اعلان سے قبل خبریں گردش کر رہی تھیں کہ پی ٹی آئی اور مقتدر حلقوں کے درمیان بیک چینل رابطے ہوئے ہیں۔ یہ خبر بھی سننے میں آئی کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے نمائندوں کے درمیان بھی سیاسی مسائل کا حل نکالنے کیلئے ملاقات ہوئی ہے‘ جس کے بعد اعلیٰ سطح پر نمائندوں کی ایک اور ملاقات پر اتفاق ہو چکا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے جب اس امر کی تصدیق کی گئی کہ پی ٹی آئی کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کی گئی تھی بشرطیکہ ان مذاکرات کے ایجنڈے میں نئے انتخابات کے انعقاد کی تاریخ بھی شامل ہو‘تو عوام میں امید کی ایک لہر دوڑ گئی کہ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں ملکی مفاد کے پیشِ نظر کسی فارمولے پر متفق ہو جائیں گی مگر اب لانگ مارچ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔ عمران خان بھی لانگ مارچ کے اعلان سے قبل کہہ چکے ہیں کہ بیک چینل رابطوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور انہیں یقین ہے کہ موجودہ حکومت انتخابات کروانے کے لیے تیار نہیں مگر اس کے ساتھ ہی انہوں نے بات چیت کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور اقرار کیا ہے کہ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کا دروازہ بند نہیں کرتیں۔
ان کے اس بیان سے بعض تبصرہ نگاروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ عمران خان کا یہ لانگ مارچ دراصل ایک پاور شو ہے جس کے ذریعے وہ حکومت اور دیگر حلقوں کے ساتھ بیک چینل بات چیت میں اپنی شرائط پر سمجھوتا کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ متعدد بار اپنے جلسوں میں عوام کی لگاتار کثیر تعداد میں حاضری‘ جولائی میں پنجاب کے بعد حالیہ ضمنی انتخابات میں بھاری کامیابی کا ذکر کرکے طاقتوروں کو یقین دلانے کی کوشش کرتے چلے آئے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ مقبول لیڈر ہیں اور آئندہ کسی بھی انتخابات میں اپنے تمام حریفوں کو شکست فاش دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لانگ مارچ شو آف پاور کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بعض لوگوں کی نظر میں نومبر سے پہلے اکتوبر میں لانگ مارچ کے ذریعے شو آف پاور کا مقصد اگلے ماہ ایک اہم تعیناتی پر اثر انداز ہونا بھی ہو سکتا ہے۔ عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ لانگ مارچ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مارچ ثابت ہوگا‘ جس کے سامنے کوئی طاقت ٹھہر نہیں سکے گی‘ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا لانگ مارچ کے بارے میں یہ دعوے سچ ثابت ہوں گے؟ چیئرمین پی ٹی آئی کا جواب تو یہ ہے کہ 25 مئی کے مارچ کے لیے پوری تیاری نہیں کی گئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی سے ہم نے سبق سیکھا ہے اور اس دفعہ پوری تیاری کے ساتھ اس مارچ کا آغاز کر رہے ہیں‘ لیکن سابق وزیراعظم اس حقیقت سے یقینا واقف ہوں گے کہ جلسوں میں لوگوں کی شرکت اور لانگ مارچ میں شمولیت میں بہت فرق ہے۔ ضروری نہیں کہ جس طرح مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد شوق میں جوق در جوق جلسے میں شریک ہوتی ہے‘ اسی طرح لانگ مارچ میں بھی وہ عمران خان کی مہم کا حصہ رہیں۔ 25 مئی کی احتجاجی ریلی میں عمران خان نے جن طبقات کو شریک ہونے کے لیے دعوت دی تھی‘ ان میں سے بہت کم لوگ شریک ہوئے۔
اس سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ عوام میں ہر دلعزیزی میں باقی سیاسی جماعتوں میں سے کوئی لیڈر بھی عمران خان صاحب کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور وہ بجا طور پر فرماتے ہیں کہ پچھلے چھ ماہ میں انہوں نے جتنی تعداد میں اور جتنے بڑے اور متواتر جلسے کیے ہیں‘ ان سے پہلے کبھی کسی نے نہیں کیے تھے‘ مگر خان صاحب عوام کی نفسیات سے شاید واقف نہیں۔ 2014ء کے آزادی مارچ اور دھرنے میں بھی ان کی اپیل کافی مؤثر تھی لیکن جب انہوں نے نواز شریف کی حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کی اپیل کی تو کسی نے ان کی آواز پر کان نہیں دھرا ۔ اسی طرح 25مئی کی احتجاجی ریلی کے بارے میں جو دعوے کیے گئے تھے‘ وہ غلط ثابت ہوئے۔ مگر اس دفعہ خان صاحب کو چند ایسے فائدے حاصل ہیں جو 25 مئی کی احتجاجی ریلی کے موقع پر حاصل نہیں تھے اور وہ یہ ہیں کہ خیبر پختونخوا‘ گلگت بلتستان کے علاوہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب بھی ان کے کنٹرول میں ہے جس کی وجہ سے انہیں یقین ہے کہ وہ اپنے 28 اکتوبر کے مارچ کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں‘ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سرکار خواہ مرکزی ہو یا صوبائی‘ اس کی قیادت کی اعانت کے ساتھ کسی آئینی اتھارٹی کے خلاف غیرقانونی اور غیرجمہوری اقدام کا نتیجہ خطرناک برآمد ہوسکتا ہے۔ بہتر ہے کہ خان صاحب ملک کے آئین کو مد نظر رکھیں۔
پاکستان ایک وفاقی ملک ہے۔ ایک ایسی حکومت‘ جو آئینی ہو اور جمہوری طریقے سے برسر اقتدار آئی ہو اور قومی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی آئینی‘ جمہوری اور نمائندہ حیثیت کو تسلیم کیا جا رہا ہو‘ کا تختہ ہجوم کے بل سے الٹنے کے انتہائی خطرناک مضمرات ہو سکتے ہیں۔ خان صاحب کے لانگ مارچ سے البتہ ملک میں سیاسی غیر یقینی کی ایسی صورتِ حال پیدا ہو سکتی ہے جس سے معیشت‘ جس کی بنیادیں پہلے ہی لرز چکی ہیں‘ کا ڈھانچہ زمین بوس ہونے کا خدشہ پیدا ہو جائے۔ لانگ مارچ کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کوعدم استحکام سے دوچار کر دیا جائے ‘ جو یہ دعویٰ کررہی ہے کہ اس نے کرنسی کی قدر میں استحکام پیدا کیا ہے‘ آئی ایم ایف کا پروگرام بحال کیا ہے اور فیٹف (FATF) کی گرے لسٹ سے ملک نکل آیا ہے۔