سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل نے ایران سعودی عرب ڈیل پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس کے خطے کیلئے ایک گیم چینجر ہے اور اس کا یمن میں جاری جنگ‘ شام بلکہ عراق پر بھی اثر پڑے گا۔ دیگر تبصرہ کاروں کی رائے میں اس کے اثرات ان خطوں پر بھی مرتب ہوں گے جو جغرافیائی‘ تاریخی‘ ثقافتی اور معاشی طور پر مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس سے ملحقہ ہیں مثلاً وسطی ایشیا‘ بحیرہ کیسپین کا تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال خطہ اور جنوبی ایشیا۔ مشرق وسطیٰ کی طرح چین نے جنوبی ایشیا کے ممالک کے ساتھ بھی دو طرفہ بنیادوں پر تجارت‘ سرمایہ کاری اور ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر کے شعبوں میں اہم تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ اس کی نمایاں مثال 62 بلین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کے ساتھ چین کے صوبہ سنکیانگ اور بحیرہ عرب کے ساحل پر گوادر کو ملانے والے چائنا‘ پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پیک) ہے۔ سی پیک کو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (B&RI) کا فلیگ شپ منصوبہ کہا جاتا ہے۔بی اینڈ آر آئی کا اعلان چین کے صدر شی جن پنگ نے 2013ء میں کیا تھا۔ اس کے تحت چین نے چار سے آٹھ ٹریلین امریکی ڈالر کی لاگت سے نہ صرف ایشیا اور یورپ بلکہ اوشنیا (Oceania) اور مشرقی افریقہ کے ساحلوں پر واقع ممالک کو بھی تجارتی شاہراہوں‘ ریلوے لائنوں اور انفراسٹرکچر کے دیگر منصوبوں کے ذریعے آپس میں ملانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اب تک تقریباً 149 ممالک اس منصوبے میں شامل ہو چکے ہیں جن میں پاکستان کے علاوہ جنوبی ایشیا کے دو مزید ممالک‘نیپال اور سری لنکا بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ چین نے خطے کے دیگر ممالک بشمول بھارت کے ساتھ بھی تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں گہرے تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ چین کے ساتھ سرحدی تنازع اور آئے دن کی جھڑپوں کے باوجود پاکستان میں تعینات بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر‘ راجیش شرما کے ایک حالیہ بیان کے مطابق چین‘ بھارت دو طرفہ تجارت کا حجم 120 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہے اور اس میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے‘ حالانکہ توازن بھاری مقدار میں چین کے حق میں ہے‘ اس کے باوجود بھارتی تاجر اور صنعتکار اسے جاری رکھنے کے حق میں ہیں کیونکہ خود بھارتی ماہرین اسے بھارتی معیشت کیلئے سود مند قرار دیتے ہیں۔ 2020-21ء میں چین بھارت تجارت اس سے پچھلے برس کے مقابلے میں 43.3 فیصد زیادہ تھی کیونکہ چین سے بھارت کو بیچے جانے والے سامان کی قدر 46.12 فیصد اور بھارت سے چین کو برآمد کرنے والی اشیا کی قدر 34.3 فیصد تھی۔ دو طرفہ تجارت کے حجم میں بتدریج اضافے سے چین 2008ء سے بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر چلا آ رہا ہے۔ اس وقت چین میں رجسٹرڈ بھارت کی 174 کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور بھارت میں 3560 کمپنیاں ایسی ہیں جن کے ڈائریکٹر چینی ہیں۔
تجارت اور کاروبار میں ہی نہیں ثقافتی شعبے میں بھی چین اور بھارت کا میل جول بڑھ رہا ہے۔ اس وقت 18000 بھارتی طلبہ چین کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں سیر کرنے والے سیاحوں میں سب سے زیادہ تعداد چینی سیاحوں کی ہے۔ اس کی وجہ سے چین سیاحت میں دنیا کی سب سے بڑی صنعت کا مالک ہے۔ 2019ء میں (کورونا وبا سے پہلے) بھارت آنے والے چینی سیاحوں کی تعداد تین لاکھ چالیس ہزار تھی۔ بھارت کے علاوہ چین نے نیپال‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ساتھ بھی دو طرفہ بنیادوں پر گہرے تجارتی اور معاشی تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ اس وقت چین نیپال کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے‘ حالانکہ ہمالیائی رکاوٹوں کے سبب نیپال اور چین کے درمیان تجارت اور لوگوں کی آمد و رفت محدود پیمانے پر ہی ہو سکتی ہے‘ مگر پاکستان اور سری لنکا کے بعد نیپال جنوبی ایشیاکا دوسرا بڑا ملک ہے جس نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں شمولیت اختیار کر رکھی ہے اور ہمالیہ کے بلند و بالا دروں میں سے گزرتی ہوئی 500 کلو میٹر لمبی فرینڈ شپ ہائی وے تبت اور نیپال کے درمیان تجارت اور آمد و رفت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس شاہراہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سارا سال کھلی رہتی ہے۔ اس وقت متعدد ترقیاتی منصوبے چینی امداد سے نیپال میں جاری ہیں۔ یہ امداد چین کی طرف سے گرانٹ اور بغیر سود اور کم سود پر قرضوں کی فراہمی پر مشتمل ہے۔ پاکستان‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا کی طرح چین نے نیپال کو بھی چین کو برآمد کرنے والی آٹھ ہزار اشیا کو درآمدی ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دے رکھا ہے۔ جن ممالک کا چین کے بڑے ٹریڈنگ پارٹنر میں شمار ہوتا ہے‘ ان میں بنگلہ دیش بھی شامل ہے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ تجارت اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کیلئے بنگلہ دیش کی 97 فیصددرآمدات پر چین نے ڈیوٹی معاف کر رکھی ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش میں 10 بڑے منصوبے چین کی مالی اور تکنیکی امداد سے چل رہے ہیں۔ ان منصوبوں کا زیادہ تر تعلق انفراسٹرکچر کے شعبے سے ہے۔ اکتوبر 2016 ء میں صدر شی جن پنگ کے دورہ کے موقع پر چین نے بنگلہ دیش میں 27 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا۔ سری لنکا بحر ہند کے عین وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے چین کیلئے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے اہم انفراسٹرکچر منصوبوں‘ جن میں ہمبنٹوٹا (Hambantota) کی بندرگاہ کی تعمیر بھی شامل ہے‘ پر چین نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ سری لنکا کے ساتھ چین کا تجارت‘ سرمایہ کاری‘ انفراسٹرکچر کی تعمیر اور دفاع کے شعبوں میں تعاون موجودہ صدی کے پہلے عشرے میں شروع ہوا تھا۔ 2009ء میں تامل باغیوں کو مکمل شکست دینے میں سری لنکا کو چین سے ملنے والی فوجی امداد نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسی صدی کے دوسرے عشرے کے ختم ہونے سے قبل چین سری لنکا میں دو طرفہ بنیادوں پر قرض فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا تھا۔ اس کے علاوہ چین نے کورونا وبا اور حالیہ معاشی بحران پر قابو پانے کیلئے سری لنکا کو خطیر رقوم فراہم کی ہیں۔بحر ہند اور بحر الکاہل کے خطوں میں امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کی بنیاد پر عسکری سرگرمیوں کی وجہ سے چین کیلئے سری لنکا کے ساتھ تعلقات نے اور بھی اہمیت اختیار کر لی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی طرح جنوبی ایشیا میں بھی چین ایک بڑے سٹیک ہولڈر کی حیثیت سے ابھرنے کے پیش نظر یہ سوال جائز طور پر پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا اس خطے میں ایک بڑے گیم چینجر کا امکان ہے؟
جنوبی ایشیا کے اکثر ممالک نے چین کی مدد سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو نارمل بنانے کے معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ جو عوامل مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت اور اس میں چین کے مؤثر کردار کا باعث ہے‘ ان میں سے بہت سے جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی موجود ہیں اور کچھ تیزی سے پیدا ہو رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ جنوبی ایشیا بھی مشرق وسطیٰ کی طرح ایک بڑی تبدیلی کے کنارے پر کھڑا ہے‘ تو غلط نہ ہو گا۔ اس تبدیلی کے راستے میں پاک بھارت تنازعات سب سے بڑی رکاوٹ ہیں جنہیں خطے میں امن اور عوام کی بھلائی کیلئے حل کرنا ہو گا۔ پاکستان اس کیلئے تیار ہے اور وزارتِ خارجہ نے جس پُرجوش طریقے سے ایران سعودی عرب ڈیل کا خیر مقدم کیا ہے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر چین مشرقِ وسطیٰ میں خطے کی دو بڑی طاقتوں میں مصالحت کروانے میں کامیاب ہو سکتا ہے تو یہ کام چین کی وساطت سے جنوبی ایشیا میں بھی ممکن ہے‘کیونکہ جنوبی ایشیا کے امن اور سلامتی میں بھی چین کے بڑے اہم سٹیک ہیں۔