بیجنگ میں چینی حکام اور امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انتونی بلنکن کے درمیان ہونے والے مذاکرات پر ساری دنیا کی نظریں جمی ہوئی تھیں۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ دنیا کی ان دو سب سے بڑی معیشتوں کے باہمی تعلقات کچھ عرصہ سے انتہائی کشیدہ چلے آ رہے ہیں‘ خاص طور پر گزشتہ برس اگست میں جب چین کی سخت مخالفت کے باوجود امریکہ کے ایوانِ نمائندگان کی اُس وقت کی سپیکر نینسی پلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ چین اور امریکہ کے درمیان جنگ چھڑنے والی ہے‘ کیونکہ نینسی پلوسی کے تائیوان سے رخصت ہونے کے بعد چین کی فضائی اور بحری افواج نے تائیوان کو تقریباً گھیرے میں لے کر جنگی مشقوں کا آغاز کر دیا تھا۔ ان مشقوں میں لائیو اسلحہ استعمال کیا گیا اور یہ کئی ہفتوں تک جاری رہیں۔
چین تائیوان کے ارد گرد پانیوں میں اس سے قبل کئی بار ہوائی اور فضائی مشقیں کر چکا ہے لیکن یہ مشقیں پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ وسیع تھیں۔ ان میں حصہ لینے والے بحری جہازوں نے کئی روز تک غیرملکی بحری جہازوں کو تائیوان کے قریب سمندر سے گزرنے کی اجازت نہیں دی تھی‘ اور مشقوں میں شامل چین کے لڑاکا اور بمبار طیاروں نے تائیوان کی فضائی حدود میں بھی داخل ہو کر پروازیں کی تھیں۔ چین کی ان مشقوں کو دیکھ کر امریکی ماہرین نے تائیوان پر چین کے حملے کا شدید خدشہ ظاہر کیا تھا‘ جس پر امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ چینی حملے کی صورت میں امریکہ تائیوان کا ہر طریقے سے دفاع کرے گا‘ مگر تائیوان کا مسئلہ چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کا واحد سبب نہیں ہے۔
امریکہ کو روس اور ایران کے ساتھ چین کے بڑھتے تعلقات پر خصوصی طور پر تشویش ہے کیونکہ اس سے نہ صرف وسطی ایشیا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں بھی بقول امریکہ چین مغربی دنیا کے مفادات کیلئے ایک بڑا خطرہ بن کر ابھر رہا ہے۔ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی اور دفاعی مفادات پر تازہ رپورٹس میں چین کو امریکی قومی سلامتی اور دفاعی مفادات کیلئے روس سے بھی بڑا خطرہ قرار دیا جا چکا ہے‘ حالانکہ گزشتہ سال نومبر میں انڈونیشیا کے سیاحتی مقام بالی میں جی 20کی سربراہی کانفرنس کے موقع پر چینی صدر شی جن پنگ اور امریکہ کے صدر جوبائیڈن کے درمیان ملاقات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کچھ کمی آنے کی امید پیدا ہو گئی تھی کیونکہ صدر شی جن پنگ نے اپنے امریکی ہم منصب کو صاف بتا دیا تھا کہ چین کسی لحاظ سے بھی اور کسی بھی شعبے میں امریکی مفادات کیلئے خطرہ نہیں۔ انہوں نے امریکی صدر کو بتایا کہ دو بڑی طاقتیں ہونے کی وجہ سے چین اور امریکہ دونوں تاریخ اور موجودہ وقت میں دنیا کے عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اس لیے دونوں کو اپنی خارجہ پالیسی اور رویے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس وقت امریکہ اور چین کے تعلقات جس نہج پر ہیں وہ دونوں کے مفادات کے حق میں نہیں اور نہ ہی دنیا بھر کے عوام کی توقعات اور امیدوں کے مطابق ہیں‘ اس لیے امریکہ اور چین کو ایک دوسرے سے ڈیل کرتے وقت وہ راستہ اختیار کرنا چاہیے جو امن‘ تعاون‘ باہمی احترام‘ ذمہ داری اور استحکام کا راستہ ہو۔ بالی ملاقات میں دونوں ملکوں کے سربراہوں نے تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کم کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا تھا اور اس کیلئے طے ہوا تھا کہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ فروری 2023ء میں بیجنگ کا دورہ کرکے چینی حکام سے امریکی تحفظات پر بات چیت کریں گے‘ مگر امریکی فضا میں ایک چینی غبارے کی پرواز کو بہانہ بنا کر سیکرٹری بلنکن نے اپنا دورہ ملتوی کر دیا تھا۔ دورہ ملتوی ہونے کے بعد چین اور امریکہ کے درمیان بیان بازی اور الزام تراشی کی ایسی سرد جنگ شروع ہوئی کہ امریکہ میں بھی تھنک ٹینکس میں کام کرنے والے ماہرین اور دانشور بیک زبان پکارنے لگے کہ ان دو ملکوں کے درمیان محاذ آرائی اور کشیدگی کا سلسلہ رکنا چاہیے‘ ورنہ دنیا ایک خوفناک تصادم کے اثرات سے نہیں بچ سکے گی۔ 18اور 19جون کو سیکرٹری آف سٹیٹ انتونی بلنکن کے دورۂ چین کی اہمیت کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اس دورے کی اہمیت کا اس امر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خارجہ تعلقات کو ہینڈل کرنے والے تین بڑے لیڈرز یعنی وزیر خارجہ قن گانگ (Qin Gang) ڈائریکٹر آفس آف دی فارن افیئرز کمیشن اور سابق وزیر خارجہ وانگ ژی اور عوامی جمہوریہ چین کے صدر‘ چینی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری اور سنٹرل ملٹری کمیشن کے چیئرمین شی جن پنگ سے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انتونی بلنکن کی ملاقات ہوئی۔ وزیر خارجہ قن گانگ کے ساتھ انتونی بلنکن کی وفود کی سطح پر بات چیت ساڑھے پانچ گھنٹے جاری رہی۔ اطلاعات کے مطابق وزیر خارجہ قن گانگ نے اپنے امریکی ہم منصب کو بتایا کہ 1972ء سے اب تک امریکہ اور چین کے تعلقات جتنے آج خراب ہیں‘ اتنے پہلے کبھی نہ تھے۔ چینی اور امریکی وفود‘ جن کی قیادت دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کر رہے تھے‘ کے درمیان طویل ملاقات کے بعد فیصلہ ہوا کہ دونوں ملک ڈائیلاگ جاری رکھیں گے‘ بلکہ انہیں وسیع کیا جائے گا۔ چینی وزیر خارجہ نے اپنے امریکی ہم منصب کی جانب سے دورے کی دعوت قبول کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ کسی مناسب موقع پر امریکہ کا ریٹرن وزٹ کریں گے۔ امریکی ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ نے بات چیت کو ''بے تکلفانہ‘ ٹھوس اور تعمیری‘‘ قرار دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین نے اپنا اپنا مؤقف کھل کر بیان کیا۔ اگلے دن امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کی ملاقات وانگ ژی سے تھی جو ایک لمبے عرصے تک چین کے وزیر خارجہ رہنے کے بعد اب امورِ خارجہ کے ایک اہم کمیشن کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے بھی چین امریکہ تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور محاذ آرائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کیلئے یہ فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ ڈائیلاگ چاہتے ہیں یا محاذ آرائی‘ تعاون چاہتے ہیں یا عدم تعاون۔ انہوں نے کہا کہ چین کی رائے میں دونوں ملک جس خطرناک کشیدگی کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ اسے روکنا چاہیے اور ان تعلقات کو ایک ''صحت مند اور مستحکم‘‘ راستے پر ڈال دینا چاہیے۔
بیجنگ سے واپسی سے قبل مسٹر بلنکن کی ملاقات صدر ژی سے ہو گی یا نہیں‘ اس کو صیغہ راز میں رکھا گیا تھا‘ مگر دوسرے دن یعنی پیر کی سہ پہر کو گریٹ ہال آف دی پیپلز میں امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کی صدر ژی سے ملاقات ہو گئی جو اگرچہ صرف آدھا گھنٹہ جاری رہی مگر انتہائی اہمیت کی حامل تھی کیونکہ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ وفود کی سطح پر دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ اس بات کا اعتراف صدر ژی نے بھی امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کو ہال میں ویلکم کرتے ہوئے کیا تھا۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انتونی بلنکن کا چین کا یہ دورہ اپنے پیشرو مائیک پومپیو کے 2018ء کے دورے کے بعد پہلا دورہ تھا۔
صدر جوبائیڈن نے ٹرمپ کی پیروی کرتے ہوئے چین کو امریکہ کا دشمن نمبر ایک قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف مختلف اقدامات کی دھمکی دی تھی‘ جن میں تائیوان اور سائوتھ چائنا سی میں اشتعال انگیز کارروائیاں بھی شامل تھیں‘ مگر جب چین نے امریکہ کا دبائو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور خود امریکہ کے یورپی اتحادی ممالک نے بائیڈن کی اس ہارڈ لائن پالیسی کی حمایت سے انکار کر دیا‘ تو امریکی صدر نے پہلے بالی ملاقات (نومبر2022ء) میں اور اب سیکرٹری آف سٹیٹ بلنکن کو بیجنگ بھیج کر لچک کا مظاہرہ کیا۔ اگرچہ جون 2023ء کے مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان برف پگھلی ہے اور باہمی رابطہ کاری جاری رکھنے اور وسیع کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے‘ مگر کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوا کیونکہ امریکہ نے ابھی تک چین کی کمپنیوں اور بعض اہم شخصیات‘ جن میں چینی وزیر دفاع بھی شامل ہیں‘ پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔