آئی ایس پی آر کے سابق ڈی جی کی طر ف سے بی بی سی کو دیے گئے حالیہ انٹرویو نے جنرل صاحب کی شہرت کو راتوں رات چار چاند لگادیے۔ اُن کی طرف سے فاش کردہ راز پر آنے والے کچھ دنوں تک بحث ہوتی رہے گی۔ کچھ حلقے ان پر غور و فکر بھی کرتے رہیں گے۔ چونکہ آج کل کوئی اور قابل ِ ذکر بریکنگ نیوز دستیاب نہیں، اس لیے ٹی وی چینلز اسے اپنے دسترخوان کے لیے نعمت ِ غیر مترقبہ سمجھیں گے۔ چونکہ طاہرالقادری کا ڈرامہ ختم ہوچکا اور شمالی وزیرستان میں ہونے والے آپریشن کی بہت کم معلومات دستیاب ہیں‘ سوائے ان کے جو عسکری ذرائع خود بتاتے ہیں‘ اس لیے میجر جنرل (ر)اطہر عباس کا انکشاف سکوت کی اس فضا میں ارتعاش پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔
یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ جنرل موصوف نے اس انکشاف کے لیے یہ وقت کیوں چنا؟ اس سے پہلے اُنھوںنے یہ بات کیوں نہیں کی ؟اس کی وجہ سرکاری راز افشاکرنے سے روکنے والا ضابطہ ہر گز نہیں تھا کیونکہ اُنہیں ابھی بھی ملازمت چھوڑے دوسال کا عرصہ نہیں گزرا ۔ ان کے اس انکشاف نے ذہن میں بہت سے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ یہ کہنا کہ جنرل کیانی آپریشن کے بارے میں تذبذب کا شکار تھے، کہیں اُن کے موجودہ آرمی چیف کے ساتھ موازنے کی کوشش تو نہیں؟یا پھر اس سے دو سابق جنرلوں، اشفاق کیانی اور پرویز مشرف کے درمیان تنائو کا اظہار تو نہیں ہوتا کیونکہ ان دونوں کے حامی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور اپنے اپنے جنرل کو بہتر ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ یا پھر یہ اس نئے نظریے کا اظہار تو نہیں جوکچھ عسکری حلقوں میں زیر ِ گردش ہے کہ دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ انتہا پسندی اور طالبان کے حوالے سے فوج کا فکری زاویہ تبدیل ہوچکا۔ درحقیقت بی بی سی کو دیے گئے انٹرویومیں آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، اس سے کہیں زیادہ گہرائی موجود ہے۔
ہم جانتے ہیں عسکری معاملات کلی طور پر جنرلوں کے ہاتھ میںہوتے ہیں اور سویلین قیادت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیںہوتا۔ سابق ڈی جی آئی ایس پی آرکے مطابق 2010ء میں یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ 2011ء میں اپریشن کیا جائے گا ، لیکن پھر جنرل کیانی ہچکچاہٹ کا شکار ہوگئے۔ اگرچہ میجر جنرل(ر) اطہر عباس کا دعویٰ ہے کہ اس کی وجہ امریکیوں کا دبائو تھا لیکن ان کا ہلکا سااشارہ حقانی نیٹ ورک کی طرف بھی تھا۔ہم اس سے یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سابق آرمی چیف کو احساس تھا کہ2014ء میں امریکی فورسز کے انخلاکے بعد وہ حقانی نیٹ ورک کی مدد کے بغیر افغانستان کو اپنے لیے محفوظ نہیں پائیں گے۔ یہ ''سٹریٹیجک گہرائی ‘‘ کے نظریے کا ہی کچھ تبدیل شدہ تصور ہے۔ اس کا مطلب کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں بھارتی حملے کی صورت میں پاکستانی فوج پیچھے ہٹ کر خود کو سنبھال سکے بلکہ اس سے مرادایک علاقہ ہے جویا تو جنگ کی صورت میں پاکستان کی مدد کرے یا پھر کم از کم ان ناگہانی حالات میں پاکستان کے لیے فوجی طور پر مشکلات پیدا نہ کرے۔ کیا بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو کے بعد ہم یہ باور کرلیں کہ یہ نظریہ ترک کردیا گیا ؟اس کا جواب نفی میںہوگا جب تک شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک اور اسی طرح کے دیگر انتہا پسند گروہوںکے خلاف کارروائی ہوتی نظر نہیں آتی۔
بنوں سے آنے والی تازہ ترین خبریں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ وہاں مذہبی اور انتہا پسند گروہ بھی امدادی کاموں میں حصہ لے رہے ہیں‘ ان رفاہی کاموں سے ان گروہوں کو موقع مل جائے گا کہ وہ آئی ڈی پیز کے دل میں اپنی جگہ بناتے ہوئے وہاں سے نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شامل کرلیں ۔ اس کے پیچھے کوئی قبائلی یا نسلی معاملہ نہیں بلکہ آئی ڈی پیز جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی طور پر ایسے گروہوں کے جال میں آسانی سے پھنس جاتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ لبرل جماعتیں اور این جی اوز کو وہاں اپنے ٹھکانے قائم کرنے اور کام کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ابھی ''سٹریٹیجک گہرائی ‘‘ کا تصور تبدیل ہونا باقی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس پالیسی کو کچھ عسکری مبصر تنقید کا نشانہ بنائیں لیکن اسے عملی طور پر ترک کیا جانا باقی ہے۔ ریاست کا کچھ مقاصد کے حصول کے لیے غیر ریاستی عناصر اور جنگجو گروہوں پر انحصار ابھی بھی ایک غالب فریم ورک کا حصہ ہے ۔ اس لیے ہم ابھی تک کنفیوژن کا شکار ہیں کہ یہ معاملہ کیا رخ اختیار کرے گا اور اس جنگ میں مصروف سینکڑوں فوجی جوانوں کا کیا بنے گا؟
لیکن اگر اس پالیسی میں واضح تبدیلی کرنی ہے تو حکومتِ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک نئی سمت اختیار کرنے کے معاملے کو زیر ِ بحث لائے اور سوچے کہ اگر پاکستان‘ حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان پر انحصار نہ کرے یا پاکستان میں مقیم جہادیوں کو افغانستان میں استعمال کرنے سے اجتناب کیاجائے تو پاکستان کے پا س کیا آپشنز ہوں گے؟اُس صورت میں پاکستان کے مفاد کا تحفظ کرنے والا یا اس کا پارٹنر کون ہوگا؟اگر افغانستان میں ہونے والے جمہوری عمل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرلیا جاے تو پھر اس بات کی یقین دہانی کون کرائے گا کہ پاکستان سے ناراض افغان اسلام آباد کے مفاد کو نقصان نہیں پہنچائیںگے؟ایک طویل عرصے سے راولپنڈی کی افغان پالیسی کا تعلق بھارتی پالیسی سے رہا ہے۔ جنرلوں کو اس بات پر فکر لاحق تھی کہ کابل میں بھارتی اثرو رسوخ کا توڑ کرنے کے لیے ہمارے پاس بھی کچھ قابلِ بھروسہ
پارٹنرز ہوں۔اب سوال یہ بھی ہے کہ آخر پاکستان کا مفاد ہے کیا؟اگر پاکستان کی افغان پالیسی میں بنیادی تبدیلی آتی ہے تو لامحالہ اس کو مشرق اور مغرب، دونوں سرحدوں کے حوالے سے پالیسی تبدیل کرنا ہوگی۔ درحقیقت اس کے لیے ہمیں اپنے تمام تر اسٹریٹیجک ڈھانچے اور اس کے تصورات کو تبدیل کرنا ہوگا۔
جہاں تک دیے گئے انٹرویو کا تعلق ہے، تو اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ 2010ء میں کیے گئے فیصلے پر نہ صرف فوجی افسران متفق تھے بلکہ سول حکومت کی بھی یہی مرضی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ فوج اس مہم کے فوائد اور اخراجات کا اندازہ لگاچکی تھی۔ کچھ ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی نے جنرل کیانی کو اس آپریشن کے پنجاب پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں بھی آگاہ کیا تھا کیونکہ بہت سے انتہاپسند گروہ اس سرزمین پر پروان چڑھتے ہیں؛ تاہم خلاصہ یہ ہے کہ ایک شخص کے فیصلے نے تمام عمل کو متاثر کیا۔ اسے فقید المثال ڈسپلن بھی کہا جاسکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ فوج بطور ادارہ خاموش ہو کر ایک شخص کے حکم کو بجالائی؛ حالانکہ اس کی وجہ سے فوج کو ان انتہا پسندوںکے خلاف کارروائی نہ کرنے کا الزام بھی اٹھانا پڑا۔ درحقیقت سب سے اہم سبق یہ ہے کہ اس طرح کے داخلی طور پر کیے گئے فیصلوں پر احتساب کا کوئی نہ کوئی نظام ضرور ہونا چاہیے۔ اس سے یہ فکربھی بیدار ہوتی ہے کہ آئندہ سول حکومت کو بھی دفاعی اداروں کے ساتھ ذکاوت ِ فکری کی راہ اپنانی چاہیے۔