وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے دوٹوک بیانات کے بعد آئندہ انتخابات کے بروقت انعقاد کے بارے میں بے یقینی باقی نہیں رہ جاتی۔ تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں نے اکتوبر یا نومبر کے آغاز میں ہونے والے اس انتخابی معرکے کیلئے لنگوٹ کسنے شروع کر دیئے ہیں۔ انتخابات کے بارے میں ان کی سرگرمیاں دیکھ کر افسوس کا اظہار کرنا پڑتا ہے۔ ایک بات تو سب میں مشترک ہے‘ وہ یہ کہ پاکستان کو درپیش جتنے مسائل ہیں ان سب کی ذمہ داری سابقہ حکومتوں اور حریف سیاسی پارٹیوں پر ڈال دیتے ہیں اور اس کے ساتھ قوم سے وعدہ کرتے ہیں کہ اگر انہیں اقتدار میں آنے کا موقع مل گیا تو ان سب مسائل کو حل کر دیا جائے گا‘ حالانکہ ان سب کو گزشتہ دہائیوں میں اقتدار میں رہنے کا موقع مل چکا ہے‘ لیکن ہر دور میں مسائل میں کمی کی بجائے خاص طور پر معاشی مسائل میں اضافہ ہوا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو انہیں ملک کو درپیش مسائل کا ادراک نہیں یا ان مسائل کی اصل وجوہات کا ذکر کرنے کی ہمت نہیں۔ ایک زمانہ تھا جب یہ کہا جاتا تھا کہ اسلام آباد کو اقتدار کا راستہ واشنگٹن سے ہو کر جاتا تھا مگر اب یہ راستہ تبدیل ہو چکا ہے اور اقتدار تک پہنچنے اور پھر اس میں رہنے کیلئے ملک کے اندر مقتدرہ کی خوشنودی کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً تمام سیاسی پارٹیاں عوام کے ووٹ کا ذکر کرتی ہیں اور اس ارادے کا اعلان کرتی ہیں کہ وہ عوام کے ووٹوں کی بنیاد پر اقتدار میں آئیں گی لیکن آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کے بارے میں جونہی چند اہم اعلانات کئے جاتے ہیں سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیوں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ 1950ء کی دہائی کی ڈرائنگ روم پالیٹکس لوٹ آئی ہے‘ کیونکہ عوام سے براہ راست رابطوں کی بجائے آج بھی ان سیاستدانوں پر فوکس کیا جا رہا ہے‘ جنہیں الیکٹیبلز (Electables) کہا جاتا ہے۔ تقریباً ہر سیاسی پارٹی کی انتخابی حکمت عملی میں ایسے افراد کو اہمیت دی جا رہی ہے جو سیاسی پارٹی کی حمایت کے علاوہ ذاتی طور پر بھی ووٹ حاصل کر کے جیتنے کی پوزیشن میں ہوں کیونکہ جیسا کہ بھارت کے ایک سابق وزیر اعظم آنجہانی اٹل بہاری باجپائی نے کہا تھا کہ سیاست نمبرز کا کھیل ہے (Politics is a game of numbers)۔ اصل اہمیت تو اسمبلیوں‘ جہاں حکومتیں تشکیل پاتی ہیں‘ میں نشستوں کی تعداد کی ہے اور اس کیلئے الیکٹیبلز سب سے زیادہ موزوں ہیں۔
آزادی کے 76 سال گزر جانے کے بعد بھی پاکستان کی انتخابی سیاست میں الیکٹیبلز کی اہمیت قائم ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1970ء کے انتخابات میں عوامی (Populist) سیاست اپنا کر ان الیکٹیبلز کی اہمیت کو کافی حد تک ختم کر دیا تھا مگر 1977ء کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی کوشش میں ان پر انحصارکرنا پڑا اور جن لوگوں کو صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشست کیلئے پارٹی ٹکٹس دیے گئے ان میں ایسے الیکٹیبلز کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ ان میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے زمیندار عطااللہ جہانیاں بھی شامل تھی جن کیلئے 1977 کے انتخابات میں اسمبلی سیٹ کیلئے درخواست کو خود بھٹو صاحب نے منظور کرنے کی سفارش کی تھی۔ ڈاکٹر مبشر حسن اس پارلیمانی بورڈ کے ممبر تھے جس میں یہ درخواستیں پیش کی گئی تھیں۔ بعد میں ایک ٹی وی انٹرویو میں ڈاکٹر مبشر حسن نے بتایا کہ جب عطااللہ جہانیاں کی درخواست اور اس پر جناب بھٹو کے سفارشی ریمارکس پر میری نظر پڑی تو میں نے بھٹو صاحب سے کہا کہ یہ صاحب تو پیپلز پارٹی کے کٹر مخالف رہے ہیں اور ایوب خان کے خلاف تحریک میں انہوں نے پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچانے کی پوری پوری کوشش کی تھی‘ اگر انہیں پارٹی ٹکٹ دیا گیا تو کارکن سخت ردعمل کا اظہار کریں گے۔ ڈاکٹر مبشر حسن کے مطابق بھٹو صاحب نے کہا تھا: ''مبشر یہ خاندانی آدمی ہے‘ وسیع وسائل کے مالک ہونے کی وجہ سے ان کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں‘ اس لئے اسمبلیوں میں پہنچ کر یہ ادھر اُدھر ہاتھ نہیں ماریں گے‘‘۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر مبشر کا کہنا تھا کہ بھٹو صاحب غالباً 1970ء میں منتخب ہونے والے بعض نمائندوں کے بارے میں موصول ہونے والی شکایات کے حوالے سے یہ بات کہہ رہے تھے۔ 1970 ء میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کیلئے ٹکٹ وصول کرنے والے امیدواروں کی بڑی تعداد کا تعلق مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے تھا۔ اقتدار کی کرسی پر پہلی دفعہ بیٹھنے سے انہیں جو موقع ملا اسے بعض ایم این ایز اور ایم پی ایز نے اپنی جیبیں بھرنے کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی شروع میں الیکٹیبلز اور آزاد امیدواروں سے دور رہنے کا اعلان کیا تھا مگر بعد میں ان کی طرف رجوع کرنا پڑا کیونکہ ان کی حمایت کے بغیر وہ 2018ء کے انتخابات کے بعد وزیر اعظم نہیں بن سکتے تھے۔ 1977ء کے انتخابات کے موقع پر ذوالفقار علی بھٹو کے دائیں بائیں وہ شخصیات کھڑی تھیں جنہوں نے ایوب خان کے خلاف تحریک کے دوران نہ صرف آمر کا ساتھ دیا تھا بلکہ ان کے ہاتھوں پی پی پی کے متعدد کارکن تشدد کا نشانہ بھی بنے تھے مگر بھٹو نے عوام سے براہ راست رابطہ نہیں توڑا تھا۔ بڑے بڑے زمینداروں اور سرمایہ داروں کو پیپلز پارٹی میں شامل کر کے وہ کہا کرتے تھے کہ میں انہیں پارٹی میں شامل کر کے غریب عوام کی خدمت پر مجبور کر دوں گا۔
معلوم نہیں پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کس حکمت عملی کے تحت ملک بھر میں الیکٹیبلز کی manhunt میں مصروف ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا یہ اعلان کہ وہ پنجاب میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تمام نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرے گی اور کسی پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کرے گی‘ پی پی پی کی قیادت کیلئے ایک بڑا دھچکا ہے کیونکہ 2013 ء کے انتخابات کے بعد ملک کے اس سب سے بڑے صوبے میں پی پی پی کا ووٹ بینک سکڑتا چلا گیا ہے اور پنجاب میں قومی اسمبلی کی سیٹوں کی ایک معقول تعداد حاصل کئے بغیر کوئی پارٹی مرکز میں برسرِ اقتدار نہیں آ سکتی۔ پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے پنجاب میں نہ صرف اپنی انٹری ڈالنا چاہتی تھی بلکہ قومی اسمبلی کی نشستوں کی معقول تعداد پر قبضہ کرکے بلاول بھٹو زرداری کیلئے وزارتِ عظمیٰ کی راہ بھی ہموار کرنا چاہتی تھی‘ مگر مسلم لیگ (ن)‘ جس نے اپنے رہنما سابق وزیر اعظم نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنانے کا تہیہ کیا ہوا ہے‘ بھلا ایسا کوئی فیصلہ کیسے کر سکتی ہے جس کے نتیجے میں وہ وزارتِ عظمیٰ کی کرسی کیلئے دوڑ میں پیچھے رہ جائے؟ (ن) لیگ کے فیصلے کے بعد پیپلز پارٹی نے ملک کے چاروں صوبوں میں الیکٹیبلز کے ساتھ رابطوں کیلئے کوششیں تیز کر دی ہیں اور اس میں اسے چاروں صوبوں میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ تازہ ترین مثال سندھ میں غوث بخش مہر کی ہے جو 2018ء کے انتخابات میں این اے 203 (شکار پور‘ سکھر‘ لاڑکانہ) سے مسلم لیگ (ف) جو کہ پیر آف پگاڑا کی قیادت میں قائم گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کا حصہ ہے‘ کی ٹکٹ پر پی پی پی کے امیدوار کو شکست دے کر منتخب ہوئے تھے‘ انہوں نے سندھ کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ملاقات کے بعد پی پی پی میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ غوث بخش مہر کی پی پی پی میں شمولیت جی ڈی اے کیلئے ایک بہت بڑا دھچکا اور پیپلز پارٹی کیلئے تقویت کا باعث ثابت ہو گی۔ 2023ء کے انتخابات میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں کی سرگرمیوں کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب کا فوکس عوام کو کسی ٹھوس پروگرام پر متحرک کرنے کی بجائے دیگر پارٹیوں کے الیکٹیبلز کو اپنی صفوں میں شامل کرنے پر مرکوز ہے جو کہ گراس روٹ کی سطح پر سیاسی سرگرمیوں سے منہ موڑنے کی ایک افسوسناک مثال ہے۔