موجودہ بین الاقوامی نظام تقریباً چار سو پرانا ہے۔ 1648ء میں ایک معاہدۂ امن کے ذریعے یورپی طاقتوں نے اس کی بنیاد رکھی تھی اور سیاست کو اس کی بنیادی اکائی قرار دیا تھا۔ آبادی‘ علاقہ‘ حکومت اور اقتدارِ اعلیٰ کو ریاست کے لازمی عناصر کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا۔ ان چاروں عناصر میں سے کسی کو بھی چیلنج کرنا ریاست کی بقا کو چیلنج کرنے کے مترادف قرار پایا۔ قوم پرستی کے جس ماحول میں ریاست کی یہ تعریف وضع کی گئی تھی اس میں علاقائی سالمیت اور اقتدارِ اعلیٰ کو خاص اہمیت حاصل تھی اور یہ کیفیت ابھی تک قائم ہے اور کوئی حکومت ریاست کی علاقائی سالمیت یا اقتدارِ اعلیٰ پر حملے کو برداشت نہیں کر سکتی کیونکہ جدید ریاست کے ڈھانچے میں علاقہ (Territory) اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جس کیلئے ریاست کا ہر فرد خون کا آخری قطرہ تک بہانے کا عزم رکھتا ہے۔ اس پیرائے میں دیکھا جائے تو پاکستان کی حدود میں ایران کی کارروائی ناقابلِ قبول تھی۔ ایران کی طرف سے پاکستان کی آزادی اور اقتدارِ اعلیٰ پر حملے کے بعد پاکستان کو جوابی کارروائی کرنا پڑی مگر عام تاثر اور متفقہ رائے یہی ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اس حد تک اضافہ نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ ایران پاکستان کا عام ہمسایہ ملک نہیں ہے۔ برصغیر کے تہذیبی ارتقا میں جتنا حصہ ایران کا ہے‘ قرب و جوار میں واقع کسی اور ملک کا نہیں۔ دوطرفہ بنیادوں پر تعلقات کی تاریخ پر اگر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ پاکستان کو درپیش ہر نازک موقع پر ایران پاکستان کی مدد کو پہنچا ہے۔ 1960ء کی دہائی کے آخری برسوں میں جب پا کستان نے چین کیساتھ دوستی کر کے اپنی خارجہ پالیسی میں آزاد روش کا مظاہرہ کیا اور اس کے جواب میں امریکہ نے پاکستان کی اقتصادی امداد میں کمی کر دی تو اس موقع پر ایران نے پاکستان کو خطیر مالی امداد فراہم کی۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی قوم کیلئے صرف سیاسی اور جذباتی لحاظ سے ایک عظیم سانحہ نہیں تھی بلکہ اس سے ملکی معیشت کو بھی ایک بڑا دھچکا لگا تھا۔ مشرقی پاکستان‘ مغربی پاکستان میں تیار ہونے والی مصنوعات کیلئے ایک محفوظ مارکیٹ تھا۔ اُس وقت پاکستان کے دیگر ملکوں سے قریبی تجارتی تعلقات نہ تھے۔ جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے ملکی معیشت متاثر ہوئی تواس موقع پر ایران نے پاکستانی مال کیلئے اپنی منڈی کھول دی تھی۔
پاکستان اور ایران کے درمیان تاریخی‘ مذہبی اور ثقافتی تعلقات کی گہرائی عیاں ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دونوں ملکوں نے اپنے ہاں حکومت یا علاقائی سطح پر حالات میں تبدیلی کو باہمی تعلقات پر اثر انداز نہیں ہونے دیا۔ شاہِ ایران پاکستان کے دوست اور خیر خواہ تھے لیکن 1979ء میں ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی پاک ایران تعلقات متاثر نہیں ہوئے۔ افغانستان کیساتھ دونوں کی سرحدیں ملحقہ ہونے کی وجہ سے پاکستان اور ایران 1980ء میں افغانستان پر سابقہ سوویت یونین کے فوجی قبضے سے متاثر ہوئے تھے۔ دونوں نے اس خطرے کا سامنا کرنے کیلئے ایک دوسرے سے مختلف حکمت عملی اپنائی مگر باہمی تعلقات کو متاثر نہ ہونے دیا۔ افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا پر جنیوا مذاکرات میں ایران شریک نہیں تھا لیکن اس کی طرف سے پاکستانی مؤقف کی بھرپور تائید کی گئی تھی۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان نے ایران کے خلاف کسی تحریک میں شامل ہونے سے ہمیشہ انکار کیا تھا۔ 2003ء میں جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا اس وقت کی امریکی حکومت ایران پر بھی حملہ کرنا چاہتی تھی لیکن اسے یہ ارادہ ترک کرنا پڑا کیونکہ اس کیلئے امریکی صدر بش نے پاکستان سے تعاون کی درخواست کی تھی جسے پاکستان کی طرف سے مسترد کر دیا گیا۔ دو ملکوں کے درمیان اگر اتنے قریبی اورطویل دوستانہ تعلقات ہوں تو ایک فریق کی طرف سے دوسرے کی علاقائی سالمیت اور اقتدارِ اعلیٰ کی خلاف ورزی ناقابلِ فہم ہے۔ ایران کی طرف سے پاکستانی علاقے میں فوجی کارروائی ابھی تک ایک معمہ ہے اور دنیا بھر میں اس کی مختلف وجوہات بیان کی جا رہی ہیں بلکہ اس پر حیرانگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ عالمی حلقوں میں اس کشیدگی پر تشویش کی لہر بھی دوڑ گئی تھی کیونکہ پاکستان اور ایران کے درمیان تصادم سے دنیا کے تین خطے جنوبی‘ مغربی اور وسطی ایشیا عدم استحکام کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان خطوں میں عالمی سطح پر اس وقت تمام ایکٹویٹرز ا مریکہ‘ چین‘ روس اور یورپی یونین کے مفادات متاثر ہو سکتے ہیں۔
غزہ پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں بحیرۂ احمر میں کشیدگی کی موجودگی میں پاکستان اور ایران کے درمیان تصادم ایک ایسے خطے کو عدم استحکام کا شکار کر سکتا ہے جہاں سے دنیا کی توانائی کی کل ضروریات کا 35فیصد سے زیادہ حصہ سپلائی کیا جاتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تصادم عالمی امن اور استحکام کیلئے کتنا تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف روس اور چین بلکہ یورپی یونین اور امریکہ کی طرف سے بھی کہا گیا کہ پاکستان اور ایران کشیدگی میں اضافے کا باعث بننے والے کسی بھی اقدام اجتناب کریں بلکہ باہمی اختلافات کو دور کرنے کیلئے سفارتی ذرائع استعمال کریں۔ اس قسم کے علاقائی اور عالمی ردِعمل نے دونوں اطراف کو مسئلے کی نزاکت کا احساس دلا دیا ہے جس کے نتیجے میں دونوں طرف سے لچک کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ جمعہ کے روز دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے مابین ٹیلی فونک رابطہ قائم ہونے کے بعد معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے اور سفارتی تعلقات بحال کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے خواہش ظاہر کی کہ ایران اور پاکستان کے تعلقات کو 16جنوری کے واقعہ سے پہلے کی سطح پر بحال ہونا چاہیے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ایران نے بھی اس قسم کے جذبات کا اظہار کیا۔ نگران وزیرخارجہ جلیل عباس جیلانی اور ان کے ایرانی ہم منصب حسین عامر عبداللہان کے درمیان ٹیلیفون پر جو گفتگو ہوئی وہ کافی خوشگوار ماحول میں ہوئی اور ایرانی وزیر خارجہ نے بھی مثبت انداز میں پاکستان کی خیرسگالی پر مبنی تجاویز کا جواب دیا۔ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ پاکستان نے ایرانی میزائل اور ڈرون حملے کا جو فوری جواب دیا تھا اس پر ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز ایک پیج پر ہیں۔ اگرچہ شروع میں اس صورتحال پر غور کرتے ہوئے ایک رائے یہ بھی تھی کہ فوری جواب دینے کے بجائے ایران کو اپنی کارروائی پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان سے معذرت کرنے کا موقع فراہم کیا جائے کیونکہ پاک ایران تعلقات کی پوری تاریخ اعتماد‘ بھروسے اور ایک دوسرے کیلئے ہمدردی سے بھری پڑی ہے اور دونوں نے انتہائی مشکل حالات میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ یہ امر بھی باعثِ اطمینان ہے کہ اس کشیدگی کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان تجارت جاری رہی حالانکہ 16جنوری کے واقعہ کے بعد پاکستان نے ایران سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا اور ایرانی سفیر‘جوکہ اُن دنوں ایران میں موجود تھے‘ انہیں وہیں رہنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔ اس کے علاوہ ایران کیساتھ رابطے میں تمام افراد اور وفود کو واپس بلا لیا گیا تھا ان میں پاکستان کے 34بزنس مینوں پر مشتمل ایک وفد بھی شامل تھا جو ایران کی بندرگاہ چاہ بہار میں ایرانی حکام کیساتھ مذاکرات میں مصروف تھا۔
بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اور ایران اس واقعہ کو پس پشت ڈال کر‘ تعلقات کو دوبارہ اُسی سطح پر لانے کی کوشش کریں گے کیونکہ دونوں کا مفاد اسی میں ہے‘مگر ایران کا پاکستان میں حملہ اتنا اچانک اور غیر متوقع تھا کہ اس سے بین الاقوامی حلقے بھی حیران اور ششدر رہ گئے۔ ان حلقوں کی رائے یہ ہے کہ بحیرۂ عرب اور خلیج فارس سے لے کر بحیرۂ احمر اور بحیرۂ روم تک مغربی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کا خطہ ایک ایسی غیر یقینی اور تشویشناک صورتحال سے گزر رہا ہے جسکے بارے میں پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے کہ آنیوالے دنوں میں یہ کیا رُخ اختیار کرے گی اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔