تقریباً ایک ماہ پنجاب اورخیبر پختونخوا کی سڑکوں پر مارچ کرنے کے بعد عمران خان کا اسلام آباد کی طرف ''لانگ مارچ‘‘ ایک ایسے انداز میں ختم ہو ا جس کا کسی کو وہم وگمان بھی نہیں تھا۔ اس سال اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے الگ ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم کی تمام کوششیں وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کو چلتا کرنے پر مرکوز تھیں۔ ان کوششوں کی کامیابی کیلئے عمران خان نے مختلف حربے استعمال کئے۔ 28 اکتوبر کو لاہور سے شروع ہونے والا 'لانگ مارچ‘ آخری حربہ تھا۔ اس کی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے پی ٹی آئی کے چیئرمین نے ملک کے طول و عرض میں ریکارڈ جلسے کئے۔ خان صاحب کا خود بیان ہے کہ انہوں نے لانگ مارچ کیلئے لوگوں کو متحرک اور تیار کرنے کیلئے 60 کے قریب جلسے کئے۔ ان جلسوں میں حاضرین کی بہت بڑی تعداد دیکھ کر خان صاحب کا حوصلہ بڑھا اور انہیں امید تھی کہ 25 مئی کے لانگ مارچ کے برعکس اس دفعہ وہ اسلام آباد میں عوام کا سمندر لانے میں کامیاب ہو جائیں گے‘ جس کے آگے حکومت کی کوئی رکاوٹ نہیں ٹھہرے گی‘ لیکن لانگ مارچ شروع سے ہی سسپنس اور غیر متوقع واقعات کا شکار رہا۔ پہلے تو اس کے آغاز کی تاریخ ہی قیاس آرائیوں کا موضع بنی رہی۔ پی ٹی آئی کی دوسری سطح کی لیڈرشپ میڈیا کے ذریعے اپنے سپورٹرز اور عوام کو یقین دلاتی رہی کہ اس کا اعلان ستمبر میں کردیا جائے گا‘ لیکن عمران خان نے کہا کہ لانگ مارچ کب شروع ہو گا‘ اس کا علم صرف انہیں ہے اور وہی اس کا اعلان کریں گے۔
آخرکار 28 اکتوبر کو لاہور سے اس کے آغاز کا اعلان کر دیا گیا جسے ایک ہفتہ کے اندر اسلام آباد پہنچنا تھا مگر اس کی رفتار کو دیکھتے ہوئے یقین سے نہیں کہا جا سکتا تھا کہ اتنے وقت میں لانگ مارچ اپنا سفر مکمل کر سکے گا۔تین نومبر کو وزیر آباد کے قریب کنٹینر پر فائرنگ سے عمران خان زخمی ہو گئے اور انہیں فوری طور پر لاہور پہنچا دیا گیا مگر انہوں نے کہا کہ ان کی عدم موجودگی میں بھی مارچ کو جاری رکھا جائے۔ عمران خان پر قاتلانہ حملے کے خلاف پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے سخت ردعمل آیا اور پاکستان کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مظاہرے کئے گئے۔ عمران خان اپنی ٹانگوں پر زخموں کی وجہ سے لانگ مارچ میں شرکت اور اس کی قیادت کرنے کے قابل نہیں تھے اور ان کی عدم موجودگی میں لانگ مارچ اپناMomentum برقرار نہ رکھ سکا۔ 26 نومبر کو راولپنڈی میں عمران خان نے ایک فقیدالمثال جلسے کا اعلان کیا اور عوام سے اپیل کی کہ وہ اس جلسے میں شرکت کریں۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کا دعویٰ تھا کہ راولپنڈی کا یہ جلسہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہو گا۔ عمران خان کے اس اعلان کے بعد کہ اس جلسے میں وہ اپنے آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کریں گے، اس جلسے کے بارے میں عوامی تجسس میں اور بھی اضافہ ہوا۔ اس میں یہ خدشات بھی شامل تھے کہ اگر عمران خان نے جلسے کے شرکا کو اسلام آباد کی طرف مارچ کا حکم دیا تو اسلام آباد کی سکیورٹی پر مامور اسلام آباد پولیس کے ساتھ تصادم ہو گا جو خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کے بیانات سے ان خدشات میں اور بھی اضافہ ہو گیا، تاہم خوش قسمتی سے عمران خان کے مارچ ختم کرنے کے فیصلے سے یہ خطرہ ٹل گیا۔ پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں دھرنا دینے کا ارادہ ترک کر دیا تاہم عمران خان نے کہا کہ ان کی پارٹی تمام اسمبلیوں کی رکنیت سے الگ ہو جائے گی۔ اس وقت عمران خان کی پارٹی پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں برسر اقتدار ہے۔ یہ بات واضح نہیں کہ کیا ان کے ارکان اپنی نشستوں سے مستعفی ہوں گی یا آئین میں دئیے گئے طریقے کے مطابق اسمبلیوں کو تحلیل کروا دیں گے۔ بعض تجزیہ نگاروں کی رائے میں اس اعلان میں سرپرائز کا کوئی عنصر نہیں ہے کیونکہ یہ آپشن تو پہلے ہی پی ٹی آئی کے پاس تھا اور اس کے استعمال کے بارے میں متعدد دفعہ امکان کا بھی اظہار کیا جا رہا تھا بلکہ جولائی میں ضمنی انتخابات میں بھاری کامیابی کے بعد جب چودھری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے کیلئے منتخب ہوئے تو اس بات کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ حلف اٹھاتے ہی نئے وزیر اعلیٰ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کیلئے گورنر کو اپنی رائے بھیج دیں گئے۔ اس موقع پر خود پرویز الٰہی نے کہا تھا کہ اگر عمران خان نے حکم دیا تو وہ اسمبلی کو تحلیل کروانے میں ایک منٹ کی بھی تاخیر نہیں کریں گے۔ لیکن کیا اب بھی ان کی یہی رائے ہے، اس بارے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ایک زیرک اور روایتی سیاستدان ہونے کی حیثیت سے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگلے انتخابات میں اپنی پارٹی کی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے انہیں اقتدار میں جتنا زیادہ عرصہ رہنے کا موقع ملے بہتر ہے۔
صوبے کی قیادت سنبھالنے کے بعد گزشتہ تقریباً چار ماہ کے دوران انہوں نے پنجاب میں متعدد ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کر رکھا ہے۔ ان کی تکمیل سے سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے وہ پنجاب اسمبلی کی فوری تحلیل سے انکار کر سکتے ہیں‘ اس لئے بعض تجزیہ نگاروں کی رائے میں عمران خان نے یہ اعلان کرکے ایک خطرہ مول لیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے مطابق عمران خان کا یہ اعلان اعترافِ شکست ہے۔ ان کے دعوے کے مطابق 25 مئی کی طرح عمران خان کا 28 اکتوبر کو شروع ہونے والا لانگ مارچ بھی ناکام ہو گیا۔ ان کے مطابق اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر حکومت کو انتخابات کے فوری انعقاد پر مجبور کرنے کی عمران خان کی کوشش بھی ناکام ہو گی کیونکہ ابھی باقاعدہ فیصلے کا اعلان باقی ہے‘ جس کیلئے عمران خان نے کہا ہے کہ وہ عنقریب صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کریں گے۔ اس مشاورت میں دو تین مہینے صرف ہو سکتے ہیں جس کے دوران حکومت کو جوابی اقدامات کا موقع مل جائے گا۔ ان اقدامات میں پنجاب اور کے پی کے وزرائے اعلیٰ کے خلاف تحاریک عدم اعتماد بھی ہو سکتی ہیں جن کے پیش کرنے کے بعد وزیر اعلیٰ اسمبلی کی تحلیل کی سفارش نہیں کر سکتا۔
عمران خان کے کہنے پر سندھ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کا تو کوئی امکان نہیں اور اگر پنجاب جہاں حکمران اتحاد اور اپوزیشن کی نشستوں میں بہت کم فرق ہے‘ میں وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے پیش ہونے سے اسمبلی کی تحلیل رک جاتی ہے تو یہ عمران خان کی تازہ کوششوں کیلئے بڑا دھچکا ہو گا۔ چند تجزیہ کاروں نے تو اس اعلان کو عمران خان کی سیاست کیلئے بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کو نئے آرمی چیف کی تقرری سے روکنے میں ناکامی کے بعد لانگ مارچ کو بغیر اس کے اعلان کردہ مقاصد کے حصول کے ختم کرنا پی ٹی آئی چیئرمین کی سیاست کیلئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ وہ عمران خان کے اعلان پر عمل درآمد سے کسی قسم کے دباؤ میں آئے کیونکہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی سے پہلے ہی الگ ہو چکی ہے اور اس سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ حکومت کے علاوہ دیگر ادارے پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی میں واپس جا کر اپنی نشستیں سنبھالنے اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کے حق میں تھے۔ پی ٹی آئی کے اندر بھی اس تجویز کے حق میں رائے پائی جاتی ہے اسی لئے ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ عمران خان نے جن مقاصد کے حصول کیلئے اسمبلیوں سے الگ ہونے کااعلان کیا ہے اس میں انہیں کامیابی حاصل ہوتی ہے یا نہیں۔