چین اگر مشرقِ وسطیٰ کے دو بڑے ممالک ایران اور سعودی عرب کو اپنے دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے پر راضی کر سکتا ہے تو کیا جنوبی ایشیا کے دو اہم ترین ممالک‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ ڈیڈ لاک کو ختم کرنے میں بار آور کردار ادا نہیں کر سکتا؟ میرے خیال میں اس کا امکان موجود ہے اور ہو سکتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک تاریخی کامیابی حاصل کرنے کے بعد چین کی امن سفارت کاری کا اگلا ہدف جنوبی ایشیا ہو کیونکہ جغرافیائی محل وقوع اور توانائی کی درآمدات کے لیے اگر مشرقِ وسطیٰ چین کے لیے دلچسپی کا باعث ہو سکتا ہے تو جنوبی ایشیا بھی کئی اعتبار سے چین کی توجہ کا مرکز ہے۔
اس خطے کے تین ممالک پاکستان‘ بھارت اور نیپال کی سرحدیں براہِ راست چین سے ملتی ہیں۔ گزشتہ تقریباً دو ڈھائی دہائیوں میں چین نے اس خطے کے تقریباً تمام ممالک کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں وسیع تعلقات قائم کیے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ اقتصادی راہ داری کا منصوبہ (سی پیک) اور بھارت کے ساتھ سرحدی تنازع کے باوجود 100بلین ڈالر سے زیادہ دو طرفہ تجارت کو اس ضمن میں بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے علاوہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک مثلاً نیپال‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی چین نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے سڑکوں‘ بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کی تعمیر سے اہم اثاثے جمع کر لیے ہیں‘ جن کے تحفظ کے لیے چین کو جنگ‘ تصادم اور کشیدگی سے پاک جنوبی ایشیائی خطے کی ضرورت ہے۔
جنوبی ایشیا میں تصادم اور کشیدگی کی فضا چینی قومی مفادات کے منافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی ترقی اور ہمسائیگی میں امن کی بنیاد پر چین نے 1980ء کی دہائی میں قومی ترقی کے لیے جس حکمت عملی کا آغاز کیا تھا‘ اس کے تحت چین نے جن علاقوں پر خصوصی توجہ مبذول کی ہے ان میں جنوبی ایشیا بھی شامل ہے۔ اس کی ایک وجہ بحر ہند بھی ہے جس کے ذریعے چین مشرقِ وسطیٰ‘ خلیج فارس سے تیل اور گیس اور افریقہ سے قیمتی دھاتیں درآمد کرتا ہے۔ بحر ہند کی جغرافیائی خصوصیت یہ ہے کہ بنگلہ دیش‘ بھارت اور پاکستان پر مشتمل وسیع خطۂ ارض اس پر چھتری کی طرح چھایا ہوا ہے اور اس چھتری تلے جو صورتحال ہو گی‘ اس کا بحر ہند کی نیوی گیشن پر فوراً اثر پڑ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے بحر ہند کے خطے اور جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کے لیے اب تک جتنی بھی تجاویز سامنے آئی ہیں‘ ان کی پر زور حمایت چین کی علاقائی سلامتی کی پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے۔ان تجاویز میں بحر ہند کے خطوں اور نیپال کو امن کے خطے (Zones of Peace) قرار دینے کے مطالبات شامل ہیں۔
عالمی برادری کے دیگر ممالک کی طرح چین کو بھی یقین ہے کہ جنوبی ایشیا کے امن کا انحصار خطے کے سب سے بڑے اور ایٹمی ہتھیاروں کے مالک دو ممالک یعنی پاکستان اور بھارت پر ہے اور کشمیر کا مسئلہ اس میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے بلکہ اب تو یہ بھی تسلیم کیا جانے لگا ہے کہ کشمیر کے تنازع کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر چین ایک عرصے سے پاکستان اور بھارت کو جنگ‘ تصادم اور کشیدگی کی راہ پر چلنے کے بجائے امن‘ تعاون اور خیر سگالی کی راہ اختیار کرنے کی تلقین کرتا چلا آ رہا ہے۔ اس ضمن میں چین کے ایک سابق صدر زی من کے دورۂ پاکستان کے موقع پر دیا جانے والا ایک بیان خاص طور پر قابلِ ذکر ہے جس میں انہوں نے ہانگ کانگ کی مثال دیتے ہوئے پاکستان کو کشمیر سمیت دیگر مسائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے بھارت کے ساتھ پُرامن تعلقات کی پالیسی اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 2004ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کمپوزٹ ڈائیلاگ کی بحالی اور امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے میں جن ممالک نے پس پردہ اہم کردار ادا کیا تھا‘ ان میں چین بھی شامل تھا۔ جنوبی ایشیا میں امن کی خواہش پر مبنی چین کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی کوششوں کی ایک اور مثال 2017ء میں چین کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل میں ایک ''تعمیری کردار‘‘ ادا کرنے کی پیشکش کی صورت میں بھی موجود ہے۔ اگرچہ بھارت نے اسے ایک ''تیسرے فریق‘‘ کی مداخلت کہہ کر مسترد کر دیا تھا مگر پاکستان سمیت اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری کے بیشتر رکن ممالک نے چین کی اس پیشکش کا خیر مقدم کیا تھا۔ حتیٰ کہ امریکہ نے بھی اسے ایک ''مثبت تجویز‘‘ قرار دیا تھا۔
یہاں اس بات کا ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن اور تعاون کے فروغ کے مسئلے پر چین اور امریکہ کا مؤقف یکساں ہے۔ چین کی طرف سے پاک بھارت مصالحت کے لیے یہ ایک پلس پوائنٹ ہے کیونکہ اگر چین پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کرتا ہے تو غالب امکان ہے کہ امریکہ اس کی مخالفت نہیں کرے گا کیونکہ پاکستان‘ جس کے ساتھ امریکہ کے سٹریٹجک تعلقات ہیں اور بھارت جو کہ کوآڈ کے تحت امریکہ کا مضبوط اتحادی بنتا جا رہا ہے‘ کے درمیان مخاصمت اور کشیدگی کے باعث امریکہ کو جن پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا وہ دور ہو جائیں گی۔ یاد رہے کہ بھارت چین کے ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا پہلے ہی رکن ہے۔ پاکستان کے ساتھ مصالحت کی صورت میں بھارت کی سی پیک میں شمولیت کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے جو نہ صرف جنوبی بلکہ مغربی اور وسطی ایشیا میں علاقائی تعاون کے ذریعے ترقی‘ خوشحالی اور استحکام کے ایک نئے دور کے آغاز کا پیش خیمہ ہو گا۔
یہ تصور کرنا مشکل نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات ٹھیک ہو جائیں اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور سفری سہولتیں بہتر ہو جائیں تو اس کے اس پورے خطے پر کیا مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سلسلے میں معاملات آگے بڑھیں تو ممکن ہے یورپی یونین کی طرز پر پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ چین اور نیپال و بھوٹان پر مشتمل ایک یونین بھی تشکیل دی جا سکے۔ ایسا ہوا تو مستقبل میں مشرق کے اگلا یورپ ثابت ہونے کے امکانات روشن تر ہو جائیں گے۔ اس میں ممکنہ رکاوٹ بھارت کی طرف سے ہو سکتی ہے جس نے آج تک پاکستان کے ساتھ تعلقات خصوصاً مسئلہ کشمیر پر ''تیسرے فریق‘‘ کی مداخلت کی مخالفت کی ہے اور مسئلے کو پاکستان کے ساتھ دو طرفہ بنیادوں پر براہِ راست مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اصرار کیا ہے‘ مگر دو طرفہ بنیادوں پر مسئلہ کشمیر کے حل میں آج تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اسی لیے پاکستان میں تیسرے فریق کی مداخلت یا مصالحت کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔
اس مسئلے پر بھارت کے غیر لچک دار رویے کے پیش نظر چین پاکستان کے ساتھ اس کے کشیدہ تعلقات میں نرمی لانے کے لیے ''تیسرے فریق‘‘‘ ''ثالثی‘‘ یا ''مصالحت‘‘ کے بجائے کوئی اور نام مثلاً ''سہولت کار‘‘ استعمال کر سکتا ہے۔ اگرچہ اس وقت چین اور بھارت کے اپنے تعلقات کشیدہ ہیں مگر گزشتہ تین سال کے دوران دونوں ملکوں نے مشترکہ ہمالیائی سرحد پر کشیدگی کو تصادم کی شکل اختیار کرنے سے جس طرح روکا ہے‘ اس کے پیش نظر توقع کی جا سکتی ہے کہ دونوں ملک جنوبی ایشیا میں مستقل امن کی طرف بھی ایک مشترکہ اپروچ اپنائیں گے اور پاک بھارت تنازعات‘ جن میں کشمیر بھی شامل ہے‘ کے حل کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے کشیدگی کو ختم کر کے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کریں گے۔