ایک سال کے بعد بھی یوکرین میں جنگ کے ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ اس کے برعکس فریقین کے رویوں میں مزید شدت کے اشارے مل رہے ہیں۔ امریکہ کی سربراہی میں مغربی یورپ کے ملکوں نے یوکرین کو اسلحہ کی سپلائی تیز کر دی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال پولینڈ کی جانب سے جرمن ساختہ جدید ترین لیپرڈ (Leapord) ٹینکوں کی یوکرین کو سپلائی ہے جبکہ امریکی محکمہ دفاع‘ پینٹاگون نے حال ہی میں دو بلین ڈالر مالیت کے اسلحہ کی یوکرین کو سپلائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اسلحہ میں دور تک مار کرنے والی توپیں‘ میزائل اور دیگر مہلک ہتھیار شامل ہیں۔
امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ (وزیر خارجہ)انٹونی بلنکن نے مارچ کے آغاز میں نئی دہلی میں G-20 وزرائے خارجہ کے اجلاس میں اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاروف کی موجودگی میں اعلان کیا تھا کہ امریکہ روسی فوجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جب تک کر سکا‘ یوکرین کی مدد کرتا رہے گا۔ اسی اجلاس میں امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے یوکرین کی جنگ کی روس پر ذمہ داری ڈالتے ہوئے اسے ختم کرنے اور یوکرین سے روسی افواج کو واپس بلانے پر زور دیا اور اسی کے ساتھ یہ بھی مطالبہ کر دیا کہ روس نے امریکہ کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے معاہدے ''سٹارٹ‘‘ (Strategic Arms Reduction Treaty)میں اپنی شرکت کو معطل کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے‘ اسے واپس لیا جائے۔اس کے جواب میں روسی وزیر خارجہ نے اپنی مختصر تقریر میں امریکہ پر روس کے خلاف جارحانہ عزائم کے الزام کو دہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی ممالک معاشی محاذ پر ناکامی اور دنیا میں گرتی ہوئی ساکھ کا روس سے بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ یوکرین کی جنگ جو کہ روس کے مطابق امریکہ کی اشتعال انگیز کارروائیوں کا نتیجہ ہے‘ اس کی ایک مثال ہے۔
نئی دہلی میں منعقدہ G-20 وزرائے خارجہ کی اسی سالانہ کانفرنس میں اگرچہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن کے علاوہ روس اور چین کے وزرائے خارجہ بھی شریک تھے‘ مگر امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے ان کے ساتھ براہِ راست یا کانفرنس سے باہر غیر رسمی ملاقات نہیں کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوکرین کی جنگ کے دوسرے سال میں نہ صرف روس اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گا بلکہ چین کے ساتھ امریکہ کی محاذ آرائی میں بھی تیزی آئے گی کیونکہ امریکہ نے چین پر یوکرین کی جنگ میں روس کی مدد کرنے کا الزام عائد کیا ہے حالانکہ چین نے یوکرین کی جنگ پر محتاط اور غیرجانبدار انہ رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ چین نے یوکرین میں روسی فوجوں کی مداخلت کی حمایت نہیں کی‘ مگر اس کی مذمت کرنے سے بھی احتراز کیا ہے‘ مگر پچھلے سال یوکرین پر حملے سے صرف چند دن پہلے چین نے روس سے تیل اور گیس کی خریداری کا بھاری معاہدہ کیا تھا۔ چین نے امریکہ اور مغربی یورپ کے ملکوں کی طرف سے روس پر عائد پابندیوں کو بہت حد تک غیر مؤثر کر دیا ہے۔ چین کی طرف سے روس کی در پردہ اعانت پر امریکہ بہت سیخ پا ہے کیونکہ نیٹو کو ساتھ ملا کر یوکرین میں روس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے میں ناکامی نے یوکرین کے بارے میں صدر جو بائیڈن کی حکمت عملی کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یوکرین میں امریکہ کا اصلی ہدف روس کے صدر ولادی میر پوتن ہیں‘ جنہوں نے 1999ء میں اقتدار سنبھال کر روس کو سابقہ سوویت یونین کی شکستہ حالی سے اٹھا کر اسے ایک دفعہ پھر امریکہ کی ٹکرکی عالمی قوت کی حیثیت سے لا کھڑا کیا۔امریکہ کے نزدیک پوتن کا یہ جرم ناقابلِ معافی ہے کیونکہ امریکہ 1990ء کے بعد اپنے آپ کو دنیا کی واحد سپر پاور سمجھ بیٹھا تھا۔ 1990ء میں پہلی خلیجی جنگ اور 2004ء میں عراق پر حملے کی یک طرفہ کارروائیاں اسی رویے کی دو نمایاں مثالیں ہیں مگر پوتن کی قیادت میں روس نے ایران اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی پالیسی کو چیلنج کر کے دنیا پر چھا جانے کے امریکی خواب کو پاش پاش کر دیا۔ 2014ء میں بحیرہ اسود میں کریمیا پر قبضہ کر کے اور اسے روس کا دوبارہ حصہ قرار دے کر پوتن نے دنیا خصوصاً امریکہ پر واضح کر دیا کہ سابقہ سوویت یونین کی جانشین ریاست ہونے کی حیثیت سے روس اپنے سٹرٹیجک مفادات پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
امریکہ کے خیال میں کریمیا کے انضمام اور یوکرین پر حملے کے بعد‘ مغربی ممالک کی طرف سے سخت اقتصادی پابندیوں کے نتیجے میں روسی عوام صدر پوتن کی مخالفت میں سڑکوں پر نکل آئیں گے اور اس طرح روس میں 'رجیم چینج‘ کا امریکی منصوبہ کامیاب ہو جائے گا‘ مگر معاشی مشکلات کے باوجود صدر پوتن کو اندرونی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘ بلکہ مغربی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق امریکی توقعات کے برعکس روس میں صدر پوتن کی پوزیشن پہلے کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہو چکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صدر پوتن نے روسی عوام کے سامنے یوکرین کی جنگ کو روس کی بقا کی جنگ کے طور پر پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
پچھلے ماہ اپنے 'سٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب میں صدر پوتن نے امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی ممالک پر الزام لگایا کہ یوکرین کی جنگ میں روس کے خلاف مہلک ہتھیاروں کے ساتھ مداخلت کر کے روس کو ہمیشہ کے لیے مفلوج بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس جنگ میں ایک طرف امریکہ روس کے ایٹمی اثاثوں کو بے کار کرنا چاہتا ہے اور دوسری طرف روس کو اس کے اہم خام مال (Strategic Raw Material) سے محروم کرنا چاہتا ہے جو کہ اس کی معیشت اور صنعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سابقہ سوویت یونین کے دور میں 70 اہم ترین خام اشیا جن میں تیل‘ گیس‘ کوئلہ‘ لوہا اور یورینیم بھی شامل ہیں‘ میں سے اڑسٹھ میں ماسکو خود کفیل تھا۔ صرف دو خام اشیا‘ ٹِن اور ربڑ‘ سابقہ سوویت یونین میں پیدا نہیں ہوتی تھیں۔ باقی سب خام اشیا میں سابقہ سوویت یونین خود کفیل تھا۔ 1990ء میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد یہ سب معدنی دولت اور صنعتی علاقے روسی فیڈریشن کے حصے میں آئے۔ اگرچہ بحر بالٹک‘ وسطی ایشیا اور دیگر حصوں کو ملا کر سابقہ سوویت یونین کی پندرہ ریاستوں جن میں یوکرین بھی شامل ہے‘ نے علیحدہ ہو کر آزادی کا اعلان کر دیا تھا تاہم رقبے‘ آبادی‘ معدنی دولت‘ صنعتی ترقی اور ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں کے اعتبار سے روس اب بھی ایک بڑی طاقت ہے اور اس میں اپنے ارد گرد کے خطوں مثلاً یورپ‘ مشرقِ وسطیٰ اور بحر الکاہل میں امریکہ کی جنگی اور سیاسی موجودگی کو چیلنج کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ امریکہ روس کی اسی صلاحیت کو اپنی قومی سلامتی کے لیے ابھی تک ایک اہم خطرہ سمجھتا ہے۔ یوکرین کی جنگ کی شکل میں امریکہ کو روس کی اسی صلاحیت کو ختم کرنے کا موقع نظر آ رہا ہے‘ مگر وہ اس میں ناکامی کے آثار دیکھ کر یوکرین کو بنیاد بنا کر روس کے خلاف محاذ آرائی کے دائرے کو وسیع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس وسیع تر روس مخالف محاذ میں امریکہ ایک طرف چین پر دباؤ ڈال کر اسے روس کی حمایت اور مدد فراہم کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسری طرف نیٹو سے باہر کے ملکوں بھارت‘ آسٹریلیا اور جاپان کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں کو بھی اپنے ساتھ صف آرا ہونے پر مجبور کر رہا ہے‘ مگر اس میں امریکہ کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ اس کا ثبوت G-20 میں شامل ترقی یافتہ 19ملکوں اور یورپین یونین کی طرف سے‘ امریکہ کی خواہش کے مطابق‘ یوکرین میں روس کے اقدام کو جارحیت قرار دے کر اس کی مذمت پر آمادہ کرنے میں ناکامی ہے۔(جاری)