ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ میں اپنے آبائی شہر بہاولپور میں مستقل طور پر قیام پزیر کیوں نہیںہوجاتی کیونکہ ہمہ وقت سفر کی حالت میں رہنا بھی آسان کام نہیں۔ اس پر میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ بہاولپور میں مجھے ایسا کوئی نہیں ملتا جس سے میں بات کرسکوں۔ اس بات کو لفظی معنوں میں نہ سمجھا جائے کہ میرا حلقۂ احباب نہ ہونے کے برابر ہے یا میںسماجی تعلقات قائم کرنے کے قابل نہیں ہوں، بلکہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آبائی شہر میں مجھے ویسا سماجی حلقہ میسر نہیں جس میں فہم و فراست رکھنے والے ہم خیال لوگ اپنی ذہنی صلاحیتوں کی آبیاری کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیں۔ کسی کیفے میںبیٹھ کر نیٹ برائوزنگ کرنا، کسی کتاب کا مطالعہ کرنا یا کسی جاننے والے یا دوست سے ملاقات کرنا یا کسی پررونق بازار میں خریدار ی کرنا یاونڈو شاپنگ سے ہی دل بہلانا اس سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے جو بظاہر دکھائی دیتا ہے۔ دراصل خوشی ان افعال میں نہیں بلکہ کسی بڑے شہر میں عوام کی بھیڑ میں کھوجانے میں ہے۔ چھوٹے قصبوںاور دیہات سے آنے والے افراد کو بڑے شہروںکی یہ خوبی بہت بھاتی ہے کہ وہاں آکر انسان ہجوم میں روپوش ہوجاتا ہے۔
شہروںکے پھیلائو کے نتیجے میں معاشی سرگرمیاں بڑھ گئیں اور اس کے نتیجے میںعوام کے لیے ترقی کرنے اور نسبتاً ایک محفوظ زندگی گزارنے کے مواقع میں اضافہ ہوا لیکن اگر ہم ان عوامل کو ایک لمحے کے لیے فراموش کرکے یہ دیکھیں کہ شہروںکی وجہ سے عوام کی سماجی زندگی میں بہتری آئی تو شہری زندگی کا یہ پہلو زیادہ پرکشش دکھائی دے گا۔ اس سماجی زندگی کا ایک اہم پہلو بہتر تعلیمی ادارے بھی ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ تک آمدورفت کی سہولت بھی۔ یہاںمیسر آنے والی سماجی آزادی ان بندھنوں سے رہائی دلادیتی ہے جس میں دیہات اور چھوٹے قصبوں میں کلچر اور رسوم و رواج کے نام پر انسان نے خود کو پابندِ سلاسل کیا ہوتا ہے۔ پنجاب میں سفر کرتے ہوئے مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہاں لوگ عام طور پر اپنی فیملیز کے ساتھ ریستورانوں میں نہیں جاتے، لیکن لاہور میں ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ وہاں لوگ اپنے جاننے والوںکی نظروںسے اوجھل رہ کر اپنی زندگی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ بڑے شہروں میں یہ احساس انسان کو اعتماد دلاتا ہے کہ یہاں کسی ریستوران میں آپ کو جاننے والا نہیں نکل آئے گا اور نہ ہی آپ کے ساتھ خواتین کو کوئی جاننے والا دیکھ پائے گا کیونکہ مردوںنے اپنی عزت کا شیش محل خواتین کے کندھوں پر تعمیر کیا ہوتا ہے۔
معاشرے میں جاننے والوں اور رشتے داروںسے دور رہنا سماجی سرگرمیوںمیں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ چھوٹے قصبوں اور دیہات میں، جوپاکستان میں ان گنت ہیں، اُس مکالمے کی جگہ نہیں بنتی جو سماجی ترقی کے لیے ضروری ہے کیونکہ، جیسا کہ میں نے پہلے کہا ،لوگ رسوم ورواج کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اور وہ ایسے رہتل(رہن سہن) میں موجود دوسروںکے ساتھ سماجی مکالمے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اُس ماحول میں احساس ِ تفاخر، عزت، انااو ر خوف اور بہت سے انسانی التباسات تبدیلی کے عمل سے نہیں گزرتے۔ چونکہ دیہاتی زندگی میں تمام افراد ایک دوسرے کو نسلوںسے جانتے ہیں، اس لیے وہ ان کے ساتھ طے شدہ سماجی روایات سے نکلنے اوراُنہیں تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہیںکرتے۔ اُن شہروں میں جو قصبوں اور دیہات سے ترقی پا کر شہربنے ہیں، بہت دیر تک دیہاتی رہتل کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا بڑھتا ہوا سائز ان بندھنوںکو توڑ کر سماجی ترقی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ بہت دیر تک پاکستان میں کراچی ہی حقیقی معنوں میں واحد شہرتھا، باقی سب شہر گائوں اور قصبوںسے ترقی پاکر شہر بنے تھے۔
حال ہی میں خاندان میں ہونے والی ایک شادی کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ میںنے محسوس کیا کہ وہاں سماجی مکالمے کی شدید کمی تھی کیونکہ سماجی ترقی اور تبدیلی کے راستے میں رفاقت امر ِمانع کا درجہ رکھتی ہے۔ خاندان کے بڑے‘ نوجوان نسل کو نئی طرز ِ زندگی اپنانے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھے کیونکہ وہ روایتی عزت اور انا کے جال سے باہر نہیں نکل پائے تھے۔ مثال کے طور پر خاندان کے ایک صاحب نے میوزک بینڈ پر شدید
اعتراض کیا حالانکہ اکثر فن کار ان کے بچوںکی عمر کے تھے۔ ایک اورصاحب نے، جن کا بیٹا اسی میوزک گروپ میں گاتا تھا، اپنی بیوی کو سخت پردے کا حکم دیا۔ یہ ایک مضحکہ خیز صورت ِ حال تھی کیونکہ میوزک بینڈکے فن کار اُنہیں ''اماں ‘‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ پردے کے تصور پر بھی مکالمے کی ضرورت تھی کیونکہ اس میں ''من پسند ‘‘ کا عامل حاوی تھا کیونکہ کھانا کھلانے والے ویٹرز کا تعلق قریبی گائوںسے تھا اور ان سے کسی نے بھی پردہ نہیںکیا۔ اس کے علاوہ یہی خواتین جب لاہور میںہوتی ہیں تو ان کو پردے میں نہیں دیکھا جاتا ۔ اس کا مطلب کہ وہ خود بھی پردہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیںکرتیں لیکن دیہات کی رسومات سے جان نہیں چھڑا پاتیں اور نہ ہی اس کے لیے کوئی مکالمہ کرتا ہے۔
اس سے مجھے یاد آتا ہے کہ مقامی اشراف اپنے علاقوںسے دور جاکرزندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ رجحان خاص طور پر جنوبی پنجاب میںنمایاںطور پر دیکھا جاسکتا ہے کیونکہ یہاں سماجی لچک نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگرچہ ہم اپنے معاشرے کے اشراف کو منفی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن حقیقت یہ کہ اس طبقے کی وجہ سے سماجی ترقی اور تبدیلی کا پہلو نکل آتا ہے کیونکہ ان میں رسوم ورواج کے بندھن سے آزاد ہونے کی ہمت اور مواقع موجود ہوتے ہیں۔ ہر معاشرے میں ایسا طبقہ ضرورموجود ہوتا ہے لیکن چھوٹے قصبوں میں تبدیلی کے عمل کی وضاحت دشوار ہوتی ہے۔ جنوبی پنجاب میںجاگیرداری اور روایات کا دہرا حصار رہتل کو گھیرے ہوئے
ہے۔جیسا کہ میں نے شادی کی مثال سے بتانے کی کوشش کی کہ آدمیوں کو اپنی جھوٹی انا کا زعم ہوتا ہے اورا س انا کی آبیاری جاگیردارانہ معاشرے میںہی ہوتی ہے کیونکہ وہاں ان سے مکالمہ کرنے والا کوئی نہیںہوتا۔
ایک مرتبہ مجھے مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے افراد سے بات کرنے کا اتفاق ہوا تو مجھے اندازہ ہوا کہ جاگیرداری ان کی زندگی کو کس طرح کنٹرول کرتی ہے۔ اس حقیقت سے، کہ حنا ربانی کھر بھی اپنے حلقے کے لوگوںسے براہ راست رابطہ نہیں رکھتیں ،اس کی بجائے ان کے حلقے میں ان کی طرف سے تمام تر سیاسی سرگرمیاں‘ ان کے والد اور دیگر مرد حضرات کے ہاتھوںانجام پاتی ہیں، بظاہر روشن خیال طبقے کی تنگ نظر ی آشکار ہوتی ہے۔ ان کے حلقے کے افراد کا کہنا ہے کہ مس کھر کے والد کے کارندے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ جب مس کھر (جب وہ حکومت میں تھیں) غیر ملکی وفود سے ملاقات کرتیں یا ان سے ہاتھ ملاتیں تو والد صاحب ٹی وی پر یہ منظر دیکھنے نہ پائیں۔ ان حالات میں کھر فیملی کی تعلیم یافتہ خواتین ایسی جگہ پناہ حاصل کرنا بہتر سمجھیں گی جہاں ان کو کوئی جانتا نہ ہو۔ یہ بات قابل ِ غور ہے کہ بندھن جاگیر داری ذہنیت کی پیداوار ہیں اور ان کا مقامی کلچر سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں عام افراد، مرد وخواتین، ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ چنانچہ اشراف کاتشریح کردہ عزت کا احساس ان کو عوام سے دور کردیتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ احساس نہیںکرپاتے کہ عوام کے ساتھ گھل مل کر رہنا بنیادی انسانی ضرورت بھی ہے اور اس کی کمی سے کسی بھی مقام کی ترقی مسدود ہوجاتی ہے، چنانچہ قید ِ مقام سے گزرنا ضروری ہوجاتا ہے۔