ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ملک کو جب کبھی کسی چیلنج کا سامنا ہوا‘ خواہ وہ بیرونی جارحیت ہو یا قدرتی آفات‘ پوری قوم نے مکمل اتحاد اور پوری ثابت قدمی سے اس کا مقابلہ کیا ہے۔ اس دھرتی پر کوئی انسانی معاشرہ ایسا نہیں ہے جس میں اختلافات نہ ہوں‘ تضادات نہ ہوں اور ایک دوسرے سے گلے اور شکوے نہ ہوں‘ مگر ہر قوم کی زندگی میں ایک لمحہ ایسا ضرور آتا ہے جب اختلافات کو ایک طرف رکھ کر قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے شانہ بشانہ کھڑی ہو جاتی ہے۔ بھارت کے ساتھ جنگ کی صورتحال میں قوم کے ہر فرد‘ گروہ اور جماعت نے جس طرح بیک آواز بھارت کی دھمکیوں کا منہ توڑ جواب دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے‘ وہ ایک ایسے ہی لمحے کا عکس پیش کرتا ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اتوار چار مئی کو جب ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے موجودہ صورتحال کے حساس پہلوؤں پر تمام سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لینے کیلئے اِن کیمرہ بریفنگ کا اہتمام کیا تو ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت نے سیاسی وجوہات کی بنا پر اس میں شرکت سے انکار کیا ۔سیاسی صفوں میں اس قسم کا انتشار دیکھ کر دشمن کا حوصلہ بڑھتا ہے اور ہر قربانی دینے کے جذبے سے سرشار قوم میں مایوسی پھیلتی ہے۔ قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں متحد ہوں اور یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا دیں۔ بھارت کے ساتھ کشیدگی کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے قومی سلامتی کمیٹی کا جو ابتدائی اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں منعقد ہوا تھا پی ٹی آئی نے اُس میں شرکت کی تھی اور پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ اس صورتحال میں وہ عوام اور مسلح افواج کے ساتھ ہوں گے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھارت کی دھمکیوں کے جواب میں متفقہ طور پر منظور ہونے والی قراردادوں میں بھی پی ٹی آئی کی رضا مندی شامل تھی‘البتہ پی ٹی آئی کی طرف سے اس صورتحال میں اِن کیمرہ بریفنگ میں شرکت سے انکار سمجھ سے بالاتر تھا۔پی ٹی آئی کی طرف سے اپنے فیصلے کے حق میں جو دلائل دیے گئے وہ بہت کمزور ہیں اور پی ٹی آئی کا یہ اقدام بلاجوازتھا لیکن حکومت کی طرف سے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کی شرکت کو یقینی بنانے کیلئے خیر سگالی کے جن اقدامات کی ضرورت تھی ان کی غیر موجودگی بھی اس افسوسناک اقدام کا سبب بنی۔
جنگی صورتحال میں دشمن کو ایک مضبوط پیغام بھیجنے کیلئے ایسے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے جن کے نتیجے میں ریاست اور سیاسی قوتوں کے درمیان محاذ آرائی کے بجائے مصالحت کی فضا قائم ہو۔ دنیا کے کئی ملکوں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں جہاں اعلیٰ قومی مقصد کی خاطر متحارب فریقین نے اپنی اپنی اَنا کو پس پشت ڈال کر ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا۔ پاکستان میں بھی اس وقت ایسے فراخدلانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی پی ٹی آئی گزشتہ ایک برس سے زیادہ عرصہ سے چند مطالبات کے حق میں جدوجہد کر رہی ہے۔ قانونی وجوہات کی بنا پر اُن میں سے بعض مطالبات کو فوری طور پر تسلیم کرنا شاید ممکن نہ ہو مگر موجودہ سنگین صورتحال میں قومی مصالحت کی خاطر بعض معاملات میں لچک دکھائی جا سکتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ سکیورٹی کی آڑ میں ریاست کسی فرد یا ادارے کو بلیک میل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی مگر یاد رکھنا چاہیے کہ ریاست کی اصل طاقت عوام ہیں اور عوام کی اصل طاقت اتحاد میں ہے‘ تقسیم میں نہیں۔ پہلگام واقعہ کو بنیاد بنا کر نریندر مودی نے انتہائی بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنا کر پاکستان پر جنگ مسلط کی۔ان حالات میں وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کیلئے چیلنج یہ ہے کہ ایک مکار دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے وہ باقی سیاسی پارٹیوں خصوصاً پی ٹی آئی کو آن بورڈ لیں ۔ بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں امن اور ہم آہنگی ہو۔ پاکستان کے ہر شہری کو اس بات پر تشویش ہوگی کہ ایک طرف ہماری بہادر افواج بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے سرحدوں پر کھڑی ہوں مگر دوسری طرف سیاسی جماعتوں کو اپنے مطالبات کیلئے سڑکوں پر آنا پڑے۔ حکومت کا فرض ہے کہ جن وجوہات کی بنا پر ملک کے مختلف حصوں خصوصاً بلوچستان اور کے پی میں بے چینی پائی جاتی ہے‘ انہیں دور کیا جائے۔
حکومت اور پوری قوم کو اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے متحد ہو کر بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کو ناکام بنانے کیلئے مسلح افواج کا ساتھ دینے کا عزم کیا ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اپنا فریضہ ادا کر دیا ہے‘ جو اُن پر لازم تھا۔ اب حکومت کی باری ہے کہ ملک میں دو ڈھائی برسوں سے جاری سیاسی کشیدگی کو کم کرنے اور بے یقینی کی فضا ختم کرنے کیلئے کچھ مثبت اور تعمیری اقدامات کرے۔ ان میں جیل میں بند سیاسی قیادت اور کارکنوں کی رہائی کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ اس سمت کسی پیشرفت میں ناکامی کا مطلب ملک میں احتجاجی جلسوں‘ جلوسوں اور تحریکوں کے جاری رہنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا۔ یہ صحیح ہے کہ ان احتجاجی جلسوں اور جلوسوں کے نتیجے میں حکومت ختم نہیں ہو سکتی مگر ان کے جاری رہنے سے باہر کے دشمن کو غلط پیغام ضرور جاتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف‘ جنہوں نے اَن تھک محنت اور لگن سے معاشی محاذ پر ایسی کامیابیاں حاصل کی ہیں جن کا اعتراف کیا جاتا ہے‘ سے توقع کی جاتی ہے کہ جس طرح انہوں نے ملکی معیشت کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا ہے‘ سیاسی محاذ پر بھی ملک کو اندرونی طور پر سیاسی عدم استحکام کے بھنور سے نکالنے کیلئے کوشش کریں گے۔ ان کی حکومت کے ارکان اور خود انہوں نے سفارتی سطح پر عالمی برادری کے سامنے بھارت کے جارحانہ عزائم کو جس طرح بے نقاب کیا ہے اس کے پیش نظر وہ ملک میں موجود خطرناک سیاسی تقسیم کو بھی ختم کر سکتے ہیں۔ بھارت کی طرف سے جنگی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کیلئے پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں نے حکومت اور مسلح افواج سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اندرونی سیاسی محاذ پر جو تضادات ہیں اور ایسے مسائل جو فوری طور پر حل طلب ہیں‘ خود بخود غائب ہو جائیں گے۔ ان مسائل کے حل میں تاخیر بیرونی خطرے کے خلاف قومی اتحاد کو کمزورکر سکتی ہے۔ اس کیلئے اگر ایک آل پارٹیز کانفرنس بلانی پڑے تو اس میں بھی تاخیر نہیں کرنی چاہیے بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس فورم کو استعمال کرتے ہوئے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے۔ اس ڈائیلاگ کے نتیجے میں آئندہ کیلئے ایک مشترکہ روڈ میپ پر اتفاق قوم کیلئے ایک بہت بڑی خوشخبری ہو گی۔ اس سے نہ صرف ملک میں سیاسی غیریقینی ختم ہوگی بلکہ اندرون ملک دہشت گردی کی سرگرمیوں پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی۔ بیرونی محاذ پر بھی پاکستان کی پوزیشن مستحکم ہو گی۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کی سویلین آبادی پر میزائل حملوں اور پاکستان کی طرف سے ان حملوں کے بھرپور جواب کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے پیشِ نظر بین الاقوامی برادری نے دونوں ملکوں کو باہمی بات چیت کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے پر زور دیا ہے۔ پاکستان کی حکومت نے تمام سیاسی پارٹیوں کی حمایت سے بھارت کے جارحانہ عزائم کو ناکام بنا دیا ہے۔ اب ضروری ہے کہ ہم اپنے اندرونی مسائل کے حل کی طرف توجہ دیں کیونکہ ان کی موجودگی میں ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہے گا جو بیرونی محاذ پر چیلنجز کا سبب بن سکتا ہے۔