"DRA" (space) message & send to 7575

آئی ایم ایف کی مزید شرائط

جمعرات کے روز آئی ایم ایف کے وفد نے وزیر خزانہ‘ گورنر سٹیٹ بینک‘ چیئرمین ایف بی آر اور دیگر حکام سے ملاقات کی جس میں آئی ایم ایف کے قلیل مدتی قرض پروگرام کی تیسری اور آخری قسط کے سلسلے میں جائزہ مذاکرات ہوئے۔ وزارتِ خزانہ سے جاری اعلامیہ میں بتایا گیا کہ دوسرے جائزہ مذاکرات 18 مارچ تک جاری رہیں گے‘ جس کیلئے پاکستان نے تمام اہداف مکمل کر لیے ہیں۔ ان مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں پاکستان کو ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی قسط جاری کی جائے گی ۔ حکومت کیلئے ان جائزہ مذاکرات کی کامیابی بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اس قلیل مدتی پروگرام کے اختتام کے بعد وزیر خزانہ عالمی مالیاتی فنڈ سے ایک طویل مدتی اور بڑے اقتصادی بیل آؤٹ پیکیج کے حصول کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ دوسری جانب جمعہ کے روز وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے پریس کانفرنس میں یہ کہا کہ ملک دشمن جماعت عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ پروگرام کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے دفترکے سامنے احتجاج کیا گیا‘ احتجاج کرنے والے بتائیں کہ وہ خود کتنا ٹیکس دیتے ہیں؟ زیر اطلاعات کا اشارہ غالباًپی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کے آئی ایم ایف کو لکھے گئے خط کی جانب تھا۔
عام انتخابات کے انعقاد اور حکومت کے قیام کے بعد بانی پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے آئی ایم ایف کو خط لکھنے کی تصدیق کی تھی۔ اس وقت بھی ملک کے متعدد حلقوں کی طرف سے بانی پی ٹی آئی کے اس اقدام کو قومی مفاد کے خلاف گردان کر تنقید کا نشانہ بنایا گیا‘ بعد ازاں معتدل مزاج پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر علی ظفر نے تردید کی کہ اس طرح کا کوئی خط آئی ایم ایف کو نہیں بھیجا گیا بلکہ ان کے بیان سے یہ تاثر بھی ملتا تھا کہ پی ٹی آئی کے اعتدال پسند حلقے اس اقدام کے حق میں بھی نہیں ‘لیکن بدھ 28 فروری کو بیرسٹر گوہر‘ عمر ایوب اور دیگر پارٹی رہنماؤں نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں تصدیق کر دی کہ بانی پی ٹی آئی کی طرف سے آئی ایم ایف کو ایک خط بھیجا گیا ہے جس میں زور دیا گیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی استحکام کی خاطر فروری 2024ء کے انتخابات کا آڈٹ کرایا جائے۔ خط کے ڈرافٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین نے آئی ایم ایف کو مالیاتی ادارے کے ایک وفد کے ساتھ زمان پارک میں ہوئی ملاقات کے ایک مطالبے کی طرف توجہ دلائی کہ پی ڈی ایم کے ساتھ تین بلین ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج کی منظوری سے قبل آئندہ پارلیمانی انتخابات کے صاف اور شفاف ہونے کی ضمانت لی جائے۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا آئی ایم ایف نے اس مطالبے کو تسلیم کیا تھا یا نہیں؟ صاف ظاہر ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ اس قسم کے یقین دہانی نہیں کرا سکتا کیونکہ یہ اس کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے۔ اس کی تصدیق بعد ازاں بانی پی ٹی آئی کے خط موصول ہونے کے بعد آئی ایم ایف کے ردعمل سے بھی ہو گئی جس میں کہا گیا تھا کہ آئی ایم ایف اندرونی سیاسی معاملات پر تبصرہ نہیں کرتا۔ ترجمان آئی ایم ایف کی جانب سے جاری بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ قلیل مدتی قرض کا دوسرا جائزہ مکمل کرنے کیلئے پُرعزم ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کو دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ کی سرکردگی میں ایک خاص مقصد کیلئے قائم کیا گیا تھا۔ فوری طور پر اس کا مقصد جنگ سے تباہ حال مغربی یورپ کی معیشتوں کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانا تھا تاکہ معاشی مسائل سے پیدا ہونے والے سیاسی بحران سے فائدہ اٹھا کر روسی نواز کمیونسٹ پارٹیاں مغربی یورپی ممالک خصوصاً اٹلی اور فرانس میں اقتدار پر قبضہ نہ کر سکیں۔ طویل المیعاد مقاصد میں عالمی معاشی نظام پر امریکہ کی بالادستی قائم کرنا تھا تاکہ روس اور چین کی سرکردگی میں بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک کے آگے مؤثر بند باندھا جا سکے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے یورپ میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد تیسری دنیا میں بھی ان اداروں‘ جنہیں برٹین ووڈز سسٹم کہا جاتا ہے‘ کو انہی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ 1955ء میں مصر کے ساتھ معاہدہ کرنے کے باوجود ورلڈ بینک کا اسوان ڈیم کی تعمیر میں امداد فراہم کرنے سے انکار اور پاکستان سے پیکیج طے کرتے وقت سی پیک کی شرائط شیئر کرنے پر اصرار اس کی دو واضح مثالیں ہیں‘ ورنہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کو کسی ملک کے اندرونی سیاسی حالات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا‘ تاوقتیکہ کسی حکومت کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے۔ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ ان اداروں نے یورپ میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بدترین آمریتوں کو بھی معاشی مشکلات پر قابو پانے کیلئے فنی اور مالی امداد فراہم کی۔ پاکستان کے مارشل لاء حکمرانوں ایوب خان‘ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے ادوار میں لیے جانیوالے پروگرام منظور کرتے وقت آئی ایم ایف نے کبھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی‘ جمہوریت کے عدم وجود اور انتخابات کی شفافیت کا مسئلہ نہیں اٹھایا کیونکہ یہ اسکے مینڈیٹ میں شامل نہیں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ پی ٹی آئی کی قیادت بشمول پارٹی کے بانی کو اس کا علم نہ ہو۔ اسکے باوجود آئی ایم ایف کو ایک ایسے مسئلے پر‘ جو خالصتاً پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے‘ خط لکھنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ خان صاحب جو مرضی بیان دیں اور جو مرضی فیصلہ کریں‘ انہیں معلوم ہے کہ وہ اتنے پاپولر ہیں کہ عوام ان کی تائید کریں گے۔ پاکستان میں انتخابات کبھی بھی غیر متنازع نہیں رہے‘ 2013ء کے انتخابات کے بارے میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور یورپی یونین کے مبصرین کی یہ رائے تھی کہ 1988ء سے منعقد ہونے والے انتخابات میں یہ نسبتاً سب سے زیادہ صاف اور شفاف تھے لیکن ان انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونیوالی نواز شریف حکومت کے خلاف خان صاحب نے اسلام آباد میں 126 دن کا دھرنا دیا اور اس دھرنے میں نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے نہ صرف عوام کو گیس‘ بجلی اور پانی کے بل اور ٹیکس ادا کرنے سے منع کیا بلکہ سمندر پار محنت مزدوری کرنیوالے پاکستانیوں پر زور دیا کہ وہ اپنی کمائی بینکوں کے ذریعے بھیجنے کی بجائے ہنڈی سے بھیجیں۔
دوسری مثال پی ڈی ایم حکومت کے دوران آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی کے دوران پی ٹی آئی کے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی طرف سے پنجاب اور کے پی میں صوبائی وزرائے خزانہ کو خط کے ذریعے آئی ایم ایف کو مطلع کرنے پر اصرار تھا کہ وہ وفاق کی طرف سے کیے گئے وعدے کے برعکس صوبائی سرپلس وفاقی حکومت کو واپس نہیں کریں گے۔ اس کا واضح مقصد بھی آئی ایم ایف پیکیج کو سبوتاژ کرنا تھا لیکن بانی پی ٹی آئی کو اس پر بھی کوئی تاسف نہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ ہو یا پنجاب اور کے پی کی صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ‘ خان صاحب ہر موقع پر اپنی بات پر ڈٹے رہے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ عوام ان کے اتنے فین ہیں کہ وہ ان کے ہر اقدام اور فیصلے کا خیر مقدم کریں گے۔ آئی ایم ایف کو خط لکھنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ اپنے سیاسی مقصد کے حصول کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ مگر عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے حکومت کے ساتھ دوسرے جائزہ مذاکرات یہ ثابت کر رہے ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے نے بانی پی ٹی آئی کے خط کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کی جانب سے ''ڈو مور‘‘ کا مطالبہ حکومت کی مشکلات بڑھاتا نظر آ رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے کھاد کارخانوں کو رعایتی نرخ پر گیس کی فراہمی بند کرنے‘ ٹیکس چوری روکنے‘ رئیل اسٹیٹ سیکٹر‘ مینوفیکچرر شعبے اور ریٹیلرز پر مزید ٹیکس لگانے اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو دستاویزی بنا کر ٹیکس سسٹم میں لانے سمیت کئی نئے مطالبات کیے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے مطالبات کو کس طرح پورا کرتی ہے کہ عوام‘ جو پہلے ہی مہنگائی کے پہاڑ تلے دبے ہوئے ہیں‘ پر مزید بوجھ نہ پڑے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں