"DRA" (space) message & send to 7575

ٹرمپ کی دوسری مدت دنیا کیلئے کیسی رہے گی؟ … (1)

20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 47ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے۔ امریکی صدر کو دنیا کا سب سے طاقتور شخص مانا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکہ دنیا کا امیر ترین اور عسکری لحاظ سے سب سے طاقتور ملک ہے۔ اس کی کرنسی دنیا کی سب سے طاقتور کرنسی ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں مثلاً ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے فیصلہ سازی کے عمل میں اس کو سب سے زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔ دنیا کے ہر حصے میں اس کے مفادات ہیں جن کے تحفظ کیلئے تقریباً تمام اہم جگہوں پر اسکے فوجی اڈے قائم ہیں۔ سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہونے کی وجہ سے اقوام متحدہ میں کسی اہم عالمی مسئلے پر اس کی مرضی کے خلاف فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ اہم جغرافیائی محل وقوع‘ وسیع رقبہ‘ تیل‘ گیس اور معدنیات کے وسیع ذخائر اور محنتی‘ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد پر مشتمل معاشرہ ہونے کی وجہ سے امریکہ نے بڑی سرعت سے پہلے ایک علاقائی طاقت اور بعد ازاں ایک سپر پاور کا مقام حاصل کیا۔ 1991ء میں سوویت یونین‘ جو اپنی عسکری قوت اور نظریاتی اساس کی بنیاد پر امریکہ کی ٹکر کا ملک تھا‘ کی تحلیل کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا۔
امریکہ کا سیاسی نظام امریکی صدر کو بہت زیادہ بااختیار بناتا ہے۔ امریکہ میں صدارتی نظام رائج ہے جس کے تحت ریاست کے اختیارات تین اداروں انتظامیہ‘ عدلیہ اور مقننہ (کانگرس) میں تقسیم ہیں مگر اس میں صدر کی حیثیت سب سے نمایاں ہے کیونکہ وہ حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ دیگر ملکوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اور سمت طے کرنا‘ یعنی خارجہ پالیسی مکمل طور پر اس کے ہاتھ میں ہے۔ امریکی سیاسی نظام میں توازنِ طاقت برقرار رکھنے کیلئے کانگرس اور سپریم کورٹ کو بااختیار بنایا گیا ہے اور ان اختیارات کو واضح طورپر آئین میں درج کیا گیا ہے‘ جس کی روشنی میں امریکی سپریم کورٹ صدر کی طرف سے اپنی آئینی حدود سے متجاوز اقدام کو کالعدم قرار دے سکتی ہے لیکن دوسری دفعہ منتخب ہو کر صدارتی عہدہ سنبھالنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کو اس سخت چیک اینڈ بیلنس سسٹم کے باوجود ایک منفرد پوزیشن حاصل ہے کیونکہ اس وقت کانگرس کے دونوں ایوانوں‘ ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کو اکثریت حاصل ہے جبکہ امریکی سپریم کورٹ میں بھی اکثریت اُن قدامت پرست ججوں کی ہے جنہوں ٹرمپ نے اپنے گزشتہ دورِ حکومت میں تعینات کیا تھا۔ اس تناظر میں ٹرمپ کو اپنے نئے دورِ حکومت میں کسی بڑی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس لیے جو لوگ امریکی سیاسی نظام کو آمریت اور وَن مین شو کا نام دیتے ہیں‘ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں اُن کا یہ خیال سچ ثابت ہوتا نظر آ رہا ہے۔
ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد ہوم فرنٹ پر سب سے زیادہ تشویش تارکینِ وطن کو امریکہ سے بے دخل کرنے کی پالیسی پر عملدرآمد سے پیدا ہو رہی ہے۔ تارکین وطن کو امریکہ کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے انہیں امریکہ سے نکالنے کا نعرہ ٹرمپ کی 2024ء کے صدارتی انتخاب کی مہم کا بنیادی نعرہ تھا۔ تب بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ٹرمپ تارکین وطن کا ایشو صرف انتخاب جیتنے کیلئے اُٹھا رہے ہیں اور انتخاب جیتنے کے بعد وہ اسے بھول جائیں گے یا بے دخلی کو صرف غیرقانونی یا جرائم میں ملوث پائے جانے والے تارکین وطن تک محدود رکھیں گے کیونکہ امریکہ میں غیرقانونی تارکین وطن کی تعداد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔ اتنی بڑی تعداد کو بے دخل کرنا ٹرمپ کیلئے مشکل ہوگا اور امریکہ میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اس کی سخت مخالفت کی جائے گی مگر چند روز قبل ہی ایک انٹرویو میں ٹرمپ نے برملا اعلان کیا کہ تارکین وطن کو بے دخل کرنے کے ان کے وعدے کو محض انتخابی نعرہ نہ سمجھا جائے بلکہ وہ اس پروگرام پر سنجیدگی سے عمل کریں گے کیونکہ ان کے نزدیک امریکہ میں تارکین وطن کی اتنی بڑی تعداد امریکیوں کے معیارِ زندگی کو متاثر کر رہی ہے۔ بے دخلی کا یہ عمل صرف غیرقانونی تارکین وطن تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا دائرہ برسوں اور دہائیوں سے امریکہ میں رہنے والے تارکین وطن تک پھیلایا جائے گا۔ اس کیلئے امریکہ میں رائج امیگریشن سسٹم کو تبدیل کرکے غیر ملکی باشندوں کو حاصل رعایتوں کو کم کیا جائے گا۔ٹرمپ نے البتہ یہ واضح کر دیا ہے کہ بے دخلی کی ابتدا اُن تارکین وطن سے ہو گی جو جرائم میں ملوث رہے ہیں‘ بعد ازاں دیگر تارکین وطن کی باری آئے گی۔ ٹرمپ کے اس بیان کے نتیجے میں سالہا سال سے امریکہ میں رہائش پذیر تارکین وطن خوف میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ کے تارکینِ وطن کے خلاف اس اقدام سے دنیا کے دیگر ممالک کی طرف سے بھی مہاجرین اور تارکین وطن کے خلاف اس قسم کی کارروائیوں میں اضافے کا خطرہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکہ میں ٹرمپ کے برسراقتدار آنے سے دنیا میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ اقلیتوں سے امتیازی سلوک‘ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی (ملٹی لیٹرل ازم) کو ترک کرنے میں جو کسر پہلی مدت میں رہ گئی تھی‘ ٹرمپ اپنی دوسری مدت میں پوری کریں گے۔ اس سے بعض ممالک (بالخصوص یورپ) میں نسل پرستی کی حامی اور تارکین وطن کی مخالف سیاسی پارٹیوں کو تقویت ملے گی۔
تارکین وطن کی بے دخلی امریکہ کا داخلی مسئلہ ہے مگر امریکہ کو ایک دفعہ پھر عظیم بنانے کیلئے ٹرمپ نے بین الاقوامی تجارت‘ امریکہ میں غیرملکی مصنوعات پر ٹارگٹڈ اور یونیورسل ٹیرف میں اضافہ کرنے اور اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے کے بجائے دنیا کو درپیش اہم مسائل مثلاً موسمی تغیرات‘ توانائی کی سپلائی پر جن اقدامات کا اعلان کیا ہے‘ ان سے دنیا بھر میں ایک خلفشار پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ اس سے زیادہ باعثِ حیرت ٹرمپ کے بیانات کینیڈا‘ پاناما اور گرین لینڈ کے بارے میں ہیں۔ کینیڈا کے بارے میں انہوں نے یہ کہہ کر کہ امریکہ کینیڈین معیشت کو ہمیشہ سبسڈیز کا سہارا دے نہیں دے سکتا‘ اسے امریکہ کی 51ویں ریاست بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔ پاناما پر بزورِ طاقت قبضہ کرنے کی دھمکی دے کر ٹرمپ نے 1956ء میں برطانیہ اور فرانس کی طرف سے نہر سویز پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کی یاد تازہ کر دی ہے جسے مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے جولائی 1956ء میں قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کیا تھا۔ گرین لینڈ کو خرید کر امریکہ کا حصہ بنانے کا اعلان کرکے ٹرمپ نے نہ صرف روس اور چین کو چوکنا کر دیا ہے بلکہ ڈنمارک کی طرف سے بھی اس کی سخت مذمت کی گئی ہے۔
اپنی پہلی مدت کے دوران ٹرمپ نے نیٹو کے یورپی ارکان پر دفاعی معاہدے کے اخراجات میں حصہ بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا۔ خدشہ ہے کہ دوسری مدت کے دوران ٹرمپ یورپی ملکوں پر اپنے دفاع کا بوجھ خود اٹھانے پر زور دیں گے۔ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے حلف اٹھانے سے پہلے غزہ میں جنگ بند ہو جائے گی اور حماس کی قید میں اسرائیلی یرغمالی رہا ہو جائیں گے۔ اب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مصر‘ قطر اور امریکہ کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان ایک مرحلہ وار امن معاہدے پر اتفاق ہو چکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یوکرین کے مسئلے پر صدر ٹرمپ کن شرائط پر جنگ بند کرواتے ہیں۔ تجسس اور ڈر کے ملے جلے جذبات کے ساتھ دنیا یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے یہ اعلانات اور منصوبے کیا کسی سوچی سمجھی پالیسی شفٹ کی پیداوار ہیں یا ٹرمپ محض اقتدار حاصل کرنے اور اسے برقرار رکھنے کیلئے تاریخ میں اُن پاپولسٹ حکمرانوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں جو اپنے عوام کی توقعات اور امیدوں کو انتہائی بلندی تک لے جاتے ہیں۔ اگلے کالموں میں ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی جائے گی۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں