امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے غزہ میں جنگ بندی کیلئے حال ہی میں مشرقِ وسطیٰ کا دورہ کیا تھا۔ گزشتہ سال اکتوبر سے اب تک بلنکن کا یہ مشرقِ وسطیٰ کا نواں دورہ تھا‘ مگر انہیں پہلے کی طرح اس دفعہ بھی خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ حالانکہ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو صدر جوبائیڈن کی 31 مئی والی تجویز میں چند ایک رکاوٹوں کو دور کر کے‘ جنگ بندی پر آمادہ ہو چکے ہیں‘ مگر جنگ بندی کیلئے قاہرہ میں مصر‘ قطر‘ امریکہ‘ اسرائیل اور حماس جیسے فریقوں کے جن مذاکرات کا اعلان کیا گیا تھا‘ ان کی جانب کوئی پیش قدمی نہیں ہو سکی۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے اس کی ذمہ داری حماس پر ڈالی ہے حالانکہ حماس نے غزہ میں امن کے قیام کیلئے نمایاں لچک دکھائی ہے۔ حماس کا پہلے یہ مطالبہ تھا کہ قید میں موجود اسرائیلیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیل مکمل اور مستقل جنگ بندی کے علاوہ غزہ سے اپنی افواج کا انخلا کرے‘ مگر دو جولائی کے مذاکرات میں حماس نے غزہ میں مرحلہ وار جنگ بندی اور فوجی انخلا پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔
انٹونی بلنکن کے حالیہ دورے کی ناکامی کی وجہ مذاکرات میں حماس کا شرکت سے انکار نہیں بلکہ اسرائیل کی طرف سے امریکی تجویز میں نئی شرائط کی شمولیت پر اصرار ہے۔ ان شرائط میں غزہ اور مصرکی سرحد پر واقع دو کوریڈورز پر اسرائیلی فوج کا کنٹرول‘ سکیورٹی کے لیے فوجی کارروائی کا حق اور جنوب کی طرف دھکیلے گئے لاکھوں فلسطینیوں کی شمالی غزہ میں اپنے گھروں کو واپسی کے دوران چیکنگ کا اختیار شامل ہے۔ نیتن یاہو کی ان شرائط کا مقصد دراصل اس کی طرف سے اعلان کردہ تین مقاصد کے حصول کی کوشش ہے۔ ان مقاصد میں تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی‘ حماس کا خاتمہ اور غزہ کی سرزمین کو اسرائیل کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کیلئے اس پٹی پر اسرائیل کا فوجی کنٹرول شامل ہے۔ جہاں تک اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ دس ماہ کے دوران تباہ کن زمینی‘ ہوائی اور بحری حملوں کے باوجود اسرائیل صرف سات یرغمالیوں کو رہا کروا سکا ہے۔ 251میں سے آدھے کے قریب جن یرغمالیوں نے رہائی پائی ہے وہ گزشتہ سال نومبر میں عارضی جنگ بندی کے دوران ممکن ہوئی تھی اور ان کے بدلے ڈھائی سو کے قریب فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے رہا کیا گیا تھا۔
اس وقت حماس کے پاس 110کے قریب اسرائیلی قیدی ہیں۔ ان میں سے کتنے بیمار اور زخمی ہیں یا کتنے ہلاک ہو چکے ہیں‘ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مگر ایک بات یقینی ہے کہ اگر غزہ میں اسرائیل کی بربریت ختم نہ ہوئی تو ان یرغمالیوں کا زندہ بچنا مزید مشکل ہو جائے گا کیونکہ گزشتہ دس ماہ کے دوران یرغمالیوں کو اسرائیلی چھاپہ مار دستوں کی مدد سے رہا کرانے کی متعدد کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ اگر جنگ بندی کی کوششیں ناکام رہتی ہیں تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ان یرغمالیوں کی بیشتر تعداد اسرائیلی حملوں ہی سے ہلاک ہو جائے گی۔ اسی طرح حماس کو ختم کرنے کا نیتن یاہو کا خواب بھی کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ جب سے اسرائیل نے غزہ پر حملوں کا آغاز کیا ہے‘ 40 ہزارسے زائد فلسطینیوں کی شہادت‘ 80 فیصد سے زائد رہائشی عمارتوں کی تباہی‘ بھوک‘ بیماری اور بے سرو سامانی کے باوجود غزہ کے شہریوں میں حماس کی مقبولیت کم ہونے کے بجائے بڑھی ہے۔ شمالی غزہ‘ جہاں سے اسرائیلیوں نے فلسطینی باشندوں کو جنوب میں دھکیل دیا ہے‘ اب بھی اسرائیلی فوجیوں کے لیے محفوظ نہیں ہے اور جب بھی موقع ملتا ہے‘ حماس کا عسکری ونگ ''القسام‘‘ وہاں حملہ آور ہو جاتا ہے۔ اسی لیے بیرونی حلقوں میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ غزہ میں تباہی مچا کر اسرائیل حماس کو ختم نہیں کر سکتا۔خود اسرائیلی وزیر دفاع کا بیان ہے کہ حماس کو ختم کرنا ناممکن ہے۔
جہاں تک غزہ میں اسرائیلی فوجی دستوں کی تعیناتی کا سوال ہے‘ تو اس سلسلے میں اسرائیل کو غزہ میں خود اپنے ماضی کے تجربے سے سبق سیکھنا چاہیے۔ 1967ء سے پہلے غزہ کی پٹی مصر کا حصہ تھی۔ جنگ کے دوران اسرائیل نے اس پر قبضہ کر لیا اور یہاں یہودی آباد کاروں کیلئے بستیاں تعمیر کرنا شروع کر دیں۔ لیکن فلسطینیوں نے تحریکِ مزاحمت شروع کر دی اور 2005ء میں اسرائیل کو غزہ سے پسپا ہونا پڑا‘ مگر اب اسرائیل دوبارہ اس پر فوجی قبضے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسرائیل کی اس کوشش کی پوری دنیا مخالفت کر رہی ہے۔ خود امریکہ بھی غزہ میں اسرائیل کے ہر قسم کے قبضے کے خلاف ہے مگر اسرائیلی وزیراعظم حکومت میں شامل انتہا پسند یہودیوں کے دباؤ میں ہیں‘ اس لیے وہ غزہ میں مستقل جنگ بندی نہیں چاہتے اور غزہ پر اپنا دباؤ جاری رکھنے کیلئے وہاں فوج کی موجودگی چاہتے ہیں۔
مبصرین کی رائے میں اسرائیل پہلی اسرائیل عرب جنگ (1948ء) کی تاریخ دہرانا چاہتا ہے۔ اس جنگ میں یہودیوں نے اسرائیل میں شامل فلسطینی علاقوں میں آباد تقریباً 8 لاکھ عرب باشندوں کو اپنے گھر بار اور جائیدادیں چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ان فلسطینی باشندوں نے صہیونیوں کے حملوں سے بچنے کیلئے ہمسایہ عرب ممالک شام‘ لبنان‘ اردن اور مصر میں پناہ لی تھی اور اب تک کیمپوں میں پناہ لیے بیٹھے ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے ان کے اپنے گھروں اور وطن کی طرف واپسی کا حق تسلیم کیا جا چکا ہے مگر اسرائیل اسے تسلیم نہیں کرتا کیونکہ وہ فلسطین میں ایک ایسی ریاست کا قیام چاہتا ہے جس کے شہری صرف یہودی ہوں۔ 1967ء کی جنگ میں بھی اسرائیل نے دریائے اردن کے مغربی کنارے اور بیت المقدس کے اردگرد کے علاقوں میں آباد فلسطینیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے اور پہلے کی طرح ہمسایہ عرب ممالک کی طرف بھاگنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی تھی‘ مگر اس دفعہ مقبوضہ علاقوں کے فلسطینی باشندوں نے اسرائیلی دھمکیوں کے باوجود اپنے گھر بار کو چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ تاہم اسرائیل نئی یہودی بستیاں بسانے اور دیگر طریقوں سے ہراساں کرنے کی کوششوں سے مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں پر ان کے وطن کی زمین تنگ کرنے کے درپے ہے۔
غزہ کے باشندوں کو بھی ڈر ہے کہ 1948ء کی طرح اس دفعہ بھی اسرائیل فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرکے اور نئی یہودی بستیاں تعمیر کرکے اسے اسرائیل کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ غزہ کی موجودہ 20 لاکھ سے زیادہ آبادی کا 70 فیصد حصہ اُن فلسطینیوں کی اولاد ہے جنہوں نے 1948ء میں فلسطینی علاقوں سے بھاگ کر غزہ میں پناہ حاصل کی تھی۔ اس وقت غزہ مصر کا حصہ تھا مگر 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے اس پر قبضہ کر لیا۔ 1993ء میں اوسلو معاہدے کے تحت جب فلسطینی اتھارٹی قائم کی گئی تو مغربی کنارے کے ساتھ غزہ کو بھی اس میں شامل کر دیا گیا‘ تاہم اسرائیل نے غزہ پر اپنا قبضہ 2005ء میں ختم کیا تھا۔
نیتن یاہو اور اس کے انتہا پسند ساتھیوں کا موقف ہے کہ 2005ء میں غزہ کو خالی کرنا ایک غلطی تھی۔ اس غلطی کا انہیں سات اکتوبر 2023ء کو حماس کے اچانک حملے کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑا۔ دوبارہ ایسا حملہ روکنے کیلئے وہ غزہ میں رہنے والے فلسطینی باشندوں پر زمین تنگ کرنے کیلئے مستقل فوجی قبضہ جمانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر اسرائیل کی ان کوششوں کے خلاف نہ صرف حماس کی طرف سے سخت مزاحمت کی جائے گی بلکہ مصر اور قطر بھی‘ جو اَب تک حماس پر نرم رویہ اختیار کرنے کیلئے دباؤ ڈالتے آئے ہیں‘ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور غیر لچکدار رویے کے باعث اپنا مؤقف تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس لیے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا حصول روز بروز مشکل اور پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے اور اس کی سب سے اہم وجہ اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی کیلئے نت نئی شرائط پیش کرنا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل غزہ میں جنگ بندی نہیں چاہتا۔