بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں امریکہ کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے میں صدر جو بائیڈن نے ان کی جس طرح آئو بھگت کی اور مشترکہ اعلامیہ میں جن الفاظ کا استعمال کیا گیا ‘ پوری دنیا میں اس پر گفتگو ہوئی ہے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان بلندیوں کو چھونے والی اس شراکت داری کے عالمی اور علاقائی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟
پاکستان کیلئے اس دورے کے دوران اور اس کے بعد استعمال ہونے والے الفاظ میں ایک اہم پیغام پنہاں تھا۔ آنے والے دنوں میں اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے‘ یہ تو ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتامگر اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ امریکہ اوربھارت کے درمیان پارٹنرشپ پر عمل درآمد سے عالمی اور علاقائی حساسیت پر گہرا اثر پڑے گا۔ خود امریکی صدر جو بائیڈن نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان یہ سٹریٹیجک پارٹنرشپ دنیا میں سب سے زیادہ مضبوط اور ہمہ گیر ہے اور اس کے ویژن میں ''جمہوریت اور انسانی حقوق‘‘ کو فروغ دینا بھی شامل ہے۔ امریکہ کی سفارتی زبان میں ان الفاظ کا اشارہ بظاہر چین کی طرف تھا۔بھارتی وزیر اعظم اور صدر بائیڈن کی وائٹ ہائوس میں ملاقات کے مشترکہ بیان اور بھارتی وزیر اعظم کے دورے کے اختتام پر مشترکہ پریس کانفرنس میں دونوں ملکوں کے رہنمائوں نے اس دورے کے دوران طے پانے والے جس روڈ میپ کا ذکر کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور بھارت نے بحر ہند اور بحرالکاہل کے خطوں میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی ہے اور اس کیلئے امریکہ نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور خلائی ریسرچ میں کام آنے والی ٹیکنالوجیز میں بھارت کے ساتھ تعاون اور شراکت داری کے دروازے کھول دیے ہیں۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکہ کے نیٹو اتحادی ممالک کے سوا کسی اور ملک کے ساتھ امریکہ کی ایسی گہری‘ ہمہ گیر سٹریٹیجک پارٹنرشپ کی مثال نہیں ملتی۔ مشترکہ اعلامیہ میں امریکہ نے بھارت کے ساتھ جن شعبوں میں مشترکہ پروڈکشن اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کا عہد کیا ہے‘ ان کی فہرست طویل ہے مگر ان میں خاص طور پر ڈیفنس انڈسٹری میں امریکہ اور بھارت کے تعاون سے بری فوج‘ فضائیہ اور بحریہ کیلئے جدید ترین ہتھیاروں کی پروڈکشن کا پروگرام قابلِ ذکر ہے۔ اس پر عمل درآمد کیلئے جنرل الیکٹرک اور ہندوستان ایروناٹکس کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں جس کے تحت انڈین ایئر فورس کے لڑاکا طیاروں کیلئے انجن مہیا کئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ بھارت نے امریکہ سے 30 کی تعداد میں ایم کیو 9 ریپر (MQ-9 Reaper) اور بلندی پر زیادہ دیر تک فضا میں محوِ پرواز رہنے والے ڈرون خریدنے کا معاہدہ بھی کیا ہے جس پر تین بلین ڈالر لاگت آئے گی۔ ڈیفنس انڈسٹری میں جدید ترین ہتھیاروں کی کوپروڈکشن کیلئے امریکہ اور بھارت کے درمیان معاہدے پر وزیر اعظم مودی کے امریکہ کے دورے پر جانے سے پہلے ہی دستخط ہو چکے تھے۔ اس معاہدے پر نئی دہلی میں بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ اور ان کے امریکی ہم منصب لائید آسٹن نے دستخط کئے تھے۔ معاہدے کے تحت جن ہتھیاروں کی کوپروڈکشن کا روڈ میپ طے کیا گیا ہے ان میں لانگ رینج میری ٹائم پٹرول ایئرکرافٹ اور سی 130ٹرانسپورٹ ایئر کرافٹ بھی شامل ہیں۔
دنیا میں ہتھیار خریدنے والے ممالک میں بھارت پہلے نمبر پرہے۔ 1950ء کی دہائی میں بھارت سب سے زیادہ ہتھیار روس سے حاصل کرتا تھا۔ اب بھی بھارت ہتھیاروں کی 50 فیصد ضرورت روس سے پوری کرتا ہے‘ لیکن گزشتہ چند برسوں میں بھارت کو امریکہ کی طرف سے ہتھیاروں کی سپلائی میں حیران کن حد تک اضافہ ہوا ہے۔ 2008ء میں امریکہ بھارت آرمڈ ٹریڈ زیرو تھی۔ 2020 ء میں اس کا حجم 20 بلین ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ اسی طرح وزیر اعظم مودی کے بیان کے مطابق امریکہ بھارت کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے۔ دفاع‘ معیشت اور جیو پالیٹکس میں امریکہ اور بھارت کی تیزی سے ابھرتی ہوئی اس شراکت داری کا مقصد کیا ہے؟ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے‘ یہ بات واضح ہے کہ امریکہ چین کی ابھرتی ہوئی طاقت اور اثرورسوخ کے آگے بند باندھنے کیلئے بھارت کو ساتھ ملانا چاہتا ہے۔ بھارت نے امریکہ سے جن ہتھیاروں کی خریداری اور کوپروڈکشن کے معاہدے کئے ہیں ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مدد سے بھارت بحرِ ہند میں چین کی بحری سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور ہمالیائی سرحد پر چین کے خلاف اپنی دفاعی پوزیشن کو مضبوط بنانا چاہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت دفاعی شعبے میں امریکہ کی قربت حاصل کر کے روس پر اپنے انحصار کو بتدریج کم کرنا چاہتا ہے لیکن جہاں تک گلوبل سٹریٹیجک پارٹنرشپ کے تحت امریکہ کی ان امیدوں اور توقعات کا تعلق ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا سے باہر چین کے خلاف کسی امریکی مہم جوئی میں عملی کردار ادا کرے گا تو امریکہ کو یہ سوچنے سے پہلے اس خطے کی تاریخی اور جدید بھارت کے بانی مفکرین‘ جن میں سابق وزیر اعظم پنڈت نہرو بھی شامل ہیں‘ کے فرمودات کا جائزہ لینا چاہئے۔
بھارت امریکی امداد اور تعاون سے اپنے آپ کو مضبوط کر کے امریکہ کے نہیں بلکہ اپنے مفادات کے تحفظ کی کوشش کرے گااور جنوبی ایشیا میں اس کا سب سے اہم ہدف خطے کے چھوٹے ممالک کو اپنی سٹریٹیجک سوچ کے تابع لانا ہے۔ بحرِ ہند کے شمال مغربی حصے اور خلیج فارس کے دہانے پر واقع آبنائے ہرمز سے لے کر جنوب مشرق میں آبنائے ملاکا تک کے خطے کو بھارت اپنا حلقۂ اثر تصور کرتا ہے اور اس میں موجود دیگر چھوٹے ممالک کے ساتھ قریبی دفاعی یا تجارتی تعلقات یا براہ راست بحری طاقت کے ذریعے کسی باہر کی طاقت کی موجودگی کے خلاف ہے۔ اسی پالیسی کے تحت بھارت نے رانا فیملی کے دور (1948ء ) میں نیپال اور1950ء کی دہائی میں پاکستان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ آزادانہ طور پر تعلقات قائم کرنے کی مخالفت کی تھی۔ اسی سوچ کے تحت بھارت کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی سری لنکا میں تامل باغیوں پر قابو پانے کیلئے کولمبو حکومت کی چین یا پاکستان کی امداد حاصل کرنے کے خلاف تھے اور انہوں نے 1986ء میں تامل باغیوں کو کچلنے کیلئے اپنی افواج بھیجیں‘ جس میں بھارت بُری طرح ناکام رہا۔
امریکہ اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ بھارت کو عسکری اور معاشی طور پر مضبوط بنا کر جنوبی ایشیا‘ مشرق وسطیٰ یا ان سے پار کے علاقوں میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے آگے بند باندھنے میں استعمال کر سکتا ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے کیونکہ نہ صرف دفاعی بلکہ معاشی اعتبار سے اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے لحاظ سے بھی چین اور بھارت میں بہت فرق ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ بھارت اور اس کے چھوٹے ہمسایہ ممالک کے درمیان سٹریٹیجک اتفاق کی عدم موجودگی ہے اور اس کی وجہ چین کے برعکس بھارت کی ہارڈ پاور خارجہ پالیسی ہے‘ حالانکہ ایران اور چین کی طرح بھارت بھی ایک قدیم تہذیب اور کلچر کے ذریعے ہمسایہ ممالک کے ساتھ سٹریٹیجک اتفاق قائم کر سکتا ہے۔ امریکہ نے سرد جنگ کے پہلے دور (1946-1991ء) میں بھی بھارت کو اینٹی کمیونزم بلاک میں شامل کرنے کی کوشش کی تھی مگر بھارت کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تنازعات کی موجودگی میں امریکہ کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی ۔