عبداللہ شاہ ممکن ہے کہ سندھ کے بہت نیک نام وزیرِ اعلیٰ نہ رہے ہوں،مگر دلی،لکھنؤ،آگرہ اور بدایوں کی ثقافتی وراثت کی امین قیادت سے انہوں نے معصومیت سے پوچھا تھا کہ ہم تو اپنے بچوں کو آپ کے بزرگوں کے اچھے نام اور اقوال سنایا کرتے تھے اور توقع رکھتے تھے کہ یہ بھی مہذب ہو جائیں گے،پر یہ کیا ہوا جو آپ کے ایک ونگ کی قیادت کچھ ’’خاص‘‘ لوگ کر رہے ہیں۔ ایسے ناموں میں اب بابا لاڈلا کا نام بھی شامل ہو گیا ہے۔آپ جانتے ہیں کہ پاکستانی قوم بڑی ستم ظریف ہے،مشکلات میں بھی مسکرانے سے باز نہیں آتی،ابھی کل رات ہی مجھے دس بارہ میسج آئے کہ نواز لیگ کے اہم سیاستدان نے نگران وزیرِ اعظم کے بارے میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی ہر کوشش ناکام بنا دی،حالانکہ قومی قیادت کے منظر نامے پر مہتاب عباسی جیسے متحمل اور مدبّر بھی سامنے آئے ہیں،مگر سارے بلڈی سویلین کو شودر سمجھنے والے اور ایک آہنی چہرہ رکھنے والے سیاستدان کی خشونت ناقابلِ علاج ہو چکی ہے۔ ماجرا یہ ہے کہ ہماری زندگی میں جتنا میل کچیل بڑھتا جا رہا ہے، میڈیا کی وجہ سے’شفافیت‘ بھی بڑھتی جا رہی ہے، اور کچھ ہم نے اپنی ’اجتماعی‘ کمزوریوں کا دفاع پیش کرنا چھوڑ دیا ہے،وگرنہ ہر دور کے سرکاری اور کرائے پر دستیاب دانش وروں کا کام ہی ہر جماعت کے کرسی نشیںبونوں کو قد آور بنانے کا ہوتا تھا۔ ایسے میں جب اور جہاں کوئی حق بات تلخ لہجے میں بھی سنائی دیتی ہے تو شرفِ آدمیت کو ترسی مخلوقِ خدا بھی اس کی والہانہ تائید کردیتی ہے۔ کچھ خود ملامت تالیوں کی گونج میںایک یومِ پاکستان پر میرے ایک استاد نے ،جو بلوچستان یونیورسٹی میں پاکستان سٹڈیز کے ڈائریکٹر بھی رہے اور نواب اکبر بگٹی کے تعلیمی مشیر بھی، ہمارے قومی کردار پر کافی تلخ باتیں کیں کہ ہمارے نظریہ سازوں نے قیامِ پاکستان کا محرک جذبہ صرف اس خوف کو قرار دیا کہ اکثریتی قوم ہمیں ’نگل‘ جائے گی،اس لیے ہمارا یہ خوف پیدائشی ہے کہ لاہوری،ملتانی کو نگل جائے گا،پشتون،بلوچ کو اور مہاجر سندھی کو۔ہم ایسا نظام بنانے سے قاصر رہے،جہاں اختیارات کا غلط استعمال،حلف کی پامالی،جعلی ڈگری،اقربا پروری،ٹیکس بجلی، گیس اور کام چوری، اہم ترین کرسی پر بیٹھ کر نا انصافی قابلِ مواخذہ اور لائقِ نفرین ہوجاتے۔ان سے جب قومی کردار کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا’اخلاقی اعتبار سے سب منفی باتیں جمع کر لیجئے،آپ کی سمجھ میں اپنا قومی کردار آ جائے گا‘۔میری طرح کے ان کے تین چار شاگردوں نے ان کے احترام اور محبت کے باوجود اٹھ کر کہا’استادِ محترم،ہماری کوتاہیوں کو ہمارے بچوں کے لیے ’ڈراوا‘ نہ بنائیے۔ہم اتنے بُرے بھی نہیں،ہم پردیس میں جا کر جان توڑ محنت کرتے ہیں،زیادہ تر آمدنی اپنی خوراک،لباس اور آرام پر خرچ کرنے کی بجائے دوا،دارو کے منتظر والدین،بیوہ بہن یا بھابھی کی کفالت اور تعلیم کے ذریعے اپنے بچوں کا بہتر مستقبل خریدنے کے لیے اپنے وطن میں بھجوا دیتے ہیں۔ہمارے محنت کش ذہین خرادئیے دنیا کی پیچیدہ اور مشکل مشین کی نقل تیار کر لیتے ہیں۔ عام طور پر یہ قوم روزِ جزا پر یقین رکھتی ہے اوراس روز اللہ سے زیادہ اپنے اور اس کے محبوبﷺ سے شرمندہ ہونے سے ڈرتی ہے اور چپکے چپکے اللہ سے گذارش بھی کرتی جاتی ہے کہ اس روز، اوّل تو ہمیں معاف کر دینا،لیکن ہمارا حساب کتاب ناگزیر ہو جائے تو ہمارے محبوب نبیﷺ کی آنکھ سے چھپا کے لینا’از نگاہِ مصطفی،پنہاں بگیر‘۔یہ قوم بہت مار کھا چکی ہے۔ اس کی بار بار،توہین ہوئی ہے،اس کے ہاتھ میں پرچی تھما کر ’مثبت نتیجے ‘ کی خاطر دھاندلیاں کرنے والوں کے خدشات اور حکمتِ عملی اپنی جگہ، پریہ ووٹر قائد اعظم کے کردار اورذوالفقار علی بھٹو کے وژن کی تصدیق کرتے آئے ہیں،ہمیں ان کے شعور پر اعتماد کرنا چاہیے۔ آج ہم اتنے تہی دست بھی نہیں۔ آج کے میاں نواز شریف کے ہاں بھی کبھی کبھی ایک مدبّر کی گونج سنائی دیتی ہے اور پھر عمران خان نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک انہونا کام کر دکھایا ہے۔اپنی نو زائیدہ جماعت میں انتخاب کرا دیا ہے۔مجھے یاد ہے کہ حیدر عباس گردیزی کے گھر میں میَں نے بے نظیر بھٹو سے پوچھا تھا کہ وہ اپنی پارٹی میں الیکشن کیوں نہیں کراتیں ،آکسفورڈ سے تعلیم پانے کے باوجودتا حیات چیئر پرسن بننا پسند کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا ’یہ ایجنسیاں جو وزیرِ اعظم کے فون ٹیپ کرتی ہیں،اس کی سیاسی کشتی میں سوراخ کرتی ہیں،اس کے ساتھیوں کو آنکھیں بدلنے کی ترغیب دیتی ہیں، کیامیری پارٹی پر کھلے عام قابض نہیں ہو جائیں گی،جب میَں پارٹی میں الیکشن کرائوں گی؟‘ ماننا چاہیے کہ اس مرتبہ کچھ ہمارے مردانِ آہن نے تحمل سے کام لیا، کچھ بلوچوں نے عسکری کے ساتھ ساتھ سیاسی مزا حمت بھی کی،عدلیہ اور میڈیا نے غیر روایتی اسلوب اختیار کیا اور ہماری ایجنسیوں کو تھوڑا سا ’پچھلے قدموں‘ کا استعمال کرنا پڑا،یعنی کرکٹ کی اصطلاح میں بیک فٹ پر جانا پڑا اور پیپلز پارٹی نے بھی اپنی نالائقی کے باوجود سب کوبتا دیا کہ منتخب لوگوں کو بہت جرأت مندانہ سیاسی اقدامات کرنے کے اختیارات حاصل نہیں ہیں۔یوسف رضا گیلانی کا نام بھی کہیں سے چَھن کے آیا تھا اور راجا تک پہنچانے کے لیے بھی ایک آہنی ہاتھ استعمال ہوا تھا۔اب جب کہ وہ مینارِ پاکستان عوام کی سیاسی امنگوں کا مرکز بننے والا ہے،جس کی سیڑھیوں کو کچھ برسوں سے مقفل کر دیا گیا تھا کہ خود کشی کرنے والوں کی تعداد لاہور میں بھی بڑھ رہی تھی۔ یومِ پاکستان میری اپنی زندگی کا یادگار دن ہے،وگرنہ مجھے ملک کے پہلے منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کے بعد کا یومِ پاکستان بھی یاد ہے،جو پاکستان کے مشرقی بازو میں کسی اور طرح طلوع ہوا تھا۔اب ہماری قوم کو ایک عرصے سے غصب شدہ سیاسی حقِ رائے مل گیا ہے،پرچی ہمارے ہاتھ میں ہے،کیوں نہ اسے اپنے ضمیر یعنی سیاسی شعور کے تابع استعمال کریں؟