بھارت میں لوک سبھا(قومی اسمبلی) کے انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوتے ہی مودی سرکار نے اپوزیشن کے ایک اہم رہنما‘ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجری و ال کو کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ بھارتی تاریخ میں کسی وزیراعلیٰ کا بدعنوانی کے الزام میں گرفتار ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے‘ اس سے قبل جنوری میں جھاڑکھنڈ کے وزیراعلیٰ ہیمنت سورین انہی الزامات میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ جنوبی بھارت کی ریاست تامل ناڈو کی وزیراعلیٰ جے للیتا کو بھی کرپشن کے الزام میں دو دفعہ جیل جانا پڑا تھا‘ اور بہار کے وزیراعلیٰ لالو پرساد بھی ایک سکینڈل میں سات سال کی سزا کاٹ چکے ہیں‘ مگر کیجری وال کی گرفتاری کے بعد بھارت میں اپریل میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کی شفافیت اور غیرجانبداری پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ اروند کیجری وال پہلے وزیراعلیٰ ہیں جنہیں مرکزی حکومت کے اداروں‘ سی بی آئی اور ای ڈی نے عہدے پر موجود ہوتے ہوئے گرفتار کیا ہے۔ اس لیے اُن کی گرفتاری سے بھارت میں ایک آئینی بحران پیدا ہو گیا ہے کیونکہ ان کی پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ مسٹرکیجری وال ہی دہلی کے وزیراعلیٰ رہیں گے اور کیجری وال نے اعلان کیا ہے کہ وہ جیل سے اپنے فرائض سر انجام دیتے رہیں گے۔ انہوں نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا ہے اور نہ ہی انہیں عہدے سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اپریل تا جون2024 ء میں منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں نریندر مودی کی پارٹی بی جے پی کی کامیابی یقینی ہے مگر بھارت کے سیاسی حلقوں کی رائے میں اپوزیشن کے دیگر تمام اہم رہنماؤں مثلاً مغربی بنگال میں ممتا بینرجی‘ اُترپردیش میں اکھلیش یادو اور کانگرس کے راہول گاندھی کے مقابلے میں نریندر مودی اروند کیجری وال سے زیادہ خائف ہیں۔ اس کی وجہ عام آدمی پارٹی کی ایک رکنِ اسمبلی کے مطابق یہ ہے کہ اروند کیجری وال ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک نظریے کا نام ہے جسے ختم کرنا مودی کے بس کی بات نہیں ۔
کیجری وال نے2015ء میں دہلی کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات اس وقت جیتے تھے جب پورے بھارت بالخصوص ملک کی شمال مغربی ریاستوں پر مشتمل 'ہندی بیلٹ‘ میں مودی کی مقبولیت سب سے زیادہ تھی۔ اروند کیجری وال نے دہلی کی گورننس خصوصاً صحت‘ تعلیم‘ بجلی اور پانی کی فراہمی میں بہتری لا کر عوام میں جو مقبولیت حاصل کی ہے اس میں بتدریج اضافہ ہوا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ دہلی کے بعد پنجاب میں بھی اب ان کی عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے۔ اس وقت بھارت میں بی جے پی اور کانگرس کے بعد کیجری وال واحد رہنما ہیں جن کی پارٹی ایک سے زیادہ ریاستوں میں برسر اقتدار ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے مقابلے میں نوجوان ہیں۔ دہلی اور پنجاب سے باہر بھی اُن کے حامیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 2022ء میں گجرات‘ جو نریندر مودی کی ہوم سٹیٹ ہے‘ کے ریاستی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے پانچ نشستیں جیتی تھیں اور تقریباً13 فیصد ووٹ حاصل کرکے بی جے پی اور کانگریس کے بعد تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔
تجزیہ کاروں اور بھارتی انتخابی سیاست کے ماہرین کی رائے میں مستقبل میں اگر کوئی لیڈر مودی کے متبادل کے طور پر ابھر کر سامنے آ سکتا ہے تو یہ کانگرس کا راہول گاندھی نہیں بلکہ عام آدمی پارٹی کا اروند کیجری وال ہو سکتا ہے‘ کیونکہ تقریباً دو دہائیوں میں عام آدمی پارٹی کی قومی سطح پر مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کی مغربی گھاٹ پر واقع ریاست گوا کی اسمبلی میں بھی عام آدمی پارٹی کو ایک باقاعدہ پارٹی تسلیم کر لیا گیا ہے۔ بھارت میں نریندر مودی کے سیاسی غلبے کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد کانگرس کے ہاتھ میں ہے لیکن 2014ء سے کانگرس کا ووٹ بینک متواتر سکڑتا جا رہا ہے۔ 2019ء کے پارلیمانی انتخابات میں کانگرس لوک سبھا کی 545 میں سے صرف 52 نشستیں حاصل کر سکی تھی‘ جو لیڈر آف دی اپوزیشن بننے کے لیے کم از کم درکار تعداد سے بھی کم تھیں‘ مگر اس کے باوجود بھارت کی اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کے خلاف تشکیل پانے والے ہر اتحاد کی قیادت کانگرس کے حوالے کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوک سبھا کی نشستوں میں کمی کے باوجود کانگرس اپوزیشن جماعتوں میں واحد جماعت ہے جس کے نہ صرف بھارت کے کونے کونے میں ووٹرز موجود ہیں بلکہ بی جے پی کے بعد سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی بھی وہی ہے۔ 2019ء کے انتخابات میں کانگرس نے بی جے پی کے 37.7 فیصد کے مقابلے میں 19.67 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ باقی تمام اپوزیشن پارٹیوں میں سے ممتا بینر جی کی تری نمول کانگرس صرف 4.1 فیصد ووٹ حاصل کرکے چوتھے نمبر پر آئی تھی۔
بھارت کی انتخابی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کی رائے میں نریندر مودی اس وقت ناقابلِ شکست دکھائی دیتے ہیں۔ راہول گاندھی کی قیادت میں کانگرس نے ان کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی ہے لیکن راہول اپنے آپ کو مودی کا متبادل ثابت نہیں کر سکے۔ اس کی وجہ کانگرس کے بارے میں اپوزیشن کی بعض جماعتوں کے تحفظات ہیں مگر اروند کیجری وال کی عام آدمی پارٹی کو اپوزیشن کی تمام پارٹیوں کا اعتماد اور حمایت حاصل ہے۔ اس لیے کہا جا رہا ہے کہ مستقبل میں اگر کوئی مودی کا طلسم توڑ سکتا ہے تو وہ اروند کیجری وال ہی ہے۔ الیکشن شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی ان کی گرفتاری کی اصل وجہ بھی یہی معلوم ہوتی ہے۔ جن الزامات کے تحت کیجری وال کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں ضمانت کا حصول آسان نہیں۔ اپنے تازہ ترین فیصلے میں بھارتی سپریم کورٹ نے ان کو ضمانت پر رہا کرنے کے بجائے یکم اپریل تک ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے حالانکہ گزشتہ دو سال تک تفتیش کرنے کے باوجود انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا۔
مبصرین کی نظر میں وزیراعظم مودی انتخابی مہم کے اس اہم مرحلے پر عام آدمی پارٹی کے رہنما کو زیادہ سے زیادہ عرصے تک جیل میں رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپریل میں شروع ہونے والے انتخابات میں مودی سرکار کے خلاف اپوزیشن کی مہم کی قیادت نہ کر سکیں۔ اسی وجہ سے اپوزیشن کی تمام پارٹیوں نے کیجریوال کی گرفتاری کی مذمت کی ہے اور اسے مودی سرکار کی جانب سے اپنے ایک سیاسی مخالف کو انتخابی مہم سے باہر رکھنے کی ایک بھونڈی کوشش قرار دیا ہے۔ امریکہ کی طرف سے بھی کیجری وال کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے‘ جس میں کہا گیا ہے کہ انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد بھارت میں اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف اقدامات بھارت میں جمہوریت اور انتخابات میں شفافیت اور غیرجانبداری کے اصولوں کی نفی کرتے ہیں۔ بھارتی تجزیہ کاروں کی رائے میں مودی حکومت کے اس اقدام سے بھارت میں اپریل تا جون منعقد ہونے والے انتخابات کی شفافیت اور غیرجانبداری برُی طرح متاثر ہوئی ہے کیونکہ کیجری وال کے بغیر عام آدمی پارٹی انتخابات میں بی جے پی کے خلاف ایک مؤثر انتخابی مہم نہیں چلا سکے گی۔ اس سے پنجاب اور دہلی میں نہ صرف عام آدمی پارٹی کی لوک سبھا کی نشستوں کے لیے انتخابی مہم متاثر ہو گی بلکہ اپوزیشن کی 27 سیاسی پارٹیوں پر مشتمل سیاسی اتحاد کی انتخابی مہم کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگرچہ ان انتخابات میں نریندر مودی کی تیسری بار جیت یقینی قرار دی جا رہی ہے مگر مودی کیجری وال کو کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات میں گرفتار کرکے کل کی لڑائی آج لڑ رہے ہیں کیونکہ ان کو یقین ہے کہ کیجری وال مستقبل میں ان کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔