جنوبی ایشیا کی طرح دنیا کے باقی خطوں میں بھی‘ جہاں ملکوں کی مشترکہ سمندری حدود ہیں‘ مختلف وجوہات کی بنا پر مثلاً معدنی اور قدرتی وسائل کی دریافت کی وجہ سے باہمی جھگڑے پائے جاتے ہیں‘ مگر بیشتر صورتوں میں ان جھگڑوں کا براہِ راست بات چیت کے ذریعے حل ڈھونڈ لیا جاتا ہے۔ اگر جھگڑا طول پکڑے تب بھی جنگ یا تصادم کی نوبت نہیں آتی‘ البتہ کشیدگی کی فضا قائم رہتی ہے۔ اس کی دو نمایاں مثالیں مشرقی بحیرہ ٔروم میں ترکیہ اور یونان کے علاوہ لبنان‘ شام اور اسرائیل کے درمیان زیرِ سمندر گیس کے ذخائر کی دریافت کی بنا پر کشیدگی اور چین‘ ویتنام اور فلپائن کے درمیان سائوتھ چائنہ سی کے ساتھ ان کے ساحلی علاقوں میں تیل اور گیس کے ذخائر پر ملکیت کے دعووں کی وجہ سے پیدا ہونے والے جھگڑے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں بھی خلیج بنگال میں بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان زیرِ سمندر پائے جانے والے معدنی ذخائر پر ملکیت کے متضاد دعوے موجود ہیں۔ معدنی ذخائر کے علاوہ سمندر سے مچھلیاں پکڑنے پر بھی جنوبی ایشیا کے ممالک مثلاً بھارت‘ سری لنکا اور پاکستان کے درمیان سمندر میں ماہی گیری کی وجہ سے آئے دن جھگڑے پیدا ہوتے رہتے ہیں اور ان کی سب سے بڑی وجہ گہرے سمندروں میں مستقل قومی سرحدوں کے تعین میں مشکل ہے۔ زمین پر تو سرحدوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے مگر سمندری لہروں‘ جو ہر وقت اپنی بلندی اور سمت بدلتی رہتی ہیں‘ پر مستقل سرحدوں کے نشانات کیسے لگائے جائیں؟ قدرت کے لیے تو یہ ازل سے چلا آنے والا ایک دلچسپ اور خوبصورت نظارہ ہے مگر ساحلی ملکوں کے غریب اور مفلوک الحال مچھیروں کے لیے یہ وبالِ جان ہے کیونکہ گہرے سمندر میں مچھلیاں پکڑتے ہوئے ان کی کشتیاں اکثر ایک دوسرے کی سمندری حدود میں داخل ہو جاتی ہیں۔ اس قسم کے واقعات نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ سری لنکا اور بھارت اور بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان بھی ہوتے رہتے ہیں‘ لیکن مبینہ طور پر پاکستانی سمندری حدود میں داخل ہونے والی بھارتی اور بھارت کی سمندری حدود میں داخل ہونے والی پاکستانی کشتیوں پر سوار ماہی گیروں کا مسئلہ اس لحاظ سے سری لنکا اور بھارت اور بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان مسائل سے مختلف ہے کیونکہ دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے بارے میں سکیورٹی خدشات موجود ہیں۔ اس بنا پر دونوں ملکوں کے کوسٹ گارڈز اور میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی سے تعلق رکھنے والے اہلکار ہمہ وقت چوکس رہتے ہیں اور جونہی کوئی غیرملکی کشتی ان کی سمندری حدود میں داخل ہوتی ہے‘ اسے ماہی گیروں سمیت حراست میں لے لیا جاتا ہے‘ کشتیوں کو ضبط کر لیا جاتا ہے اور ماہی گیروں کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کی جیلوں میں مختلف الزامات کے تحت ایک دوسرے کے قیدیوں کی ایک بڑی تعداد موجود رہتی ہے۔ ان میں 90 فیصد سے زیادہ مچھیرے ہوتے ہیں۔ یہ غریب ماہی گیر دوہری ابتلا کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک تو سمندری حدود کی خلاف ورزی پر انہیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں انہیں نہ صرف مناسب سہولتیں میسر نہیں ہوتیں بلکہ دشمن ملک سے تعلق رکھنے کی بنا پر انہیں سخت تفتیش کے عمل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ اس لیے قید کے دوران ان سے ناروا سلوک کیا جاتا ہے‘ بھارت کی جیلوں میں بند پاکستانی ماہی گیروں کے متعلق کئی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں۔ حکومتوں کی بے اعتنائی کی وجہ سے متعدد قیدی اپنی سزا مکمل ہونے کے باوجود رہائی سے محروم رہتے ہیں‘ البتہ جب کبھی پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کو سیاسی مصلحت کے تحت ایک دوسرے کے لیے خیر سگالی کے جذبے کے اظہار کی ضرورت پڑتی ہے تو واہگہ سرحد پر سال میں دو دفعہ (یکم جنوری اور یکم جولائی) کو قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ کیا جاتا ہے اور اس کے ہمراہ ان قیدیوں کو ایک دوسرے کے حوالے کیا جاتا ہے جو اپنی سزا بھگت چکے ہوتے ہیں۔ قیدیوں کی فہرستوں کا یہ سالانہ تبادلہ اس دو طرفہ معاہدے کے تحت کیا جاتا ہے جس پر 2008ء میں پاکستان اور بھارت کی حکومتوں نے دستخط کیے تھے۔
رواں سال یکم جنوری کو بھارت نے اپنی جیلوں میں قید 339 پاکستانی سویلین قیدیوں کی فہرست پیش کی جن میں 95ماہی گیر تھے جبکہ پاکستان کی طرف سے جن بھارتی قیدیوں کی فہرست بھارت کے ساتھ شیئر کی گئی ان میں 654ماہی گیر اور 51 سویلین تھے۔ یکم جولائی 2023ء کو پاکستان نے اپنی جیلوں میں بند بھارتی قیدیوں کی جو فہرست بھارت کے حوالے کی ان کی کل تعداد 308 تھی۔ ان میں 266 ماہی گیر تھے اور 42قیدی دیگر جرائم کے مرتکب تھے۔ شروع سے ہی پاکستان کی قید میں بھارتی ماہی گیروں کی تعداد بھارت کی جیلوں میں بند پاکستانی ماہی گیروں کی تعداد سے زیادہ رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارتی ماہی گیروں کی جانب سے پاکستانی سمندروں کی حدود کی خلاف ورزیوں کی تعداد زیادہ ہے۔
2008ء میں پاکستان اور بھارت نے اپنے ہاں ایک دوسرے کے قیدیوں کی فہرستوں کے تبادلے کا جو معاہدہ کیا تھا‘ اس کا سب سے اہم مقصد نہ صرف ان غریب اور بدقسمت قیدیوں کے لیے دورانِ حراست بہتر سلوک اور ضروری سہولتوں کا حصول تھا بلکہ ان کی جلد از جلد رہائی کو بھی یقینی بنانا تھا‘ مگر افسوس کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک اس ضمن میں ناکام رہے ہیں۔ دونوں کی جیلوں میں متعدد قیدی ایسے ہیں جو مدت ہوئی اپنی سزائیں بھگت چکے ہیں‘ مگر حکام کی عدم توجہی کی بنا پر جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں سہہ رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے باہمی کشیدہ تعلقات نے ان بیچارے قیدیوں کے لیے اور بھی مشکلات پیدا کر دی ہیں اور سزائیں مکمل ہونے کے باوجود وہ ابھی تک جیلوں میں بند ہیں۔ ان میں سے کچھ اسی حالت میں جہانِ فانی سے رخصت ہو چکے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات گزشتہ 76 سال کے عرصے میں متعدد بار اتار چڑھائو کا شکار رہے اور کئی مواقع پر ان پر برسوں تک جمود چھایا رہا لیکن اگست 2019ء میں بھارت کی موجودہ بی جے پی کی حکومت کی جانب سے یکطرفہ اور صریحاً غیرقانونی اقدام کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اسے بھارتی یونین میں ضم کیے جانے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔ ان کشیدہ تعلقات سے متاثر ہونے والوں میں دونوں کی جیلوں میں بند سینکڑوں قیدی ہیں‘ جن کی غالب تعداد ماہی گیروں پر مشتمل ہے۔ عام حالات میں ان ماہی گیروں کو سمندر کی معدوم سرحدوں کی خلاف ورزی کی پاداش میں چھ ماہ سے زیادہ قید میں نہیں رہنا چاہیے مگر انہیں دیگر الزامات مثلاً دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ کے تحت برسوں تک جیلوں میں رکھا جاتا ہے جس کا نتیجہ اکثر اوقات قیدیوں کی موت کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دونوں ملکوں میں ایسے قیدیوں کو ریلیف فراہم کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں مگر سیاسی وجوہات کی بنا پر کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اس مسئلے کو جو کہ خالصتاً ایک انسانی مسئلہ ہے‘ دونوں ملکوں کی حکومتوں کے نوٹس میں لانا ضروری ہے تاکہ انسانیت کو زیادہ دیر تک سیاست کا یرغمال نہ بنایا جا سکے۔