نگران حکومت کے وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں ملک کی جو پالیسی کل تھی وہی آج ہے اور آنے والے کل میں بھی وہی رہے گی‘ یعنی پاکستان اسرائیل کو اُس وقت تک تسلیم نہیں کرے گا جب تک کہ فلسطین کا مسئلہ فلسطینیوں کی خواہش کے مطابق حل نہیں ہو جاتا۔ اس ضمن میں انہوں نے مسئلہ فلسطین کو مسئلہ کشمیر کے ساتھ ملاتے ہوئے واضح کیا کہ دونوں میں ایک ہی اصول کار فرما ہے اور وہ یہ کہ مسئلہ کشمیر کشمیریوں اور فلسطین کا مسئلہ فلسطینی عوام کی مرضی کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ وزیر خارجہ اخباری نمائندوں کے ان سوالات کا جواب دے رہے تھے جن میں اُن سے پوچھا گیا تھا کہ اسرائیلی وزیر خارجہ کے تازہ ترین بیان کی روشنی میں کیا پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے پر تیار ہے؟ اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان دو طرفہ تعلقات بہتر ہو رہے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اگر نارمل ہو جائیں تو انہیں چھ سات دیگر اسلامی ملکوں کی طرف سے یقین دلایا گیا ہے کہ وہ بھی سعودی عرب کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے یہودی ریاست کو تسلیم کر لیں گے۔ انہوں نے ان ممالک کا نام نہیں لیا مگر یہ انکشاف کیا ہے کہ ان میں سے دو ایک کے ساتھ اُن کی بات چیت بھی ہوئی ہے۔
پاکستان اور اسرائیل کے درمیان نارمل تعلقات کے قیام کی خبریں ایک عرصہ سے چلی آرہی ہیں اس لیے یہ سمجھا گیا کہ جو ممالک سعودی عرب کے فیصلے کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار ہیں‘ شاید ان میں پاکستان بھی شامل ہو‘ مگر نگران وزیر خارجہ نے یہ کہہ کر کہ پاکستان اپنے خارجہ تعلقات میں فیصلے کسی اور کی پیروی میں نہیں کرتا بلکہ اپنے قومی مفاد کی بنیاد پر کرتا ہے‘ ان قیاس آرائیوں کو ختم کر دیا ہے۔بہرکیف قومی مفاد کی تعریف اور مفہوم بدلتا رہتا ہے اور عام طور پر اس سے وہی مطلب لیا جاتا ہے جو برسر اقتدار طبقہ اپنے مفاد کے لیے ضروری اور اہم سمجھے مثلاً 1950 ء کی دہائی میں اُس وقت کے حکمرانوں نے 'قومی مفاد‘ میں سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی سرد جنگ میں موخرالذکر کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ امریکہ کے ساتھ دو طرفہ سکیورٹی کا معاہدہ کیا اور سیٹو اور معاہدہ بغداد (بعد میں سینٹو) میں شمولیت اختیار کی۔ پاکستان میں رائے اس کے خلاف تھی مگر اُس وقت یہی کہا گیا کہ یہ پاکستان کے قومی مفاد میں ہے۔ بعد میں ثابت ہوا کہ اس اقدام سے پاکستان کے مفادات مجروح ہوئے۔ سوویت یونین کی مخالفت مول لے کر پاکستان نے اقوام متحدہ کی مدد سے مسئلہ کشمیر کے حل کا موقع کھو دیا‘تیسری دنیا میں پاکستان تنہا ہو گیا اور ابتدائی برسوں میں مسئلہ فلسطین پر ڈٹ کر عربوں کی حمایت کرنے پر پاکستان نے مشرق وسطیٰ میں جو عزت اور احترام حاصل کیا تھا وہ بھی کھو دیا۔ آخر کار پاکستان نے ان دفاعی معاہدوں سے علیحدگی اختیار کر کے غیر جانبدار ممالک کی تنظیم (NAM) میں شمولیت اختیار کر لی۔
مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں اسرائیل اور خطے کے عرب ممالک کے درمیان دو طرفہ بنیادوں پر نارمل تعلقات قائم ہو چکے ہیں اس کی مثال 2020ء میں اسرائیل‘ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان طے ہونے والے 'ابراہم معاہدات‘ ہیں۔ ان معاہدات کے تحت خلیج فارس کے ان دو عرب ملکوں اور اسرائیل کے درمیان تجارت‘ سیاحت‘ سرمایہ کاری‘ صنعت اور ایگریکلچر کے شعبوں میں تعاون کے لیے معاہدے ہو چکے ہیں۔ خود سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ روابط بڑھانے میں اہم پیش رفت کر چکا ہے مثلاً سعودی عرب نے اسرائیل کی شہری ہوا بازی کے طیاروں کو اپنی فضا استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اس رعایت سے اسرائیل کو خلیج فارس میں دیگر عرب ملکوں اور اس سے آگے کئی ملکوں مثلاً بھارت کے ساتھ روابط میں آسانی ہوئی ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کہہ چکے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں ان کے ملک کی خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا ہدف سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو نارمل کرنا ہے۔ انہیں یقین ہے کہ وہ یہ حاصل کر لیں گے کیونکہ نہ صرف اسرائیلی حکام بلکہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی کہہ چکے ہیں کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان دو طرفہ تعلقات دن بدن بہتر ہو رہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال اسرائیل کے ایک وزیر کا سعودی عرب میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا موقع تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی وزیر وزیر برائے سیاحت سعودی عرب میں نہ صرف بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی بلکہ اپنے دو روزہ دورے کے دوران میں سعودی حکام سے دو طرفہ تعلقات کے قیام پر بھی بات چیت کی۔ اسرائیل نے یو اے ای اور بحرین کے ساتھ تعلقات کے قیام کے علاوہ سوڈان اور مراکش کے ساتھ بھی تعلقات ازسر نو قائم کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اس کے ساتھ اسرائیل اور ترکی کے درمیان بھی تعلقات بہتر ہیں۔ اسرائیلی صدر ترکی کا اور ترکی کے وزیر خارجہ اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں۔ حال ہی میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ترکی کے صدر طیب اردوان اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے درمیان ملاقات بھی ہوئی ہے۔ دونوں رہنمائوں نے اتفاق کیا کہ اس ملاقات سے دونوں ملکوں کے دو طرفہ تعلقات میں مزید بہتری لانے میں مدد ملے گی۔ اس لیے ایسی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
ایک وقت تھا کہ پورا عالم عرب اسرائیل کو کسی بھی قیمت پر تسلیم نہ کرنے کے مؤقف کا حامی تھا اور دیگر اسلامی ممالک (ایران اور ترکی کو چھوڑ کر) عربوں کے ساتھ تھے مگر عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان چوتھی جنگ (1973-74ء) نے حالات بدل دیئے کیونکہ اس کے بعد مصر اور اردن نے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ امن پر دستخط کر دیئے۔ 1993ء میں اوسلو معاہدہ کے تحت فلسطینیوں نے بھی فلسطینی ریاست کے عوض اسرائیل کو عملاً تسلیم کر لیا اور 2002ء میں جب سعودی عرب کے شاہ خالد نے لینڈ فار پیس کے تحت اسرائیل کے ساتھ مصالحت کی پیشکش کی تو عرب ممالک خود اپنے تاریخی مؤقف سے پیچھے ہٹ گئے‘ جس کے تحت انہوں نے یہودی ریاست کو کسی بھی قیمت پر تسلیم نہ کرنے کا عزم کر رکھا تھا۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اگر تمام عرب ممالک بھی تسلیم کر لیں تب بھی پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ یہ مؤقف اس لحاظ سے قابلِ فہم ہے کہ مسلمانانِ پاک و ہند کے نزدیک فلسطینیوں کی حمایت اتنی ہی دل کے قریب رہی ہے جتنی مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کی جدوجہد تھی۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد نومبر 1947ء میں جب اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین پیش ہوا تو قائد اعظم نے چودھری ظفراللہ خاں کو خصوصی طور پر عربوں کے مؤقف کو سپورٹ کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ اس کے بعد عربوں اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی تمام جنگوں میں پاکستان نے عرب ممالک کی حمایت کی اور ان کے ساتھ فلسطین کے مسئلے پر یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے مثال فروری 1974ء میں لاہور میں ہونے والی اسلامی ملکوں کی دوسری سربراہی کانفرنس ہے۔ پاکستانی عوام اس مسئلے پر جذباتی اور مذہبی طور پر اتنے وابستہ ہیں کہ عرب ممالک میں کامیابی کے باوجود پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی نظر نہیں آتا۔ ہاں البتہ اسرائیل فلسطین کے خلاف اپنی ظالمانہ کارروائیاں بند کر دے اور ایک علیحدہ خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام پر راضی ہو جائے تو یہ ممکن ہے۔