گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات میں سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے حصے بخرے ہونے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع ہونے والی دنیا کی دو بڑی (سپر) طاقتوں (ریاستہائے متحدہ امریکہ اور سوویت یونین) کے درمیان نظریاتی‘ سیاسی‘ معاشی اور عسکری محاذ آرائی کی کیفیت نے دنیا کے ممالک کودو بلاکس میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ان بلاکس میں شامل ممالک کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات اُن کے اپنے قومی مفادات سے زیادہ ان دو سپر طاقتوں کے عالمی سٹرٹیجک مفادات کے تابع ہوتے تھے‘ مگر 1989ء میں دیوارِ برلن کے مسمار ہونے سے وسطی اور مشرقی یورپ میں واقعات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک میں بغاوتیں شروع ہوگئیں اور نیٹو کے مقابلے میں کھڑا کیے جانے والا ''وارسا پیکٹ‘‘ دھڑام سے نیچے آ گرا۔ پہلے بحیرہ بالٹک کے اردگرد واقع تین ریاستیں اور پھر وسطیٰ ایشیا میں یوکرین سمیت چھ دیگر ریاستیں علیحدہ ہوئیں اور لینن اور سٹالن کے سوویت یونین کا ڈھانچہ بکھر گیا۔ان واقعات کے نتیجے میں امریکہ واحد سپر طاقت بن کر ابھرا مگر سب سے زیادہ نمایاں تبدیلی یہ تھی کہ سرد جنگ کے آہنی شکنجے میں جکڑے ہوئے ممالک کو آزادی کے ساتھ اپنے خارجہ تعلقات کو دنیا کی دو بڑی طاقتوں میں سے کسی ایک کے مفادات کے تابع رہ کر طے کرنے کے بجائے اپنے قومی مفادات کے مطابق قائم کرنے کا موقع ملا۔ ان معرکہ آرا تبدیلیوں سے دنیا کے تمام ممالک کی خارجہ پالیسی متاثر ہوئی مگر چند ممالک پر اس کا اثر بہت نمایاں رہا۔ ان میں جمہوریہ ترکیہ بھی شامل ہے۔ یورپ سے باہر ہونے کے باوجود امریکہ نے سابق سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ میں ترکی کو شمالی اوقیانوس کے اردگرد واقع یورپی ممالک‘ امریکہ اور کینیڈا پر مشتمل دفاعی معاہدے کا محض اس لیے رکن بنایا تھا کہ بحیرۂ اسود (بلیک سی) کو مشرقی بحر روم سے ملانے والی تنگ آبی شاہراہ ''آبنائے باسفورس‘‘ پر اسے کنٹرول حاصل تھا۔ امریکہ کے ساتھ اتحاد کے عوض ترکی کو واشنگٹن کی جانب سے خطیر امداد ملنے لگی مگر مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک خصوصاً مصر کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ خاص طور پر جب ترکی نے 1955ء میں عراق‘ ایران‘ پاکستان‘ برطانیہ اور فرانس پر مشتمل بغدادپیکٹ‘ جس کو 1958ء میں عراق کی علیحدگی کے بعد سینٹو (Cento) کانام دیا گیا‘ میں شمولیت اختیار کی اور اس سے اگلے سال اکتوبر‘ نومبر میں نہر سویز کے بحران پہ مصر پر اسرائیل‘ برطانیہ اور فرانس کے حملے کی حمایت کی تو نہ صرف مصر کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ ہو گئے بلکہ پوری عرب دنیا جو اُس وقت عرب قوم پرستی کی لہر کی گرفت میں تھی‘ کی رائے عامہ ترکی کے خلاف ہو گئی۔ حالانکہ ترکی نہ صرف مسلم ملک تھا بلکہ مشرق وسطیٰ کے ساتھ اس کے قدیم تاریخی‘ ثقافتی اور تجارتی تعلقات قائم تھے اورمشرق وسطیٰ کا بیشتر حصہ جس میں شام‘ لبنان‘ فلسطین اور جزیرہ نما عرب کے علاوہ عراق اور مصر بھی شامل تھا‘ پہلی عالمی جنگ (1914-1918ء) تک سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔ گو کہ اس جنگ میں اس نے اتحادیوں (برطانیہ اور فرانس) کے ہاتھوں شکست کھائی‘ جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کے تمام علاقے ترکی کے ہاتھ سے نکل گئے اور لیگ آف نیشنز کے مینڈیٹ سسٹم کے تحت مصر‘ فلسطین‘ اُردن اور عراق پر برطانیہ اور شام اور لبنان پر فرانس کا تسلط قائم ہو گیا۔ لیگ آف نیشنز کے مینڈیٹ کے اختتام پر اگرچہ ان ملکوں کو آزادی حاصل ہو گئی مگر مشرقِ وسطیٰ کے جغرافیائی محل وقوع‘ خاص طور پر تیل کی دریافت کے پیش نظر پہلی عالمی جنگ کے بعد مشرق وسطیٰ کی تاریخ کا وہ دور شروع ہوتا ہے جس کے تحت یہ خطہ مغرب (یورپ اور شمالی امریکہ) کی عالمی حکمت عملی کا اب تک ایک نہایت اہم حصہ چلا آ رہا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان شروع ہونے والی سرد جنگ کے خاتمے تک ترکی بھی اس حکمت عملی کا ایک حصہ تھا مگر اب اس خطے کا سٹرٹیجک نقشہ تبدیل ہو رہا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ ترکی اور مصر کے تعلقات میں بہتری ہے۔ صرف ایک دہائی قبل دونوں ملکوں کے تعلقات شدید کشیدگی کا شکار تھے۔ اس کی وجہ 2013ء میں عبدالفتاح السیسی کی طرف سے مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے اور انہیں قید کرنے کا اقدام تھا۔ عبدالفتاح السیسی‘ جسے مصر کے سابق صدر حسنی مبارک نے مسلح افواج کا سربراہ مقرر کیا تھا‘ کے اس اقدام پر ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اتنے خفا ہوئے کہ انہوں نے صدر سیسی کو ''قاتل‘‘ قرار دے کر اعلان کیا کہ وہ انہیں کبھی بھی مصر کا جائز و قانونی سربراہ تسلیم نہیں کریں گے‘ لیکن مشرق وسطیٰ کے تیزی سے بدلتے حالات اور خود ترکی کو درپیش معاشی مسائل نے دونوں ملکوں کو اپنے تعلقات میں بہتری اور بہت سے شعبوں میں تعاون پر مجبور کر دیا ہے۔ اس عمل کا آغاز رواں سال فروری میں ہوا جب 12سال کے طویل وقفے کے بعد ترکی کے صدر طیب اردوان نے مصر کا دورہ کیا اور صدر سیسی کے ساتھ ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں دونوں ملکوں نے دوطرفہ تجارت میں دوگنا اضافہ کرنے کے علاوہ متعدد شعبوں ‘جن میں دفاع‘ توانائی‘ تعلیم‘ سیاحت اور ایٹمی توانائی بھی شامل ہے‘ میں قریبی تعاون کے عزم کا اظہار کیا۔ صدر اردوان کے فروری کے دورے کے جواب میں چار ستمبر کو صدر سیسی کے دورۂ ترکیہ نے دونوں ملکوں کے معاشی ترقی اور تجارت کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کی مزید راہیں کھول دی ہیں۔ اس دورہ کے دوران ترکیہ اور مصر نے 18ایم او یوز (MOUs) پر دستخط کیے۔ صدر سیسی کے دورۂ ترکیہ اور اس سے قبل صدر اردوان کے دورۂ مصر کے موقع پر دونوں ملکوں میں جن شعبوں میں تعاون بڑھانے پر ا تفاق ہوا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کا فوکس معیشت اور اس سے متعلقہ شعبے ہیں۔ مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خطے کی تیزی سے بدلتی جیو پولیٹکل صورتحال نے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے پر مجبور کیا ہے۔
ترکیہ اور مصر کے درمیان کئی برسوں سے چلی آ رہی ناچاقی نے اسرائیل کو گزشتہ ایک برس کے دوران غزہ کے فلسطینی باشندوں کو بربریت اور وحشیانہ حملوں کا بلا روک ٹوک نشانہ بنانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ مصر نہ صرف آبادی بلکہ عسکری لحاظ سے بھی مشرق وسطیٰ کا ایک طاقتور ملک رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں مصر کے بغیر جنگ اور شام کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ مگر عرب اسرائیل چوتھی جنگ (1973ء) کے بعد کیمپ ڈیوڈ معاہدات کے بعد اسرائیل اور مصر کے درمیان معاہدہ امن سے مؤخر الذکر کردار کو بہت حد تک غیر مؤثر کر دیا ہے۔ تاہم غزہ میں اسرائیل کے نان سٹاپ حملوں اور فلسطینی باشندوں کے قتل عام پر صدر سیسی کی حکومت خاموش نہیں رہ سکتی۔ عرب ممالک خصوصاً مصر کی طرف سے اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام پر خاموشی عرب عوام‘ جن میں مصری بھی شامل ہیں‘ میں بے چینی پیدا کر رہی ہے۔ صدر سیسی اس بات سے بے خبر نہیں کہ پہلی عرب اسرائیل جنگ (1948-1949ء)عرب حکومتوں کی ناکامی‘ عرب قوم پرستی کے فروغ اور اس کے نتیجے میں مصر اور عراق کی مغرب نواز شاہی حکومتوں کے خلاف فوجی بغاوتوں کا باعث بنی تھی۔ مصر کے ساتھ تعلقات کو ازسر نو بحال کرنے اور مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کی طرف صدر اردوان اس لیے بھی توجہ دے رہے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں ترکیہ نے عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ بھی تعلقات کو بہتر کیا ہے اور اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے ان ملکوں کے ساتھ تجارتی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا ہے۔ مصر کے ساتھ تعلقات کی بحالی صدر اردوان کی اسی نئی مڈل ایسٹ پالیسی کا حصہ ہے۔