اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف‘ جس کا ایک ریویو مشن حالیہ دنوں پاکستانی حکام کے ساتھ گزشتہ پروگرام کی آخری قسط کی ادائیگی کے لیے مذاکرات میں مصروف ہے‘ نے 2009ء کے ساتویں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ میں مرکز اور صوبوں کے درمیان رقوم کی تقسیم کے فارمولے پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے تحت مرکز اور صوبوں میں جس نسبت سے یہ رقوم تقسیم کی جاتی ہیں‘ حکومتی ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کی رائے میں قومی معیشت کی بہتری کے لیے اس عدم توازن کو درست کرنا ضروری ہے‘ مگر وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ اس بنیاد پر مسترد کر دیا کہ اس فارمولے کو آئینی گارنٹی حاصل ہے‘ جسے آئینی ترمیم اور صوبوں کی مرضی کے بغیر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ‘ جس پر صدر آصف علی زرداری نے 2009ء میں دستخط کیے تھے‘ میں تبدیلی کے حق میں دلائل آئی ایم ایف کے مشن کی آمد سے بہت پہلے سے ملک میں پیش کیے جا رہے تھے بلکہ اس سے منسلک 18ویں آئینی ترمیم (2010ء) کو بھی رول بیک کرنے کے مطالبات کیے جا رہے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظام میں مرکزیت کے حامی کافی عرصے سے سرگرم ہیں کیونکہ 18ویں آئینی ترمیم نے نہ صرف پارلیمنٹ کے اختیارات کو صدر سے پارلیمنٹ کو منتقل کر کے 1973ء کے آئین کو اس کی اصلی حالت میں بحال کیا بلکہ صوبوں کے مالی انتظامی اور قانون سازی کے اختیارات کو بھی وسیع کیا۔
یہ حیران کن بات ہے کہ قائداعظم کی قیادت میں مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل علیحدہ ملک کے حصول کی خاطر جدوجہد کرنے والی آل انڈیا مسلم لیگ زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری کی چیمپئن ہونے کے باوجود اقتدار سنبھالنے کے بعد مضبوط مرکز کی حامی بن گئی۔ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دور میں نئے آئین کی تشکیل کے لیے قائم کردہ بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی آئینی سفارشات پر مشتمل پہلی رپورٹ کے خلاف مشرقی پاکستان میں احتجاجی ہڑتال اور ڈھاکہ میں آل پارٹیز کانفرنس کے کنونشن میں تین شعبوں؛ دفاع‘ خارجہ اور کرنسی کے علاوہ باقی تمام شعبوں کو صوبوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ اسی وجہ سے کیا گیا تھا۔ مشرقی پاکستان کے 1954ء کے صوبائی انتخابات میں متحدہ محاذ نے مسلم لیگ کو اسی نعرے کی بنیاد پر شکست دی تھی مگر مرکز میں بیٹھے حکمرانوں نے عوام کی اس آواز پر کان دھرنے کے بجائے منتخب صوبائی حکومت ہی کو برطرف کر دیا اور 1955ء میں آئین کے مسودے میں مغربی پاکستان میں صوبوں کو ختم کر کے ون یونٹ کے قیام کی سفارش کر دی‘ کیونکہ تب تک مرکزیت کی حامی سول ملٹری بیورو کریسی کی بالادستی قائم ہو چکی تھی۔
ایوب خان‘ جو فوج کے کمانڈر انچیف ہوتے ہوئے گورنر جنرل غلام محمد کے زمانے میں کابینہ کے رکن بھی تھے‘ اپنی خود نوشت ''فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ میں فخریہ تسلیم کرتے ہیں کہ ون یونٹ کی سکیم اُن کے دماغ کی اختراع تھی۔ بعد میں جب اس کے باوجود مرکزیت کی حامی قوتوں نے اپنے آپ کو غیر محفوظ پایا تو 1956ء کے آئین ہی کو منسوخ کر کے مرکزیت کی جڑیں مضبوط کر لیں۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان‘ جسٹس محمد منیر 1962ء کے آئین پر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایوب خان کے دورِ حکومت میں پاکستان ایک وفاقی کے بجائے وحدانی ریاست میں تبدیل ہو چکا تھا۔ ایوب خان کے بعد آنے والے آمروں نے اس رجحان کو جاری رکھ کر مرکزیت کو مزید تقویت دی۔ 1973ء کے آئین کے تحت صرف ذوالفقار علی بھٹو کے دور (1973ء تا 1977ء) میں صوبوں کو داخلی خود مختاری حاصل تھی۔ جنرل ضیاء الحق اور ان کے بعد جنرل پرویز مشرف نے بالترتیب آٹھویں (1985ء) اور 17ویں (2002ء) آئینی ترامیم متعارف کروا کر نہ صرف 1973ء کے آئین کو پارلیمانی سے صدارتی آئین میں تبدیل کر دیا بلکہ صوبائی خود مختاری کی حدود کو بھی تنگ کر دیا۔ آئین کے اصلی پارلیمانی اور وفاقی ڈھانچے میں اس غیر قانونی‘ یکطرفہ اور آمرانہ دخل اندازی کو ختم کرنے کے لیے تقریباً تمام سیاسی جماعتیں متفق تھیں مگر اس کا سہرا پیپلز پارٹی حکومت (2008ء تا 2013ء) خصوصاً صدر زرداری کے سر جاتا ہے‘ جو ملکی تاریخ کے وہ پہلے صدر ہیں جنہوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے اختیارات بلا تامل پارلیمنٹ کو واپس کر دیے‘ ورنہ اس ملک کے ایک سربراہ نے 1954ء میں آئین ساز اسمبلی کو‘ جو پارلیمنٹ کے طور پر بھی کام کر رہی تھی‘ محض اس لیے تحلیل کر دیا تھا کہ وہ دستور میں پارلیمانی نظام کے مطابق سربراہِ مملکت کے اختیارات کو محدود کرنے جا رہی تھی۔
نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت کے تاریخی تناظر میں بھی پارلیمانی جمہوریت اور صوبائی خود مختاری کے لیے جدوجہد کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ اس لیے اٹھارہویں آئینی ترمیم‘ جس میں آئین کا پارلیمانی ڈھانچہ بحال کیا گیا تھا‘ کے تحت صوبائی خود مختاری کی حدود کو بھی وسیع کرنا ناگزیر تھا‘ لیکن صوبائی خود مختاری مالی خود مختاری کے بغیر بے معنی ہے۔ پاکستان اس صورتحال سے گزر چکا ہے‘ جب مرکز اور صوبوں میں قانون سازی اور انتظامی اختیارات کی واضح تقسیم کے باوجود مالی اختیارات کے باب میں نہ صرف صوبوں کے اختیارات محدود تھے بلکہ وفاقی فنڈز میں ان کا حصہ صرف ایک تہائی تھا اور صوبے اپنے انتظامی اخراجات کیلئے 80 سے 90 فیصد حد تک وفاقی گرانٹ پر انحصار کرتے تھے۔ یہ حقیقت آن ریکارڈ ہے کہ ان گرانٹس کو قسطوں میں ادا کر کے اور اکثر اوقات ادائیگیوں میں تاخیر کر کے مرکز صوبوں کے اندرونی سیاسی معاملات میں مداخلت کے راستے تلاش کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ اس قسم کی صورتحال کے تدارک اورصوبوں کے وفاقی فنڈز کے حصے میں اضافے کیلئے جدوجہد کا آغاز ہوا اور یہ جدوجہد 2009ء میں ساتویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کی صورت میں منتج ہوئی لیکن یہ جدوجہد ہنوز جاری ہے؛ تاہم اب اس کی شکل بدل گئی ہے۔ اس ضمن میں جو کچھ کیا جا چکا ہے‘ اب مقصد اسے بچانا ہے۔ کچھ قوتیں اٹھارہویں آئینی ترمیم کو 1960ء کی دہائی کے شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیتی ہیں اور قومی مالیاتی ایوارڈ کو ملک کے معاشی مسائل کی جڑ قرار دے کر صوبوں کی مالیاتی خود مختاری کو محدود کرنا چاہتی ہیں لیکن جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ مالیاتی خود مختاری نہ صرف پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کا ایک لازمی حصہ ہے بلکہ ملک کا پارلیمانی نظام بھی اس سے منسلک ہے اس لیے قومی مالیاتی ایوارڈ میں تبدیلی سے صوبوں کے حصے میں کمی نہ صرف ملک کے وفاقی ڈھانچے کو کمزور کرے گی بلکہ پارلیمانی نظام کی جڑیں کھوکھلی کر کے ایک دفعہ پھر صدارتی نظام کی راہ ہموار کرے گی۔ صوبوں بالخصوص سندھ کی طرف سے قومی مالیاتی ایوارڈ میں تبدیلی اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوششوں کی شدید مخالفت کی یہی وجہ ہے۔ جن حلقوں کی طرف سے یہ کوششیں کی جا رہی ہیں انہیں ملک کی سیاسی تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کی ایک بڑی وجہ صوبائی خود مختاری کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکامی تھی۔ اب اس مسئلے پر یکطرفہ اقدامات کی حمایت کر کے ایک دفعہ پھر ویسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے اور ملکی سیاسی تاریخ کے تناظر میں جمہوریت کا مطلب وفاقی پارلیمانی جمہوریت ہے۔ اس کا فیصلہ قومی اتفاقِ رائے سے کیا گیا اس لیے وفاقی ڈھانچے سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا مقصد پارلیمانی جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کرنے اور ملکی بقا کو خطرے میں ڈالنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔