نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر نے چند روز قبل 62 ہندوؤں کو پاکستان میں اپنے مذہبی مقامات کی یاترا کیلئے ویزے جاری کیے ہیں۔ یہ ہندو یاتری پنجاب کے ضلع چکوال میں واقع کٹاس راج مندر پر حاضری دیں گے۔ اس سے قبل رواں ماہ کے اوائل میں پاکستانی سفارت خانے نے 104 ہندو یاتریوں کو سندھ میں شِو اوتار ست گرو سنت شادا رام کی 315ویں برسی منانے کیلئے ویزے جاری کئے تھے۔ ان دونوں مقامات کیلئے حکومت پاکستان نے 'پاک انڈیا پروٹوکول 1974ء‘ کے تحت ویزے جاری کئے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کے باشندوں کو ایک دوسرے کے ہاں مخصوص مذہبی مقامات پر حاضری کی اجازت دی جاتی ہے۔ ویسے تو پاکستان کے ہرخطے میں نہ صرف ہندو بلکہ سکھ‘ بدھ مت اور جین ازم کے لا تعداد مقدس مقامات موجود ہیں مگر 1974ء کے معاہدے کے تحت پاکستان میں ہندوؤں اور سکھوں کے 15مقامات کی یاترا کیلئے دونوں مذاہب کے پیروکاروں کو اجازت دی جاتی ہے۔ تین مقامات ہندوؤں کے ہیں‘ باقی 12کا تعلق سکھوں سے ہے۔ ہندوؤں کے جن تین مقدس مقامات کی یاترا کیلئے ویزے جاری کیے جاتے ہیں ان میں دو سندھ اور ایک پنجاب میں واقع ہے۔ ہر سال نہ صرف بھارت اور دنیا کے دیگر حصوں بلکہ پاکستان کی ہندو آبادی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں یاتری بھی ان مقامات پر ہونے والی مذہبی تقریبات میں حصہ لیتے ہیں۔
ہندوؤں کے اعتقاد کے مطابق ان کے ایک اہم دیوتا شِو کی اہلیہ پاروتی کا جب انتقال ہوا تو اس کی آنکھوں سے دو آنسو ٹپکے تھے‘ ان میں سے ایک متھرا (بھارت) میں گرا اور دوسرا پاکستان کے علاقے کلرکہار میں‘ دونوں مقامات پر ان آنسوؤں کے گرنے سے جھیلیں معرض وجود میں آ گئیں۔ ہندو ان جھیلوں میں اشنان کرتے ہیں۔ کٹاس راج میں مندروں کے علاوہ بڑی اور کشادہ عمارتیں بھی ہیں جو قدیم زمانے میں تدریس اور تحقیق کیلئے استعمال ہوتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ دسویں صدی عیسوی کے مشہور سکالر‘ تاریخ دان‘ ریاضی اور فلکیات کے ماہر البیرونی نے بھی یہاں کچھ عرصہ قیام کیا تھا اور نہ صرف سنسکرت زبان پر دسترس حاصل کی تھی بلکہ مقامی سکالرز سے بھی مستفید ہوئے تھے۔جس طرح بھارت کے ہندو اور سکھ باشندوں کو پاکستان میں ان کے مقدس مذہبی مقامات کی یاترا کی سہولت حاصل ہے۔ پاکستان سے بھی زائرین کو 1974ء کے اسی معاہدے کے تحت بھارت میں چند مقدس مقامات کی زیارت کیلئے بھارتی حکومت ویزے جاری کرتی ہے۔ ان مقامات میں اجمیر شریف‘ دہلی میں درگاہ حضرت نظام الدین اولیا اور امیر خسرو‘ سر ہند شریف اور کلیار شریف شامل ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے لوگوں کے وزٹ کیلئے دونوں ممالک میں اتنے مقدس مقامات موجود ہیں کہ انکی بنیاد پر مذہبی سیاحت کی اچھی خاصی صنعت پنپ سکتی ہے مگر ہمارے ہاں اسکی طرف توجہ نہیں دی گئی جبکہ خطے کے دوسرے ممالک مثلاً بھارت اور سری لنکا اس صنعت سے بہت کچھ کماتے ہیں۔
پاکستان میں مذہبی سیاحت بہت محدود ہے‘ ملک کو اس مد میں جو آمدنی حاصل ہوتی ہے وہ سالانہ جی ڈی پی کا صرف 2.8فیصد ہے حالانکہ جنوبی ایشیا میں یہ شرح اوسطاً جی ڈی پی کا 3.5فیصد ہے۔ اس کی بڑی وجہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی ہے۔ اس کشیدگی کی وجہ سے نہ صرف ویزوں کے اجرا میں غیرمعمولی تاخیر ہوتی ہے بلکہ بہت سے لوگ ویزا حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے پاکستان میں نہ صرف سکھوں بلکہ ہندوؤں اور بدھ مت کے مذہبی مقامات بھی موجود ہیں مگر بھارت سے آنے والے زائرین میں بڑی تعداد سکھوں کی ہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سکھ مذہب کے بیشتر مقدس مذہبی مقامات پنجاب میں ہیں۔ سکھ یاتری سال میں ایک سے زیادہ دفعہ نہ صرف ہزاروں کی تعداد میں پاکستان آتے ہیں بلکہ یہاں ان کے مذہبی مقدس مقامات کی دیکھ بھال اور رسائی کیلئے بھی خصوصی سہولتیں دی جاتی ہیں۔ اس کی نمایاں مثال نارووال کے قریب ڈیرہ نانک کے مقام پر کرتار پور کوریڈور کی تعمیر ہے۔ اس کوریڈور کی تعمیر نے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذہبی سیاحت کی تاریخ میں ایک اہم باب کا اضافہ ہوا ہے کیونکہ اس سے مشرقی پنجاب سے سکھ یاتریوں کو براہِ راست راوی عبور کرکے سرحد کے اس طرف بابا گورو نانک سے وابستہ اہم مقدس مقامات کی یاترا کا موقع ملتا ہے۔ اس سے پاکستان آنے والے سکھ یاتریوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور پاکستانی حکام کی طرف سے ان کیلئے جس طرح ہر سہولت کی فراہمی کی کوشش کی جاتی ہے‘ اس سے بھی پاکستان کیلئے اس اہم بھارتی کمیونٹی کے دل میں خیرسگالی کے جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح اگر ہندوؤں کیلئے بھی زیادہ تعداد میں ویزے جاری کیے جائیں تو اس سے دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی کی اس خلیج کو پاٹنے کا موقع مل سکتا ہے‘ جس کی وجہ سے اسلام آباد اور نئی دہلی 75سال گزر جانے کے بعد بھی اپنے دیرینہ مسائل حل نہیں کر سکے ہیں‘ حالانکہ ماضی میں دونوں ملک متعدد بار اپنے دو طرفہ تنازعات کے حل کے قریب پہنچ چکے تھے مگر حتمی قدم اٹھانے میں ناکام رہے۔ اس کی بڑی وجہ ایک دوسرے کے بارے میں شکوک و شبہات اور باہمی بداعتمادی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تنازعات‘ جن میں خاص طور پر کشمیر شامل ہے‘ کے حل اور باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے اب تک کی جانے والی تمام کوششوں کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ان دیرینہ اور پیچیدہ مسائل کے حل کیلئے سب سے پہلے اعتماد اور خیر سگالی کی فضا پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور یہ فضا جن اقدامات سے پیدا کی جا سکتی ہے ان میں دونوں ملکوں کے درمیان مذہبی سیاحت کا فروغ خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ جنوبی ایشیا میں مذہب کا بڑا اہم کردار ہے۔ مذہب کی بنیاد پر ہی ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہوا مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ تقسیم اور برصغیر میں دو علیحدہ اور آزاد ریاستوں کے قیام کے بعد مذہب تصادم یا کشیدگی کا باعث بنے۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی متعدد تقریروں اور بیانات میں آزاد پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی اور قریبی تعاون پر مبنی خوشگوار اور کشیدگی سے پاک تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا‘ مگر سیاسی اختلافات اور خصوصاً کشمیر کے تنازع کی وجہ سے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی اور دونوں ملک قریبی ہمسائے ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے۔ اس کے باوجود آزادی کے فوراً بعد کے ابتدائی برسوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان نہ صرف دو طرفہ تجارتی تعلقات قائم تھے بلکہ دونوں ملکوں نے ضروری درآمدات اور برآمدات میں سہولت کیلئے ایک قسم کی کسٹمز یونین قائم کر رکھی تھی۔ بھارت اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس سے پٹرولیم مصنوعات کراچی کی بندرگاہ سے بغیر کسی کسٹمز ڈیوٹی کے منگواتا تھا اور پاکستان بغیر کسی کسٹمز ڈیوٹی کے اپنی پٹ سن کلکتہ کی بندرگاہ سے برآمد کرتا تھا۔ یہ تعلقات مسئلہ کشمیر اور 1948ء کی جنگ کے باوجود قائم رہے‘ مگر 1965ء کی جنگ نے دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف تجارتی تعلقات منقطع کر دیے بلکہ لوگوں کے آنے جانے کا سلسلہ بھی بہت محدود ہو گیا کیونکہ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کو دشمن سمجھنا شروع کر دیا تھا۔دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کیلئے ''دشمن ملک‘‘ کا امیج ابھی تک قائم ہے۔ اگر اسے کبھی دور کرنے کی کوشش کی گئی تو دونوں طرف کی مہم جُو لابی نے اس کو سبوتاژ کر دیا ‘تاہم یہ خوش آئند ہے کہ اب سکھ یاتریوں کیساتھ ہندو یاتریوں کیلئے بھی لبرل ویزا پالیسی اختیار کرنے کی طرف ایک قدم اٹھایا گیا ہے۔ یہ قدم دونوں ملکوں کے قومی مفاد میں ہے کیونکہ اس سے دونوں طرف موجود بد اعتمادی ختم کرنے میں مدد ملے گی۔