امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آئے روز سنسنی خیز اور متضاد ایگزیکٹو آرڈرز اور بیانات جاری کرکے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال رہے ہیں۔ ایک طرف وہ اقوامِ متحدہ کے ذیلی مگر نہایت اہم اداروں مثلاً ہیومن رائٹس کونسل‘ فلسطینی مہاجرین کیلئے امدادی تنظیم UNRWA اور عالمی ادارۂ صحت سے امریکہ کی علیحدگی اور فنڈز روکنے کا اعلان کر کے امریکہ کو دنیا سے الگ تھلگ کر کے ''آئسولیشن ازم‘‘ کی خارجہ پالیسی کی طرف لے جانے کا تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری طرف نہر پاناما کو دوبارہ اپنی تحویل میں لینے‘ کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بنانے‘ گرین لینڈ پر قبضے کرنے اور غزہ میں امریکی افواج کو دخل کرکے اپنی ملکیت میں لانے کے عزائم ظاہر کر کے یورپی نوآبادیاتی ذہنیت سے بھی بدتر سوچ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اُن کے یورپی اتحادی ہوں یاسب سے بڑا معاشی حریف ملک چین یا پھر تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک‘ سبھی انگشت بدنداں ہیں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آخر امریکی صدر کیا چاہتے ہیں؟ ٹرمپ کے اپنے الفاظ میں وہ امریکہ کو ایک دفعہ پھر ''عظیم‘‘ دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر امریکہ اب بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور سب سے طاقتور عسکری قوت کی حیثیت سے بڑا ملک ہے۔ پھر ٹرمپ کے ذہن میں ایک ''عظیم امریکہ‘‘ کا کیا تصور ہے؟ ان کے اپنے الفاظ میں وہ ایک ایسا امریکہ چاہتے ہیں جسے ساری دنیا نہ صرف احترام سے دیکھے بلکہ اس کے ہر اقدام کی ستائش کرے۔ صدر ٹرمپ کی شکایت یہ ہے کہ دنیا میں امن اور سلامتی اور مختلف شعبوں میں بین الاقوامی تعاون کے فروغ کیلئے ''اقوام متحدہ‘‘ کے سالانہ بجٹ میں امریکہ سب سے زیادہ (22فیصد)حصہ ڈالتا ہے۔ دنیا کے کسی حصے میں قدرتی آفات کے نتیجے میں بھی امریکہ سب سے زیادہ رقم عطیہ کرتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ سے پہلے غیر ملکی امداد کا کوئی تصور نہیں تھا لیکن یورپ اور جاپان کو جنگ کی تباہ کاریوں سے نکالنے اور نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک کی صف میں کھڑا کرنے میں امریکہ کی امداد کا بہت بڑا کردار ہے۔ یو ایس ایڈ‘ جسے 1961ء میں صدر کینیڈی نے شروع کیا تھا‘ امریکہ کی بیرونی امداد کا سب سے بڑا حصہ (60فیصد) اسی پروگرام کو جاری ہوتا ہے اور اس کا دائرہ 130ملکوں تک پھیلا ہوا ہے۔ 2023ء میں اس پروگرام کے تحت عالمی سطح پر ترقیاتی سرگرمیوں کو فروغ دینے پر 43.79ارب ڈالر خرچ کیے گئے تھے۔ جن منصوبوں کیلئے یو ایس ایڈ کے تحت امداد فراہم کی جاتی ہے ان کا تعلق زیادہ تر صحت‘ تعلیم‘ خواتین کی ترقی‘ صنعتوں اور زراعت سے ہے۔ اربوں ڈالر کی امداد کے علاوہ یو ایس ایڈ کے تحت ہزاروں افراد کو ملازمت کی صورت میں روزگار بھی حاصل ہے۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے دنیا بھر میں یو ایس ایڈ کی سرگرمیاں روک کر ملازمین کو واپس بلانے سے ایسے تمام منصوبے بند ہو جائیں گے جن سے لاکھوں افراد‘ خاص طور پر پروڈکٹیو ہیلتھ کے شعبے میں خواتین انتہائی ضروری امداد سے محروم ہو جائیں گی۔ پاکستان میں یو ایس ایڈ کے تحت صحت کے شعبے میں کام کرنے والے 60 منصوبے بند ہو جائیں گے۔ اسی طرح افغانستان اور بنگلہ دیش میں بھی اسی شعبے میں کام کرنے والے منصوبوں کی بندش سے لاکھوں خواتین اور لڑکیوں کی صحت کیلئے درکار دوائیوں کی ترسیل بند ہو جائے گی جس کی وجہ سے ان کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ اگرچہ امریکہ کے نئے سیکرٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو نے یقین دلایا ہے کہ یو ایس ایڈ کی عالمی سرگرمیوں کو عارضی طور پر 90دن کیلئے بند کیا گیا ہے اور اس دوران اس کی کارکردگی خصوصاً فنڈز کے استعمال کا جائزہ لینے کے بعد ضروری منصوبوں کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی جائے گی۔ مگر یہ بات یقینی معلوم ہو رہی ہے کہ اس پروگرام کے موجودہ 50ا رب ڈالر کے بجٹ میں نمایاں کمی کر دی جائے گی۔ یو ایس ایڈ پروگرام کا آغاز امریکہ نے اس وقت کیا تھا جب اسے سوویت یونین کی طرف سے عالمی بالادستی کی جنگ میں ایک سخت چیلنج کا سامنا تھا۔ اس جنگ کا مرکز نوآبادیاتی غلامی سے آزاد ہونے والے درجنوں افریقی اور ایشیائی ممالک تھے۔ یو ایس ایڈ پروگرام کے تحت امریکہ نے ان ممالک میں اثر و رسوخ کے مقابلے میں سابقہ سوویت یونین کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ پاکستان اور بھارت میں اناج کی پیداوار میں خود کفالت یعنی ''سبز انقلاب‘‘ اسی پروگرام کا مرہونِ منت ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے پروگرام‘ جن کی وجہ سے دنیا میں امریکہ کو پذیرائی حاصل ہوئی‘ کو بند کرنے اور اقوام متحدہ کے سسٹم سے الگ ہونے کی کیوں ضرورت پیش آ رہی ہے؟ اس کے جواب میں ٹرمپ دو وجوہات بیان کر رہے ہیں ایک یہ کہ امریکی عوام کے ٹیکسوں کی کمائی کو ضائع کیا جا رہا ہے اور دوسرا‘ اتنی امداد کے باوجود امریکہ مخالف رحجان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے صدر ٹرمپ درآمدی ڈیوٹی (ٹیرف) میں اضافہ کرنے کے ساتھ امدادی پروگرام بھی بند کر رہے ہیں مگراس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ امریکہ دنیا سے الگ تھلگ پالیسی ''آئسو لیشن ازم‘‘کی طرف جا رہا ہے۔ بلکہ صدر ٹرمپ گرین لینڈ پر قبضہ‘ نہر پاناما کو دوبارہ حاصل کرنے اور غزہ میں امریکی افواج داخل کرنے کا ارادہ ظاہر کر کے 19ویں صدی کی نوآبادیاتی ''گن بوٹ‘‘ پالیسی کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ امریکہ بڑے فخر سے دعویٰ کرتا آیا ہے کہ 1899ء میں فلپائن پر قبضہ کرنے کے علاوہ اس نے یورپی طاقتوں کے برعکس دنیا کے کسی حصے میں نوآبادیاتی کالونی قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اسی ہائی مورل اصول کی بنیاد پر پہلی عالمی جنگ میں برطانیہ اور فرانس کی جرمنی و اتحادیوں پر فتح کو ممکن بنانے اور پیرس امن کانفرنس (1919ء)کے انعقاد میں فعال کردار ادا کرنے کے باوجود امریکہ نے ورسیلس معاہدے(Treaty of Versailles)پر دستخط سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ دنیا میں جنگ کی روک تھام کیلئے قائم کی جانے والی لیگ آف نیشنز میں شرکت بھی نہ کی۔
کسی نے جرمنی کے چانسلر اوٹو وان بسمارک سے پوچھا کہ اتنے مختصر عرصہ میں امریکہ اتنی بڑی طاقت کیسے بن گیا تو انہوں نے کہا کہ امریکہ کی خوش قسمتی ہے کہ اس کے شمال اور جنوب میں کمزور ہمسایہ ممالک ہیں اور مشرق اور مغرب میں سمندر ہیں جن میں مچھلیاں رہتی ہیں۔ بسمارک کا یہ کہنا سو فیصد درست تھا۔ یورپ اور امریکہ کے مابین واقع بحر اوقیانوس نے امریکہ کو دونوں عالمگیر جنگوں سے محفوظ رکھا۔ اگرچہ یہ تحفظ 1960ء کی دہائی کے اواخریا 1970ء کی دہائی کے اوائل میں ختم ہو گیا تھا جب سوویت یونین نے دور مار بین البراعظمی بیلسٹک میزائل بنا کر بحر اوقیانوس کے پار امریکہ کے مشرقی ساحل پر واقع شہروں کو ایٹمی حملوں کا نشانہ بنانے کی استعداد حاصل کر لی تھی۔ مگر 21ویں صدی میں چین اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں نے امریکہ کی معاشی شعبے میں عالمی بالادستی کو چیلنج کر دیا ہے۔ امریکہ کے بعد حجم کے لحاظ سے چینی معیشت دوسرے نمبر پر ہے اور ان میں فاصلہ تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ مشرقِ بعید‘ جنوب مشرقی ایشیا‘ جنوبی ایشیا‘ مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ‘ جو روایتی طور پر امریکہ کے حلقہ اثر میں شامل سمجھے جاتے تھے‘ اب چین کے بڑھتے ہوئے معاشی‘ سیاسی اور سفارتی اثر و رسوخ کا مرکز ہیں۔ حتیٰ کہ لاطینی امریکہ‘ جسے امریکہ کا بیک یارڈ سمجھا جاتا تھا‘ اب معاشی اور تجارتی لحاظ سے امریکہ کے حلقہ اثر میں نہیں رہا۔ اب جنوبی امریکہ کے متعدد ممالک میں چین کی سرمایہ کاری اور درآمدات بڑھ رہی ہیں۔ لاطینی امریکہ اور کریبین کے 17ممالک چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو میں بھی شامل ہو چکے ہیں۔ ان میں ارجنٹائن‘ چلی اور پاناما بھی شامل ہیں۔ نہر پاناما سے گزرنے والے کارگو جہازوں میں امریکہ کے بعد سب سے زیادہ تعداد چین کے جہازوں کی ہے۔ اس نہر کے دونوں کناروں پر واقع بندرگاہوں کو فعال رکھنے کی ذمہ داری چینی کمپنی کے پاس ہے۔ یہ وہ چیلنجز ہیں جن کا اپنی تاریخ میں امریکہ کو پہلی دفعہ سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان پر قابو پانے کیلئے ٹرمپ حریف ملکوں کی معیشتوں کو کمزور کرنے کیلئے ٹیرف نافذ کرنے کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں۔