محبت کی شادی سے پہلے اور انتخابی مہم کے دوران وعدے کرتے وقت جس طرح کی ملائمت بھری اور مامتا طلب زبان استعمال کی جاتی ہے ، اس میں بھی ایک خاص طرح کی کشش اوردل فریبی ہوتی ہے۔امید واری کے عالم میں وزن سے خارج شعر بھی جذباتی ضرورت سے کہیںبڑھ کر مفہوم ادا کرتے دکھائی دیتے ہیںمگر شادی یا کرسی کی حلف برداری کے بعد ایک سوال پہلے سرگوشی یا خود کلامی کے عالم میں اور پھرکڑوے تیور کے ساتھ بیزارلہجے میںسنائی دیتا ہے :’’ کیا میرے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے؟‘‘ یہ بات اتنی ڈھٹائی سے اور اتنی اونچی آواز میں کی جاتی ہے کہ اسے بھی سنائی دے جاتی ہے جس کے لبوں کی لرزش کا مترنم ترجمہ کر کے کچھ دیر پہلے ان بولوں کا رس اپنے کانوں میں گھلتا ظاہر کیا گیاتھا ’’ جادوگر سیّاں…چھوڑو موری بیّاں ‘‘ ۔ وہ جو خواب میں بھی جادو گر سیّاں کہلانے پر چادر ،چاردیواری اور آپے سے باہر ہو جاتا تھا،اب اسے بانہہ چھڑانے کی نزاکت ’’جان چھوڑ دینے کی اپیل ‘‘میں تبدیل ہو تی محسوس ہوتی ہے۔ چلئے ایک دفعہ تو آپ کام یاب اداکاری کر سکتے ہیںمگر ساری مشکل آپ کو اس وقت پیش آتی ہے جب آپ کو دوبارہ الیکشن لڑنا ہو یا اسی خاتون سے دوبارہ محبت کرنی ہوجو آپ کے وعدوں کے ایفا سے واقف ہو چکی ہو۔اس صورت حال میں بڑے سے بڑے سحر طراز اور صاحبِ اسلوب تقریر نویس کو بھی دقت کا سامنا ہو سکتا ہے۔اس کا حل تو عشق پیشہ افراد نے کب کا نکال رکھا ہے۔سیاست شعار امیدواروں نے بھی پارٹی بدل لینے کو اپنی بے توفیقی چھپا لینے کا حربہ بنا لیا ہے۔ان کے پاس پچھلے پانچ برسوں میں کچھ نہ کر سکنے کا معقول جواز یہ ہو سکتا ہے :’’میرے پیارے عوام! میرا دل تھا کہ دن رات آپ کے درد میں تڑپتا تھا،بس میری پارٹی کے سابق لیڈر ایک حادثاتی لیڈر تھے بلکہ مجھے بتانے دیجئے کہ اصل میں عوام دشمن انسان تھے۔آپ کے لئے میرے پیار اور خلوص کے قدر شناس نہیں تھے ،آپ کے لئے مجھے تڑپنے بھی نہیں دیتے تھے بلکہ یوں جانیے کہ آپ اور میرے بیچ ظالم سماج کی دیوار تھے۔ یہی نہیں،جب میں آپ کی محبت میں کوئی فیصلہ کرنے لگتا تھا، وہ بلا لیتے ،زبردستی میری جیب یا اکائونٹ میں کچھ نقدی ڈال دیتے اور ایک آدھ پورٹ فولیو بھی میرے پائوں کے گھنگھرئوں کے ساتھ باندھ دیتے،مگر اللہ کا شکر ہے،میں نے اس مرتبہ صحیح پارٹی اور درست لیڈر کا انتخاب کر لیا ہے،اگر میرایہ فیصلہ بھی اقتدار میں آکر آپ کی خدمت کا موقع نہ دے سکا تو میں یقین دلاتا ہوں،میں یہ پارٹی بھی چھوڑ دوں گاکیونکہ آپ کوئی پاگل ہیں جو میری پارٹی کو اپوزیشن میں رہنے کے لئے ووٹ دیں گے ‘‘۔ ایسے لوگ اپنی سیاست کو دوام دینے کا گُرجانتے ہیں۔انہوں نے جون ایلیا اور خالد شیرازی کا کلام نہ دیکھا ہومگراپنے شعار کو ان اشعار کے مطابق ڈھال لیتے ہیں: آپ اپنی گلی کے سائل کو، کم سے کم پُر سوال تو رکھئے نِت نئی خوش فہمیوں میں مبتلا رکھتا ہوں میں، خلق کے ہاتھوں کو مصروف دعا رکھتا ہوں میَں بد قسمتی سے ہم ادارے بنا کر معجزے دکھاسکنے والے جادوگروں کے زیادہ قائل نہیںوگرنہ ایر مارشل نور خان جیسے دو چار منتظم تو کھٹارا ہوجانے والی پی آئی اے،کباڑا کرنے والی ریلوے ،موم ہو کر ہر لحظہ گھلتی سٹیل مل اور ام الخبائث ہو جانے والی وزارت بجلی،پانی اور گیس کے لئے تلاش کر ہی لیتے۔یہ درست ہے کہ ان میں سے بیشتر ادارے اقربا نوازی بلکہ اولاد نوازی کی نذر ہوئے ہیں۔ افسروں کوشاید اپنے عزیزوں بلکہ اولاد کو برسرِ روزگار بنانے کے فطری جذبے یا اضطراری عمل سے روکنا نہیں چاہیے مگر انہیں زبردستی مولوی نذیر احمد دہلوی کا ناول ’توبۃ النصوح‘ پڑھانا چاہیے اور انہیں باور کرانا چاہیے کہ اگر وسائل اور اختیارات کے باوجود ان کی اولاد بگڑ گئی اور انہوں نے ان نالائقوں کو قومی اداروں کے سر پر منڈھ دیا تو روزِ قیامت ان کی باز پرس بگڑی اولاد کے حوالے سے ہی ہو گی۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ ان اولادوں کی وجہ سے برباد ہونے والے یہ ادارے انہی انتخابات میں ہی قیامت ڈھا دیں۔اس میں شک نہیں کہ پہلی مرتبہ پاکستانی رائے عامہ اس بات پر متفق ہو رہی ہے کہ سیاسی اتحاد لوٹ مار اور قومی ادارے برباد کرنے کے لئے نہیں بلکہ ان کی تعمیرِ نو کے لئے ہونے چاہئیں۔بات تو محض خیالی ہے مگر میرے بس میں ہوتا تو میں علامہ طاہر القادری کے حوالے پی آئی اے یا ریلوے کر دیتا کہ آپ اگر انتخابی عمل میں شریک نہیں تو آئیے! اپنی خداداد جادو گری کو کچھ چیزیں بنانے میں بھی صرف کیجئے۔ ماضی میںہم نے آئین اور قانون میں سرنگیں لگانے والوں،جج صاحبان کے قلم کو توقیر سے محروم کرنے والوں اور ڈکٹیٹروں کی من چاہی خواہشوں کی آسودگی کے لئے قانونی اور آئینی راہیں نکالنے والوں کو جادو گر کا لقب دیا۔شریف الدین پیرزادہ ’’ جدہ کے جادو گر‘‘ کہلاتے رہے اور تین عشرے پاکستان کے مردانِ آہن کے گرز کے سہارے وہ آئین میں ایسی پیوند کاری کرتے رہے کہ آپ چاہیں تو ہر شق کے چالیس سے زیادہ مطالب نکال سکتے ہیں۔یہ والے پیرزادہ خود کو قائدِ اعظم کے ساتھی کہلوانے میں بھی اسی طرح فخر محسوس کرتے جیسے حفیظ پیرزادہ بھٹو کی پھانسی سے ایک دن پہلے ایک اورشادی کر کے بھی اس دستور کے خالق کے سب سے بڑے مشیر اور دوست کہلانے پر اصرار کرتے ہیں۔بیچ میں احتساب والے سیف الرحمن کی ڈکٹیشن کو بیچ چوراہے میں لا کر اپنی ججی سے محروم ہونے والے عبدالقیوم نے بھی آئینی جادوگر ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور جنرل مشرف نے اس پر اسی طرح یقین کیا تھا جیسے آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے بابر اعوان اورلطیف کھوسہ کی جادوگری کو برحق خیال کیا تھامگر قید و بند کے زمانے میں جو عصا بنوایا گیا تھا وہ ہمارے بابر اعوان اور لطیف کھوسہ کے جادوئی سانپوں کو تو عرصہ پہلے نگل گیا، اب ہمارے میڈیا نے فاروق نائیک کو شریف الدین پیرزادہ کے نعم البدل کے طور پر آئینی جادو گر کہنا شروع کر دیا ہے،اس لئے ہمارے جیسے کمزور ایمان والے دعائیں کر رہے ہیں کہ اس مرتبہ گیارہ مئی ،دس مئی کے بعد ہی طلوع ہو جائے،کہیں یہ دن نکلنے میں پھر دس برس کا عرصہ نہ لے لے۔