"DRA" (space) message & send to 7575

فلسطینی جنگ اور مشرقِ وسطیٰ

اسرائیل پر حماس کے حملے اور اس کے جواب میں اسرائیل کے وحشیانہ رد عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کسی نے سچ کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ اب اپنی پہلی صورت میں کبھی واپس نہیں آئے گا۔ سات اکتوبر سے پہلے اگر مشرق وسطیٰ کے حوالے سے کوئی بات ہو رہی تھی تو اس کا تعلق اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے سے تھا۔ اس عمل کا آغاز تین سال قبل اسرائیل اور خلیج فارس کی دو اہم عرب ریاستوں یو اے ای اور بحرین کے درمیان ''ابراہم معاہدات‘‘ پر دستخطوں سے ہوا تھا۔ ابراہم معاہدات کے بعد نہ صرف اسرائیل اور خلیج فارس کی ان ریاستوں کے درمیان سفارتی‘ معاشی اور ثقافتی شعبوں میں قریبی تعاون کا آغاز ہوا بلکہ ریاض اور تل ابیب کے سرکاری حلقوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق سعودی عرب اور اسرائیل بھی ایک دوسرے کے قریب آ رہے تھے‘ لیکن سات اکتوبر کے حملے اور غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں نے اس عمل کو بریک لگا دی ہے۔ اگرچہ یو اے ای اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے مستقبل کے بارے میں ابھی کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا تاہم سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے جاری عمل کو فی الحال روکنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اسی طرح ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے جو اقدامات کیے جا رہے تھے وہ بھی روک لیے گئے ہیں اور ترکی کی جانب سے غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور محاصرے کی مذمت میں سخت بیانات جاری کیے جا رہے ہیں۔ عرب اور دیگراسلامی ملکوں جن میں ترکی کے علاوہ دیگر ممالک کا نام بھی لیا جا رہا تھا کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کو امریکہ کی حمایت حاصل تھی اور اسرائیل کے ایک اخبار Haaretz کے ایک کالم نویس Gideon Levy کے مطابق سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کی بنیادی وجہ یہی کوششیں تھیں کیونکہ ان کوششوں کے تحت فلسطین کے بنیادی مسئلے کو نہ صرف پس پشت ڈال کر بلکہ نظر انداز کر کے عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لایا جا رہا تھا۔
امریکہ جس نے مشرق وسطیٰ میں یہودی ریاست اسرائیل کے قیام میں براہ راست کردار ادا کیا اور جس کی امداد کے بل بوتے پر اسرائیل اب تک عربوں اور فلسطینیوں کے خلاف متعدد بار جارحیت کا ارتکاب کر چکا ہے اور جس پر فلسطین کے مسئلے کے حل کی سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے‘ کی تمام تر توجہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان اتحاد قائم کر کے ایران کے خلاف محاذ کھڑا کرنے پر مبذول تھی۔ اس صورتحال میں فلسطینیوں کے پاس اور کیا آپشن تھا؟ حالانکہ عرب اسرائیل تنازع گزشتہ 75 برس سے خطے کے امن اور استحکام کے لیے مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے‘ مگر گزشتہ چند برسوں سے مشرق وسطیٰ میں جو سفارتی جوڑ توڑ ہو رہا تھا اس سے صاف عیاں تھا کہ نہ صرف امریکہ بلکہ عرب ممالک کی ترجیحات میں بھی مسئلہ فلسطین اپنا مقام کھو چکا ہے۔ ایک ایسی حالت جہاں مغربی کنارے‘ غزہ اور اسرائیل کے اندر رہنے والے 75 لاکھ فلسطینی حالتِ جنگ سے قبضے اور قبضے سے محاصرے کی صورت میں زندگی بسر کر رہے ہوں‘ کب تک قائم رہ سکتی ہے؟ جب تمام راستے بند کر دیئے گئے ہوں تو دھماکہ تو ہو گا اور یہ دھماکہ سات اکتوبر کو ہو گیا۔ اس دھماکے کے نتیجے میں مسئلہ فلسطین زیرو گرائونڈ پہ آ گیا ہے۔ اگرچہ بین الاقوامی برادری‘ جس میں روس‘ چین‘ عرب ممالک اور پاکستان بھی شامل ہیں دو ریاستوں کے فارمولے کی بنیاد پر مسئلہ فلسطین کے حل کو خطے میں مستقل امن کے قیام کا واحد راستہ قرار دے رہی ہے مگر سات اکتوبر کے حملے اور غزہ پر اسرائیل کی تباہ کن پر بمباری کے بعد یہ فارمولا غیر متعلقہ (Irrelevant) نظر آ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیتن یاہو جو اسرائیل کی تاریخ میں سب سے لمبے عرصے تک ملک کا وزیر اعظم ر ہا اور موجودہ مخلوط حکومت میں شامل دوسری پارٹیاں شروع ہی سے دو ریاستی فارمولے کے خلاف ہیں‘ اور گزشتہ چار دہائیوں میں اسے مختلف حربوں کے ذریعے ناکام بنا تی چلی آتی ہیں۔ ان حربوں میں دریائے اردن کے مغربی کنارے خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں فلسطینی اکثریت میں ہیں یہودی بستیوں کی تعمیر بھی شامل ہے۔ بیشتر مبصرین کی رائے میں اگر دو ریاستی تجربے کی کامیابی کا کچھ تھوڑا بہت امکان تھا تو وہ سات اکتوبر کے بعد ختم ہو چکا ہے کیونکہ سات اکتوبر کے حملے اور اس کے بعد غزہ پر اسرائیل کی بمباری نے فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان اتنی نفرت‘ بد گمانی اور خوف کی فضا پیدا کر دی ہے کہ ان دونوں قوموں کا ایک دوسرے سے علیحدہ یا مل کر ایک ریاست میں رہنا ناممکن ہے۔
حماس کے حملے اور اس کے جواب میں اسرائیل کی غزہ پر چڑھائی اور محاصرے نے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے 1947ء سے اب تک جتنی بھی کوششیں کی گئی ہیں ان سب پر پانی پھیر دیا ہے اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے نئے سرے سے تجاویز پیش کی جا رہی ہیں مگر کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا کیونکہ اسرائیل نے دو ریاستی منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے ایک ریاست کی بات کی جا رہی ہے مگر وہ ایک ایسی ریاست چاہتا ہے جس میں فلسطینیوں کو برابری کے سیاسی‘ شہری اور قانونی حقوق حاصل نہیں ہوں گے۔ انہیں دوسرے‘تیسرے درجے کے شہری بن کر ایک ایسی سرزمین پر رہنا پڑے گا جو 1948ء سے پہلے ان کا وطن تھا۔ اسرائیل کی نظر میں ''ون سٹیٹ‘‘ (ایک ریاست) کے حل کی کیا شکل ہے اس کی ایک جھلک مقبوضہ علاقوں اور خود اسرائیل میں رہنے والے 20 لاکھ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے سلوک سے دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ اس وقت آبادی کا ایک گروہ ہے جو کسی ریاست کے شہری نہیں ہیں۔ انہیں ووٹ ڈالنے کا حق نہیں‘ انہیں برابر کا شہری نہیں سمجھا جاتا اور زندگی کے ہر شعبے میں ان سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ غزہ پر بمباری کے خلاف تمام دنیا خصوصاً عرب ممالک میں وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ مشرق وسطیٰ کے سیاسی افق پر ایک نئی حقیقت کے ظہور کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ ان میں حماس کی بھرپور حمایت کی گئی ہے جبکہ فلسطینی اتھارٹی سمیت کئی عرب ممالک حماس کی حکمت عملی اور مؤقف سے متفق نہیں‘ مگر غزہ پر اسرائیلی حملوں نے جس قدر تباہی مچائی ہے اس نے ان عرب ممالک کو دفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اگر اسرائیل اپنے وزیر دفاع اور وزیر اعظم کے اعلانات کے مطابق مشرق وسطیٰ کو ہمیشہ کے لیے 180 ڈگری تک تبدیل کرنے کے منصوبے پر عمل کرتا ہے تو تمام عرب ممالک اپنے عوام کے بڑھتے ہوئے دبائو کے تحت عملی اقدامات پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس طرح مشرق وسطیٰ جس کا گزشتہ دو ہزار سال میں کئی بار نقشہ تبدیل ہوا ہے ایک نئے دور میں داخل ہو جائے گا جس کے خد و خال ابھی واضح نہیں مگر ایک حقیقت واضح طور پر ابھر کر سامنے آ رہی ہے کہ امریکہ نے خلیج کے عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ ملا کر ایران کے خلاف محاذ بنانے کا جو خواب دیکھا تھا وہ ہمیشہ کے لیے چکنا چور ہو گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں