یہ محض ایک حسنِ اتفاق نہیں ہے کہ چین‘ جس نے مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس کے کسی ملک کے ساتھ دفاعی معاہدہ نہیں کر رکھا‘ اس کی فوجیں ان خطوں میں موجود نہیں‘ اس کا ان علاقوں میں کوئی ہوائی‘ بری یا بحری فوج کا اڈّا نہیں‘ نہ وہ اس خطے کے ممالک کو ہتھیار اور اسلحہ بیچنے والے ممالک میں شامل ہے اور نہ ہی کسی لمبے عرصے کے لیے اس خطے کے سیاسی معاملات سے وابستہ رہا ہے‘ اس کے باوجود اس نے چار دہائیوں سے جاری ایران اور سعودی عرب کے درمیان چپقلش اور محاذ آرائی کو ختم کرکے معمول کے مطابق تعلقات استوار کرنے پر معاہدہ حاصل کر لیا ہے۔ یہ کارنامہ یا اس سے ملتی جلتی کوئی اور کامیابی امریکہ حاصل نہیں کر سکا حالانکہ جبرالٹر سے آبنائے ملاکا تک امریکہ کے بحری بیڑے‘ طیارہ بردار جہاز‘ ایٹمی اور غیر ایٹمی آبدوزیں موجود ہیں جن کا مقصد ضرورت پڑنے پر مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس کے علاقوں میں کارروائی کرنا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ نے مصر‘ سعودی عرب‘ یو اے ای‘ بحرین اور قطر کے ساتھ دو طرفہ دفاعی معاہدے کر رکھے ہیں۔ سعودی عرب میں امریکہ کی سکیورٹی فورسز کا ایک دستہ موجود رہتا ہے۔ قطر میں اس کا ایک بہت بڑا ہوائی اور بحرین میں بحری اڈا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک امریکہ مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی‘ دفاعی اور معاشی شعبوں میں سب سے زیادہ با اثر طاقت چلا آ رہا ہے۔ اس کے باوجود وہ اب تک خطے کے کسی تنازع میں ایک کامیاب ثالث کا کردار ادا نہیں کر سکا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ امریکہ کی جانبدارانہ پالیسی ہے۔ اسی لیے مقامی ممالک امریکہ پر اعتبار کرنے پر تیار نہیں۔ اس کے مقابلے میں چین نے ایک لمبے عرصے کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو از سرِ نو استوار کرنے کے بعد تجارتی‘ معاشی اور ثقافتی شعبوں میں تعاون پر توجہ مرکوز کرکے ایک ایسی پالیسی اختیار کی جسے ''سافٹ پاور‘‘ پالیسی کہا جاتا ہے۔ اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں چین اثر و رسوخ رکھنے والا ایک اہم ملک بن چکا ہے اور اس کے ہر ملک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان ایک عرصے سے محاذ آرائی اور کشیدگی چلی آ رہی تھی۔ اس کی وجہ سے دونوں ممالک شام‘ عراق اور یمن میں پراکسی جنگوں میں ملوث تھے‘ جن میں ایک دہائی کے دوران ہزاروں مسلمانوں کا خون بہہ چکا ہے‘ لیکن چین کے ان دونوں ملکوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں اور دونوں ممالک اس پر اعتبار کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہی بات (اسرائیل کے سوا) خطے کے دوسرے ممالک کے بارے میں پورے اعتماد سے کہی جا سکتی ہے۔ ذرا دیکھئے‘ خطے میں کتنے وسیع پیمانے پر اور پُرجوش انداز میں ایران سعودی عرب معاہدے کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ صرف اسرائیل نے اس پر بوکھلاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے اسے خطے کی سلامتی کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔
چین نے مشرقِ وسطیٰ میں یہ مقام ایک طویل عرصے پر محیط‘ عدم مداخلت‘ باہمی مفاد‘ ایک دوسرے کی آزادی‘ خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے احترام اور عوامی سطح پر (people to people) روابط کے فروغ پر مبنی پالیسی اختیار کرنے سے حاصل کیا ہے۔ تجارت اور سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ چین نے مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی‘ سماجی اور ثقافتی حالات کو سمجھنے اور جاننے کیلئے اپنے سکالر علاقے کی یونیورسٹیوں میں بھیجے ہیں اور خود کو متعارف کرانے کیلئے تقریباً ہر یونیورسٹی میں کنفیوشس سنٹرز کھول رکھے ہیں۔ اسی طرح چین کی یونیورسٹیوں میں عرب طلبہ کے داخلوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق اس وقت تقریباً ایک ہزار سعودی طلبہ چین کی یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ اگرچہ امریکہ اور یورپ کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ثقافتی اور تعلیمی تعلقات کا عرب چین ثقافتی اور تعلیمی تعلقات کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم چین نے ان شعبوں پر اب تک جو توجہ دی اس کے نتیجے میں چین اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان تجارت‘ کاروبار‘ سیاحت اور تعلیم کے شعبوں میں تعلقات تیزی سے فروغ پا رہے ہیں۔ چین اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان موجودہ تعلقات صرف اس حقیقت پر مبنی نہیں کہ چین اپنی صنعتی ضروریات کے لیے مشرقِ وسطیٰ سے توانائی درآمد کرتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کیلئے بھی چین ایک بہت بڑی منڈی‘ تیل اور گیس کے علاوہ توانائی کی پیداوار میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی‘ بجلی سے چلنے والی کاریں اور مصنوعی ذہانت کے استعمال کے لیے ایک بڑی دلکشی کا باعث ہے۔ ماہرین اور تبصرہ کاروں کی رائے میں 10 مارچ کو طے ہونے والا ایران‘ سعودیہ معاہدہ چین کیلئے ایک بہت بڑی سفارتی فتح اور امریکہ خصوصاً اسرائیل کیلئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ اس پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا چین مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی جگہ لے سکتا ہے؟ اور یہ کہ 2020ء میں امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشش سے اسرائیل اور خلیج کے عرب ممالک (یو اے ای اور بحرین) کے درمیان تعلقات کے جس عمل کا آغاز ہوا تھا‘ اس کا مستقبل کیا ہو گا؟ جہاں تک اس سوال کے پہلے حصے کا تعلق ہے‘ اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں چینی پالیسی کے مقاصد میں یہ شامل نہیں۔ چین مشرقِ وسطیٰ میں ایک مسابقتی کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ اس پالیسی کو چھ نکات کے ساتھ ایک مربوط شکل میں صدر شی جن پنگ نے گزشتہ سال اپریل میں باؤ (Bao) فورم میں گلوبل سٹریٹیجک انیشی ایٹو (GSI) کے نام سے پیش کیا تھا۔ ان نکات میں ایک دوسرے کے جائز مفادات کا احترام بھی شامل ہے۔
مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے توانائی‘ تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں اہم مفادات شامل ہیں۔ اپنے جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے مشرقِ وسطیٰ نیٹو کی دفاعی حکمت عملی کا ایک انتہائی اہم حصہ ہے کیونکہ مشرقِ وسطیٰ پر غلبے کی صورت میں نہ صرف نیٹو کے مشرق بازو (Flank) کو خطرے میں ڈالا جا سکتا ہے بلکہ قدرتی اور معدنی وسائل سے مالا مال افریقہ میں بھی مغربی اثرو رسوخ پر کاری ضرب لگائی جا سکتی ہے۔ جہاں تک ابراہم اکارڈز کے تحت اسرائیل اور خلیجی عرب ممالک کے درمیان قریبی تعلقات پر مبنی منصوبے کا تعلق ہے‘ اس کے رول بیک ہونے کا کوئی امکان نہیں بلکہ غیر سیاسی شعبے میں ان معاہدات میں شامل عرب ملکوں اور اسرائیل کے درمیان اگر مزید تعاون پر رضا مندی ہوتی ہے تو اس پر حیرانی نہیں ہو گی کیونکہ خلیجی عرب ممالک نے سوچ سمجھ کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ابراہم معاہدات کی چھتری تلے امریکہ اور اسرائیل نے ایران کے خلاف اس کے ہمسایہ عرب ممالک پر مشتمل جس اتحاد کا منصوبہ بنایا تھا‘ وہ ایران سعودی عرب کے 10 مارچ کے معاہدے کے بعد اپنی موت آپ مر گیا ہے۔ اسی طرح نیتن یاہو نے یو اے ای اور بحرین کے بعد سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کو ابراہم معاہدات میں شامل کرنے کا جو خواب دیکھا تھا‘ وہ چکنا چور ہو گیا ہے۔ سعودی عرب کی شمولیت پر تو پہلے ہی ایک بڑا سوال تھا‘ لیکن اسرائیل میں نیتن یاہو کی قیادت میں گزشتہ دسمبر سے قائم انتہائی دائیں بازو کی حکومت کی طرف سے فلسطینیوں کے قتلِ عام نے ابراہم معاہدات کی وسعت کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے؛ البتہ اسرائیل اور خلیج کے عرب ممالک کے درمیان ابراہم معاہدات کے فریم ورک میں تجارت‘ سرمایہ کاری‘ ٹرانسپورٹ‘ کمیونیکیشن اور دیگر شعبوں میں تعاون کے لیے جو معاہدات ہو چکے ہیں‘ ان پر عمل درآمد جاری رہے گا۔ خلیج فارس کی عرب ریاستیں قومی ترقی کے عمل کو وسیع اور تیز کرنا چاہتی ہیں اور اس مقصد کیلئے وہ بغیر کسی بیرونی دباؤ کے آزادانہ طور پر فیصلہ کرنا چاہتی ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے کشیدہ تعلقات ان کی اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی آزادی کو متاثرکر رہے تھے‘ اس لیے 10 مارچ کے معاہدے پر وہ بہت خوش ہیں۔(جاری)