"DRA" (space) message & send to 7575

نئی حکومت: چیلنجز اور ترجیحات

وزیراعظم شہباز شریف کے حلف اٹھانے کے بعد اب وفاقی کابینہ میں حلف اٹھا چکی ہے۔ ابھی کابینہ میں 19 اراکین شامل کیے گئے ہیں‘ باقی کا اعلان جلد متوقع ہے لیکن اب تک جن وزرا اور وزرائے مملکت کے نام عہدوں کے ساتھ سامنے آئے ہیں ان سے وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کی سمت اور ترجیحات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہو گا کیونکہ کم از کم پانچ وزارتوں میں ایسے اراکین کو دوبارہ شامل کیا گیا ہے جن کے نہ صرف چہروں سے پاکستانی عوام گزشتہ ایک برس سے زیادہ عرصے سے واقف ہیں بلکہ اہم قومی مسائل پر ان کی سوچ اور خیالات سے بھی واقف ہیں۔ اہم وفاقی وزارتوں میں داخلہ‘ خارجہ‘ خزانہ اور اطلاعات شامل ہیں۔ ان وزارتوں کی سربراہی جن شخصیات کے سپرد کی گئی ہے ان میں سے ہر ایک کا انفرادی جائزہ لے کر نئی حکومت کی حکمت عملی اور مقاصد کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ وفاقی وزارتِ داخلہ کا قلمدان جناب محسن نقوی کے سپرد کیا گیا ہے جو اس سے قبل ایک سال سے زیادہ عرصہ تک پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں نے اس تقرری کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ محسن نقوی کی تقرری ان کی نگران وزیراعلیٰ کی حیثیت سے شاندار اور مؤثر کارکردگی کی بنا پر کی گئی ہے ۔ حالانکہ وہ اپنے دور میں نہ صرف تحریک انصاف بلکہ پیپلز پارٹی کی بھی تنقید کا نشانہ بنے رہے۔ پی ٹی آئی ان کی حکومت کو جانبدارانہ اور پی ٹی آئی مخالف قرار دیتی رہی۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کو بھی نگران وزیراعلیٰ سے یہ شکایات تھیں کہ وہ پنجاب میں (ن) لیگ کے مفادات کی نمائندگی کر رہے تھے۔ نظر یہی آتا ہے کہ نئے وفاقی وزیر داخلہ اپنی موجودہ پوزیشن میں وہی پالیسیاں اور حکمت عملی جاری رکھیں گے جو انہوں نے بحیثیت نگران وزیراعلیٰ‘ پنجاب میں اپنائی تھیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب ایک صوبے کے بجائے ان پالیسیوں اور حکمت عملیوں کا اطلاق پورے ملک پر ہو گا جس کے نتیجے میں حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے اور پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک شدت اختیار کر سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ 8 فروری کو منعقد ہونے والے قومی انتخابات میں اس کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ کامیابی کو شکست میں تبدیل کیا گیا اور اب اس کا سب سے اہم مطالبہ مبینہ طور پر چھینے گئے مینڈیٹ کی بحالی ہے۔ مگر اس کے لیے اس نے الیکشن ٹریبونل میں اپیلوں کا راستہ اپنانے کے بجائے سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے کے ذریعے حکومت پر دبائو ڈالنے کا طریقہ اختیار کر رکھا ہے۔ نئے وزیر داخلہ کے لیے یہ سب سے اہم چیلنج ہو گا۔
سب سے دلچسپ تقرری سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ہے۔ جناب اسحاق ڈار پیشے کے اعتبار سے چارٹرڈ اور مینجمنٹ اکائونٹنٹ ہیں اور اس حیثیت میں وہ اندرون اور بیرون ملک متعدد اداروں سے منسلک رہ چکے ہیں۔ 1980ء کی دہائی سے وہ سیاست میں فعال ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے ایک اہم رہنما ہونے کی حیثیت سے وہ کامرس‘ صنعتوں‘ سرمایہ کاری‘ فنانس اور ریونیو کے انچارج وزیر رہ چکے ہیں۔ خارجہ امور میں اگر ان کا کوئی تجربہ ہے تو وہ صرف بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے مذاکرات تک محدود ہے۔ ان کی سب سے بڑی کوالیفکیشن یہ ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے قریبی رشتہ دار اور بااعتماد ساتھی ہیں۔ چونکہ ان کا خارجہ امور میں کوئی زیادہ تجربہ نہیں اور نہ ہی ان کا کوئی ایسا پس منظر ہے اس لیے ان کی مدد کے لیے جلیل عباس جیلانی اور طارق فاطمی کو بالترتیب مشیر خارجہ اور معاونِ خصوصی مقرر کیا گیا ہے۔ جلیل عباس جیلانی قبل ازیں نگران حکومت میں وزیر خارجہ اور اس سے قبل سیکرٹری خارجہ اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔ اس لحاظ سے انہیں خارجہ امور کا وسیع تجربہ ہے۔ ان کے مقابلے میں طارق فاطمی 2016ء میں مبینہ طور پر ڈان لیکس میں ملوث سمجھے گئے تھے جس کے نتیجے میں نواز شریف اور مقتدرہ میں دوریاں پیدا ہوئیں اور نتیجتاً نواز شریف کو نہ صرف وزارتِ عظمیٰ سے الگ ہونا پڑا بلکہ سیاست میں عمر بھر کے لیے نااہل بھی قرار پائے۔ طارق فاطمی ایک کیریئر ڈپلومیٹ کی حیثیت سے ماسکو اور بیجنگ میں پاکستانی مشن میں خدمت خدمات سرانجام دینے کے علاوہ امریکہ اور یورپی یونین میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر ایک کتاب کے مصنف ہونے کے علاوہ طارق فاطمی قومی‘ علاقائی اور عالمی مسائل پر بھی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ حالاتِ حاضرہ پر ان کی گہری نظر اور تجزیے کے سبب نواز شریف نے انہیں 2013ء تا 2017ء کی حکومت کے دوران خارجہ امور پر مشیر مقرر کیا تھا۔ نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ پاکستان کے ارد گرد واقع ممالک کے باہمی تعلقات میں بنیادی تبدیلیوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس کے پیش نظر پاکستان کو ایک دور اندیشانہ سوچ اور جرأت مندانہ فیصلوں پر مبنی خارجہ پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اسحاق ڈار ان چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں گے‘ یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر وزارتِ خارجہ ان کے حوالے سے کرنے سے جو تاثر پیدا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ شہباز حکومت کی ترجیحات میں فی الحال خارجہ پالیسی خصوصاً مشرق اور مغرب میں دو بڑے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں کسی بڑے بریک تھرو کا منصوبہ شامل نہیں۔ اس کے بجائے سارا فوکس قومی معیشت میں استحکام لانے پر ہے۔ ماضی کے برعکس اس بار اسحاق ڈار کی جگہ ایک بینکر اورنگزیب خان کی بطور وفاقی وزیر خزانہ تقرری اس کا واضح ثبوت ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالنے سے قبل اورنگزیب خان ایک بڑے ملکی بینک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے عہدے پر فائز تھے۔ انہیں بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ ان کے اس تجربے‘ خصوصاً بینکنگ سیکٹر میں شاندار کارکردگی کے پیش نظر خزانے کے اہم محکمے کا چارج دیا گیا ہے۔ ان کی تقرری کو نہ صرف آئی ایم ایف بلکہ پاکستان کے صنعتی اور کاروباری حلقوں میں بھی پسند کیا گیا ہے۔ ان سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ معاشی مسائل کے حل کے لیے وہ نسخہ آزمائیں گے جس کو آئی ایم ایف اب تک تجویز کرتا رہا ہے اور جو پاکستان کے کارپوریٹ سیکٹر کے لیے مفید ثابت ہوا ہے۔ وزارت کا چارج سنبھالنے کے بعد میڈیا کے ساتھ پہلی گفتگو میں انہوں نے پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے مجوزہ حکمت عملی کے جن خدوخال کا ذکر کیا‘ ان کے مطابق وہ آئی ایم ایف کے ساتھ حجم میں پہلے سے بڑا اور طویل المیعاد معاہدہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے جب کسی مریض کا بخار کم طاقت کی اینٹی بائیوٹک سے نہ اترے تو اسے زیادہ طاقتور اینٹی بائیوٹک کھلانا ضروری ہو جاتا ہے۔ انہوں نے پاکستانی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانے کے لیے جن اقدامات کا ذکر کیا ان سے ہمارے غیر ملکی مالی ذرائع پر انحصار میں اضافہ ہو گا۔ اس کے اپنے سیاسی مضمرات ہیں اور یہ دیکھنا پڑے گا کہ کیا ہم معاشی استحکام کی خاطر قومی خود مختاری کا سودا تو نہیں کر رہے۔ معاشی ماہرین کی رائے میں پاکستانی معیشت کی حالت اتنی خراب ہو چکی ہے کہ اسے ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے اس کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں۔ معاشی بحالی کے پروگرام کا دوسرا نکتہ عوام پر ٹیکسوں کے بوجھ میں دھماکہ خیز اضافہ ہے جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا لیکن اس کے باوجود معلوم ہوتا ہے کہ حکومت معاشی پالیسیوں میں وہی راہ اپنائے گی جو اس سے قبل نگران حکومت نے اختیار کی تھی۔ اس لیے بعض حلقوں کی رائے میں جس طرح نگران سیٹ اپ تھا‘ وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ بھی ان کا نہیں بلکہ کسی اور کا انتخاب ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں