گزشتہ سال اپریل میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف کامیاب تحریکِ عدم اعتماد کے بعد جب تقریباً تیرہ سیاسی جماعتوں پر مشتمل سیاسی اتحاد‘ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے اقتدار سنبھالا تو بہت کم لوگوں کو یقین تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت چند ہفتوں سے زیادہ اقتدار میں رہ سکے گی۔ اس کی ایک وجہ سابق وزیراعظم عمران خان کی طرف سے بھاری جلسے‘ جلوسوں کے ذریعے حکومت پر دبائو تھا اور دوسری وجہ معیشت کی زبوں حالی تھی۔ جیسا کہ بعد میں خود حکومتی حلقوں نے انکشاف کیا تھا کہ اگر چیئرمین تحریک انصاف 25مئی کو فوری انتخابات کا مطالبہ منوانے کے لیے لانگ مارچ کا اعلان نہ کرتے تو پی ڈی ایم کی حکومت خود اسمبلیوں کو تحلیل کرکے عام انتخابات کا اعلان کرنے والی تھی‘ لیکن ان کے اعلان کے نتیجے میں حکومت نے اپنا یہ ارادہ بدل لیا اور اتحاد میں شامل تمام جماعتوں نے اسمبلیوں کی باقی ماندہ مدت کی تکمیل کے بعد انتخابات کروانے کے عزم کا اعلان کر دیا۔
تحریک انصاف کا دبائو جاری رہا اور حکومت کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوتا رہا‘ مگر مخلوط حکومت مستحکم رہی۔ اس استحکام کی بنیاد حکمران اتحاد میں شامل دو بڑی جماعتوں یعنی مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان اتحاد‘ تعاون اور مفاہمت پر مبنی اشتراکِ عمل تھا۔ اس کا بھرپور مظاہرہ گزشتہ برس کے سیلاب کے دوران دیکھنے میں آیا تھا جب وفاقی حکومت اور سندھ کی پیپلز پارٹی کی حکومت نے مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کیا۔ پاکستان کی مخلوط حکومت نے اس موقع پر جس بہادری اور حوصلے کا مظاہرہ کیا اس کو سراہنے والوں میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی شامل ہیں‘ جنہوں نے خود پاکستان کا دورہ کرکے اپنی آنکھوں سے اس وسیع تباہی کو دیکھا تھا‘ جو سیلاب کی وجہ سے پھیلی تھی۔ اپنے بارے میں تمام افواہوں اور قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کرکے پی ڈی ایم کی اس مخلوط حکومت نے بہت جلد عالمی برادری میں پاکستان کا وقار اور اعتماد بحال کر دیا تھا۔ اگرچہ مخلوط حکومت میں شامل پارٹیوں کے درمیان اختلافِ رائے موجود رہا اور متعدد مواقع پر اس کا کھل کر اظہار بھی ہوتا رہا ‘ تاہم حکمران اتحاد میں شامل پارٹیوں کی سینئر قیادت نے ان اختلافات کو مل کر چلنے کے راستے میں رکاوٹ بننے کی اجازت نہیں دی‘ مگر پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیرِخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سوات میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کے دوران وزیراعظم شہباز شریف سے جو شکایت کی اور شکایت کا ازالہ نہ ہونے کی صورت میں جو دھمکی دی ‘ اس نے سب کو چونکا دیا۔
یہ شکایت موجودہ قومی بجٹ میں بقول بلاول بھٹو زرداری گزشتہ برس کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے اثرات پر قابو پانے کے لیے فنڈز مختص کرنے میں ناکامی کے بارے میں تھی۔ بلاول بھٹو صاحب کا کہنا تھا کہ وہ بجٹ میں سیلاب کے لیے فنڈز کی موجودگی نہ پا کر حیران ہوئے اور انہوں نے صاف کہہ دیا کہ اگر یہ فنڈز مہیا نہ کیے گئے تو پیپلز پارٹی کے اراکینِ قومی اسمبلی بجٹ کی منظوری کی حمایت نہیں کریں گے۔ انہوں نے وزیراعظم کو یاد دلایا کہ وہ مخلوط حکومت میں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں‘ اس لیے وہ برابری کے سلوک کا حق رکھتے ہیں اور اس کے بغیر ایک ساتھ چلنا مشکل ہو جائے گا۔ وزیراعظم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ان کی نیت پر شک نہیں رکھتے مگر وہ اپنے ان ساتھیوں سے ضرور وضاحت طلب کریں جو بقول ان کے وزیراعظم کے وعدوں پر عمل درآمد کے راستے میں روڑے اٹکاتے ہیں۔
اب سمجھ میں آئی کہ جمعہ کے روز وزیراعظم شہباز شریف سے سید خورشید شاہ‘ نوید قمر‘ قمرالزماں کائرہ‘ شیری رحمن‘ نثارکھوڑو اور سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ پر مشتمل پی پی پی کے ایک لارجر وفد نے کیوں ملاقات کی ۔ وفد کیساتھ ملاقات میں وزیراعظم کے ساتھ ان کے دو قریبی ساتھیوں‘ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور نون لیگ کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال ‘ کی موجودگی سے پتا چل جاتا ہے کہ گفتگو میں کن موضوعات پر بحث ہوئی ہو گی مگر بجٹ کی کسی مد میں فنڈز کا مختص ہونا یا نہ ہونا ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ اس پر دھمکی سمیت ایک جلسۂ عام میں بیان دیا جائے۔ بجٹ ایک پراسیس ہے اور اس کے کئی مرحلے ہوتے ہیں اور ہر مرحلے پر حکومت کا ہر شعبہ اور ادارہ اپنا اِن پُٹ فراہم کرتا ہے۔ گزشتہ برس کے سیلاب نے اگرچہ سندھ میں سب سے زیادہ تباہی مچائی مگر اس سے بلوچستان‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے کچھ حصے بھی متاثر ہوئے۔ اس لیے یہ ایک قومی مسئلہ ہے‘ جسے حکومت اور پیپلز پارٹی بھی تسلیم کرتی ہیں۔گو کہ بلاول بھٹو زرداری کی وارننگ کے بعد پیر کے روز وزیراعظم نے سندھ میں سیلاب متاثرین کیلئے 25 ارب روپے کی منظوری دے دی ہے لیکن اگر یہ مسئلہ صرف سیلاب تک محدود ہوتا تو اس پر پیپلز پارٹی مخلوط حکومت کا ایک اہم حصہ ہونے کی حیثیت سے بجٹ کی تیاری کے دوران کسی مرحلے پر بھی اعتراض اٹھا سکتی تھی۔ جب بجٹ کابینہ کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں بحث اور منظوری کے لیے پیش کر دیا گیا تو اس پر اعتراض اٹھانے اور واک آئوٹ کی دھمکی دینے میں کیا منطق تھی؟
دراصل گزشتہ کئی روز سے ایسی خبریں موصول ہو رہی تھیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ حکمران اتحاد میں شامل دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی نون لیگ اور پی پی پی کے درمیان ''سب اچھا نہیں ہے‘‘۔ پہلے نون لیگ کے بعض رہنمائوں کی طرف سے آزاد کشمیر کے ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی پر دھاندلی کے الزامات سامنے آئے۔ اس کے بعد کراچی میں پی پی پی نے میئر کے انتخاب میں اپنا امیدوار جس طرح جتوایا اس پر بھی نون لیگ کے ان رہنمائوں کی طرف سے اعتراضات اٹھائے گئے‘ حالانکہ نون لیگ نے با ضابطہ طور پر میئر کے انتخاب میں پی پی پی کا ساتھ دینے کا اعلان کر رکھا تھا۔
پنجاب سے پی پی پی کے حلقوں کی طرف سے شکایات سامنے آ رہی تھیں کہ نگران حکومت اس کے اراکین کے جائز مطالبات کو بھی نظر انداز کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور چیئرمین پی ٹی آئی کے قریبی ساتھی شیخ رشید پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات کی خلیج پیدا ہو چکی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے احتجاج اور دھمکی کے پیچھے اصل سبب نون لیگ کے رہنمائوں کی طرف سے دیے گئے دو حالیہ بیانات تھے۔ ان میں سے ایک بیان وہ ہے جس میں نون لیگ نے اعلان کیا کہ آنے والے انتخابات میں وہ پنجاب میں نہ تو کسی جماعت سے اتحاد کرے گی اور نہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں شامل ہو گی۔ دوسرا بیان وہ ہے جس میں وزیراعظم شہباز شریف اور مریم نواز نے اپنے نئے پارٹی عہدوں پر منتخب ہونے کے بعد کہا کہ ہماری دعا ہے نواز شریف آئیں‘ پارٹی کی قیادت کریں‘ انتخابی مہم میں حصہ لیں اور چوتھی بار وزیراعظم بنیں۔
حکومت آرٹیکل 62کے تحت تاحیات نااہلیت کو پانچ برس تک محدود کرنے کے لیے ایک ترمیمی بل پارلیمنٹ میں لا چکی ہے جسے حکومت کی طرف سے نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے‘ لیکن سابق صدر آصف علی زرداری کہہ چکے ہیں کہ ان کے سامنے اب سب سے بڑا مشن بلاول کو وزیراعظم دیکھنا ہے۔ مراد علی شاہ اعلان کر چکے ہیں کہ بلاول بھٹو اگلے وزیراعظم ہوں گے۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ نون لیگ پی پی پی کو پنجاب میں قومی اسمبلی کی سیٹوں کی ایک بڑی تعداد دینے پر رضا مند ہو جائے۔ بلاول بھٹو کی دھمکی بھی اسی مقصد کے لیے دبائو کا ایک حصہ تھی۔