وطنِ عزیز میں کبھی کبھی اچانک کچھ حلقوں سے صدارتی نظام کے حق میں آوازیں اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے بات کی جائے تو صدارتی نظام کے حق میں دلیلیں عام طور پر اُس وقت پیش کی جاتی ہیں جب ملک میں آمرانہ‘ نیم آمرانہ یا ہائبرڈ نظام کے تحت کاروبارِ مملکت چلایا جا ریا ہو۔ ان دنوں بھی ملک میں ہائبرڈ قسم کا نظام حکومت ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ پارلیمانی نظام کی چیمپئن سیاسی جماعتیں بھی اس سے سمجھوتا کر چکی ہیں بلکہ اس کو جاری رکھنے اور مضبوط کرنے پر آمادہ نظر آتی ہیں۔شایداسی لیے آج کل بھی صدارتی نظام حکومت کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں لوگ پارلیمانی نظام کے حق میں بھی بول رہے ہیں۔ حکومتِ سندھ کے ایک سینئر رکن نے صدارتی نظام کے حق میں مہم چلانے والوں کے خلاف یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو کوئی پاکستان میں صدارتی نظام کے حق میں بات کرے اس کے خلاف آئین کی دفعہ چھ کے تحت مقدمہ چلانا چاہیے۔ کراچی میں ایک سیاسی جماعت کے زیر اہتمام ایک ملٹی پارٹی کانفرنس میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اگر 1973ء کے آئین میں ترمیم کے ذریعے ملک میں ضیا الحق یا پرویز مشرف کے ادوار کے نیم صدارتی نظام کو نافذ کرنے کی کوئی کوشش کی گئی تو ملکی اتحاد خطرے میں پڑ جائے گا۔
اس بحث کو آگے بڑھانے سے قبل دو وضاحتیں ضروری ہیں۔ پارلیمانی کی طرح صدارتی نظام بھی جمہوری ہے۔ اس لیے دنیا کے بہت سے ممالک میں‘ جہاں برطانوی طرز کا پارلیمانی نظام حکومت رائج ہے‘ وہاں صدارتی نظام کو بھی پذیرائی حاصل ہے۔ امریکہ اس کی واضح مثال ہے۔ دوسری وضاحت یہ ہے کہ وطنِ عزیز میں پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام کی حمایت کرنے والوں کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔دیگر ممالک جو خود کو پارلیمانی جمہوریت کے چیمپئن کہتے ہیں ان میں بھی صدارتی نظام کے حامی موجود ہیں۔بھارت میں بی جے پی کو دیکھ لیں جس سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم نریندر مودی نے عملی طور پر اپنے اقتدار کو صدارتی نظام میں تبدیل کردیا ہے۔ صدارتی نظام کے حامی کانگرس میں بھی موجود ہیں۔ کانگرس کے رہنما ششی تھرور نے اپنی کتاب ''Inglorious Empire‘‘ میں صدارتی نظام کے قیام کی حمایت کی ہے۔ اگر وطنِ عزیز میں بھی صدارتی نظام کے قیام کی حمایت کی جاتی ہے تو اس پر اعتراض نہیں کیا جانا چاہیے۔ اصل مسئلہ طریقہ کار کا ہے۔ اگر اقتدار پر شب خون مار کر یکطرفہ طور پر پولیٹکل انجینئرنگ کے ذریعے اختیارات کو ایک شخصیت میں جمع کرکے سیاسی نظام تبدیل کیا جائے گا تو عوام اسے قبول نہیں کریں گے۔ا گر پارلیمانی بمقابلہ صدارتی نظام پر بحث کو کسی نتیجے پر پہنچانا مقصود ہے تو اس پر ایک کھلی اور ملک گیر بحث ہونی چاہیے تاکہ قومی اتفاقِ رائے حاصل کیا جا سکے‘ لیکن مجھے یقین ہے کہ سیاسی سماج کا ووٹ پارلیمانی جمہوریت کے حق میں ہوگا کیونکہ اس کا ایک مظاہرہ پہلے بھی ہو چکا ہے۔ ایوب خان نے ملک کو نیا آئین دینے سے قبل اس مقصد کیلئے عوامی مباحثے کا اہتمام کیا تھا لیکن جب عوامی سیاسی حلقوں کی طرف سے صدارتی نظام کے خلاف اور پارلیمانی نظام کے حق میں بیانات آنا شروع ہو ئے تو انہوں نے مباحثے کوروک دیا اور آئینی کمیشن کو صدارتی آئین بنانے کا حکم دیا جسے جون 1962ء میں نافذ کردیا گیا۔
پارلیمانی نظام کے خلاف پیش کی جانے والی دلیلوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسے ملک کے جاگیردار سیاستدانوں کی حمایت حاصل ہے جو اسے اَن پڑھ اور سیاسی شعور سے محروم عوام کے استحصال کا سب سے بہتر اور آسان آلہ سمجھتے ہیں۔ مگر کانگرس تو جاگیرداروں کی سیاسی جماعت نہیں تھی بلکہ پورے ہندوستان میں زرعی اصلاحات کی حامی تھی‘ پھر اس کی طرف سے پارلیمانی نظام کی حمایت کی کیا وجہ تھی؟ ماناجاتا ہے کہ انگریز خود ہندوستان میں پارلیمانی نظام کو رائج کرنے کے حق میں نہیں تھے اور 1858ء کے بعد آئینی اور سیاسی اصلاحات کے سلسلے میں ہندوستان کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے پارلیمانی نظام کو ترجیح دینے پر حیران تھے۔ مشرف دور میں مشہور ہونے والے ایک سائنسدان‘ ماہر تعلیم اور دانشور نے پارلیمانی نظام کی مخالفت اور صدارتی نظام کی حمایت میں مضامین کے ایک سلسلے میں دعویٰ کیا تھا کہ قائداعظم بھی صدارتی نظام کے حق میں تھے۔ اگرچہ اپنے دعوے کے حق میں وہ کوئی مستند اور دستاویزی ثبوت پیش نہ کر سکے ۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو بھی صدارتی نظام چاہتے تھے مگر دیگر سیاسی رہنماؤں کی طرف سے مخالفت کی وجہ سے وہ 1973ء کا پارلیمانی آئین پیش کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ 1968-69ء میں ملک کے دونوں حصوں میں اُبھرنے والی جس عوامی تحریک نے ایوب خان کا دورِ اقتدار ختم کیا تھا اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کا اقتدار تک پہنچنے کا راستہ ہموار کیا ‘ اس کے چارٹر آف ڈیمانڈز میں پہلا مطالبہ ملک میں پارلیمانی نظام کی بحالی کا تھا۔ اس سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ملک میں پارلیمانی نظام حکومت کو نہ صرف عوامی حمایت بلکہ سیاسی جماعتوں کی متفقہ حمایت بھی حاصل ہے۔
پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام لانے کی ضرورت پر یقین کرنے والے حلقے یقینا اس رائے سے متفق نہیں ہوں گے مگر اپنے مؤقف پر مزید اصرار کرنے سے پہلے جنوبی ایشیا کے اُن چند ممالک کی سیاسی تاریخ اور تجربے پر بھی نظر ڈال لیں جو پاکستان کی طرح برطانوی نوآبادیاتی سلطنت کا حصہ رہے یا اس کے زیر اثر سیاسی ارتقائی عمل سے گزرے ہیں۔ سری لنکا نے 1948ء میں اپنی آزاد سیاسی زندگی کا آغاز پارلیمانی جمہوریت سے کیا تھا۔ 1978ء میں یونائٹیڈ نیشنل پارٹی نے اسے صدارتی نظام میں بدل دیا مگر 2019ء کے صدارتی انتخابات متھری پالا سری سینا نے صدر کے ایگزیکٹو اختیارات کو پارلیمنٹ کو منتقل کرنے کے وعدے پر جیتے تھے۔ یہ درست ہے کہ سری لنکا میں ابھی تک صدارتی نظام ہے مگر ایک دہائی سے اسے پارلیمانی نظام میں واپس ڈھالنے کی تحریک جاری ہے۔ شیخ مجیب الرحمن کی جماعت عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں 1971ء کے انتخابات پارلیمانی فریم ورک کے تحت جیتے تھے مگر پاکستان سے علیحدگی کے بعد دو سال کے اندر انہوں نے اسے صدارتی نظام میں بدل دیا۔ 1975ء میں بنگلہ دیشی فوج کے ایک گروپ کے ہاتھوں شیخ مجیب الرحمن کے قتل کے بعد یکے بعد دیگرے بنگلہ دیش میں جتنی بھی حکومتیں قائم ہوئیں انہوں نے صدارتی نظام برقرار رکھا‘ ان میں جنرل حسین محمد ارشاد کی حکومت بھی شامل تھی جسکے خلاف بنگلہ دیش کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر تحریک چلائی۔ اس تحریک کی کامیابی اور حسین محمد ارشاد کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے بعد بنگلہ دیش کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں‘ جن میں حسینہ واجد کی عوامی لیگ اور خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی بھی شامل تھی‘ نے ملک میں پارلیمانی نظام بحال کر دیا۔ نیپال میں رانا فیملی کے آمرانہ نظام کے خلاف 1951ء میں پارلیمانی نظام قائم کیا گیا‘ جس کا سربراہ نیپال کا بادشاہ تھا۔ 10برس سے زیادہ عرصہ تک نیپال کی ماؤ نواز گوریلا تحریک کی جدوجہد کے نتیجے میں نیپال میں بادشاہت کا خاتمہ کیا گیا اور پارلیمانی نظام کو ایک مرتبہ پھر اپنا لیا گیا۔آخر پارلیمانی نظام میں جنوبی ایشیا کے سیاسی سماج کیلئے کوئی خصوصی دلکشی تو ہو گی جس کی وجہ سے اسے صدارتی نظام پر ترجیح دی جاتی ہے۔