پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان‘ ایک اندازے کے مطابق اقتدار سے علیحدگی کے بعد سے اب تک گزشتہ آٹھ نو ماہ کے دوران اپنے کارکنان کو موبلائز رکھنے کے لیے تقریباً سو سے زیادہ جلسوں‘ جلوسوں اور اس سے بھی زیادہ پریس کانفرنسوں‘ سیمینار اورکنونشنز سے خطاب کر چکے ہیں۔ دو دفعہ وفاقی دارالحکومت کی طرف لانگ مارچ بھی کر چکے ہیں۔ فائرنگ سے زخمی ہونے کے بعد آن لائن وڈیو خطابات کی تعداد بھی درجنوں تک پہنچ چکی ہو گی۔ اپنی پارٹی کے کارکنان اور عوام کے ساتھ اس رابطہ مہم میں سابق وزیراعظم نے ہر اس مسئلے پر اظہارِ خیال کیا جو ان کے نزدیک دریں حال ملک اور قوم کے لیے اہمیت رکھتا ہے اور جس کے حل کی تاخیر میں ان کے نزدیک ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے‘ لیکن مجال ہے کہ ان کی تقاریر میں ملک پر ٹوٹنے والی سب سے بڑی آفت‘ گزشتہ مون سون کے سیلاب کی تباہ کاریوں اور اس سے متاثر ہونے والے تین کروڑ تیس لاکھ کے قریب عوام کا ذکر موجود ہو۔ 4ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی پاکستان کے دو صوبوں سندھ اور بلوچستان میں وسیع علاقے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ متاثرین میں سے بمشکل 15سے 20فیصد لوگوں کو ایک دفعہ پھر نارمل زندگی گزارنے کے قابل بنایا جا سکا ہے۔ باقی 80فیصد لوگ اب بھی اپنے اہلِ خانہ سمیت کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ مختصر یہ کہ صدیوں میں ایسے آنے والے سیلاب نے اپنے پیچھے اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
چند روز پیشتر انہی صفحات پر ڈاکٹر امجد ثاقب نے ملک میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر چھپنے والی رپورٹس کے حوالے سے ان کی تفصیلات بیان کی ہیں اور اس افسوسناک صورتحال کی طرف اشارہ کیا ہے کہ قوم کی تمام تر توجہ سیاست کی طرف موڑ دی گئی ہے۔ اخبارات پر نظر ڈالیں یا کسی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں ہونے والی بحث کو سنیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک میں سیاست کے سوا اور کوئی مسئلہ نہیں حالانکہ ملک میں اس وقت کوئی سیاسی یا آئینی بحران نہیں ہے۔ 9اپریل کو اقتدار سنبھالنے والی وفاقی حکومت ہر لحاظ سے ایک جائز‘ منتخب اور جمہوری حکومت ہے کیونکہ اس کا قیام ایک ایسے طریقے سے عمل میں آیا ہے جو پاکستان کے آئین میں درج ہے۔ اسی لیے اس کی حیثیت کو اندرونِ ملک اور نہ بیرونِ ملک چیلنج کیا گیا ہے۔ ملک کے تمام ادارے اس حکومت کی آئینی اور قانونی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ بین الاقوامی برادری اور ادارے بھی نارمل طریقے سے اس کے ساتھ ڈیل کر رہے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وفاق اور وفاقی اکائیوں میں کس کس پارٹی کی حکومت ہے۔ وفاقی اور صوبوں کی حکومتیں نارمل طریقے سے اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ کہیں بھی‘ کسی بھی جگہ‘ کسی حکومت کو کسی آئینی یا سیاسی بحران کا سامنا نہیں‘ نہ ان کی اتھارٹی کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ 9ماہ سے ملک میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کرکے اسے سیاسی بحران کا نام دیا جا رہا ہے۔ یہ ایک مصنوعی بحران ہے جسے صرف اس مقصد کے لیے پروان چڑھایا جا رہا ہے کہ عوام کو درپیش اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر ایک مخصوص گروہ کے مخصوص عزائم پر پردہ ڈالا جا سکے‘ حالانکہ ہر طرف سے خبردار کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کی معیشت کی صحت روز بروز خراب ہو رہی ہے اور اگر اس کے علاج کے لیے بروقت اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو بہت جلد اسے وینٹی لیٹر پر ڈالنا پڑے گا۔ حد تو یہ ہے کہ اس اہم قومی مسئلے‘ جس کا تعلق نہ صرف عوام کی فلاح و بہبود اور روزمرہ زندگی سے ہے بلکہ قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے بھی اہم مضمرات کا حامل ہے‘ پر بھی سیاست کی جا رہی ہے۔
سابقہ وزیراعظم کے بیانیے میں ملک کی خراب معاشی صورتحال کی تمام تر ذمہ داری ان کی حکومت سے بے دخلی پر ڈالی جاتی ہے اور اس مقصد کے لیے وہ اپنے دورِ حکومت کی اقتصادیات کا موجودہ دورِ حکومت میں معاشی صورتحال سے موازنہ کرتے ہیں کہ ان کی حکومت کے خاتمہ کے عین ایک ماہ قبل آئی ایم ایف نے ایک بیان میں پاکستان کی معاشی صورتحال‘ خاص طور پر میکرو اکنامک فرنٹ پر خطرناک صورتحال کے پیدا ہونے کی وارننگ دی تھی اور اس کی وجوہات میں انہوں نے سابقہ حکومت کی طرف سے پیٹرول‘ بجلی اور جنرل سیلز ٹیکس کے بارے میں آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدوں سے انحراف کو بتایا گیا۔
سابقہ وزیراعظم کے دور ہی میں پاک آئی ایم ایف پروگرام پٹڑی سے اتر چکا تھا۔ موجودہ حکومت کے مقابلے میں سابقہ حکومت کے دور میں اس پروگرام کی بحالی اور بھی مشکل ہوتی کیونکہ افغانستان میں طالبان کی کامیابی پر عمران خان کے بیانات سے بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکہ‘ جس کی رائے آئی ایم ایف کے فیصلوں میں سب سے بھاری ہوتی ہے‘ خوش نہیں تھے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر پی ٹی آئی حکومت رہتی تو ملک کی اقتصادی صورتحال کا کیا حال ہوتا۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ سال 2022ء کے موسم گرما کے سیلاب نے ملک اور خصوصاً اس کے دو صوبوں سندھ اور بلوچستان میں جو تباہی مچائی ہے‘ اس کے قومی معیشت پر واضح اثرات کے باوجود حقائق کو سیاسی مصلحتوں کی خاطر توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور زراعت کو اس کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے۔ زراعت کا انحصار تین فصلوں یعنی گندم‘ کپاس اور چاول کی پیداوار پر ہے۔ اب تک جو اعداد و شمار مختلف ذرائع سے سامنے آ سکے ہیں‘ ان کے مطابق ملک میں کپاس کی پیداوار میں 40فیصد تک کمی آ چکی ہے اور اس میں اس سال کے سیلاب اور موسمیاتی تبدیلی کا ہاتھ ہے۔ اس کا اپریل 2022ء کی حکومتی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح چاول کی پیداوار میں 10فیصد کمی آنے کا اندیشہ ہے۔ کپاس کی پیداوار میں کمی سے ہماری برآمدات متاثر ہوں گی اور گندم کی پیداوار میں کمی کو پورا کرنے کے لیے ہمیں اس جنس کو باہر سے درآمد کرنے کے لیے قیمتی زرِمبادلہ خرچ کرنا پڑے گا‘ جس کی کمی سے ملک پہلے ہی دوچار ہے۔ پاکستان کی معیشت پر نظر رکھنے والے ماہرین اور تبصرہ کار پریشان ہیں کہ برآمدات میں کمی اور گرتے ہوئے زرِمبادلہ کے ذخائر کی روشنی میں موجودہ حکومت عوام کی خوراک کی ضروریات کیسے پوری کر سکے گی؟ صاف نظر آ رہا ہے کہ ملک ایک بڑے معاشی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے‘ لیکن موجودہ قومی بحث و مباحثہ میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا جاتا۔ اس میں حکومت‘ عوام اور ملک کے لیے جو خطرات مضمر ہیں‘ ان پر بحث نہیں کی جاتی۔
جب پاکستان 2010ء کے سیلاب کا شکار ہوا تھا‘ تو کہا گیا تھا کہ ملکی تاریخ میں اتنا بڑا سیلاب نہیں آیا۔ یہ دعویٰ کافی حد تک درست تھا کیونکہ 2010ء کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے نشانات ابھی تک باقی ہیں اور قومی معیشت کو جو نقصان پہنچا تھا‘ اس کی ابھی تک تلافی نہیں کی جا سکی۔ حالیہ سیلاب تو 2010ء کے سیلاب سے کہیں زیادہ بڑی اور تباہ کن آفت ہے اور ملک کے سابقہ ریکارڈ کے مطابق کسانوں کو اپنی زمینوں کو پیداوار کے لیے مکمل طور پر موزوں بنانے میں برسوں لگ جائیں گے۔ دراصل قدرتی آفات سیلاب کی شکل میں ہوں یا زلزلے کی‘ نقصانات کی تلافی اور زندگی کے معمولات کی بحالی میں ہمارا قومی ریکارڈ کسی طرح سے بھی قابلِ رشک نہیں۔ جس ملک میں 2005ء کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں کو اب تک پوری طرح بحال نہیں کیا جا سکا‘ اس میں 2022ء کے سیلاب کی تباہ کاریوں پر قابو پائے جانے کی کیسے امید کی جا سکتی ہے؟