میں نے گھبرا کر عارفِ ہندی سے پوچھا کہ آفت کی یہ گھڑی کب ٹلے گی اور کورونا کی مصیبت سے خلقِ خدا کو کب نجات ملے گی؟ جواب آیا جن لوگوں کیلئے میں نے خونِ جگر سے نالۂ دل بیان کیا تھا وہ نہ میرا کلام پڑھتے ہیں نہ اس پر غور کرتے ہیں۔ تمہارے سوال کا جواب میرے فارسی کلام میں موجود ہے۔ جب جاوید نامہ کی تھوڑی سی ورق گردانی کی تو گوہرِ مقصود ہاتھ آ گیا۔ مرشد اقبالؒ فرماتے ہیں۔؎
وقت؟ شیرینی بزہر آمیختہ
رحمت عمامے بقہر آمیختہ
خالی از قہرش بہ بینی شہرو دشت
رحمت او ایں کہ گوئی درگزشت
وقت کیا ہے؟ یہ زہر آلود شیرینی ہے وقت ایک رحمت ہے جو قہر کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔اس کے قہر سے تم دیکھتے ہو کہ شہر اور دشت سب خالی ہو گئے رحمت کا پہلو یہ ہے کہ آخر کہتے ہو چلو گزر ہی گیا بڑا سخت وقت تھا۔ مرشد کا تسلی آمیز جواب سن کر میں اس کتاب کی طرف متوجہ ہوا جہاں سے اقبال شمسی توانائی اور دانشِ نورانی حاصل کرتے تھے۔ دیکھئے سورۃ القصص کی 71ویں اور 72ویں آیت میں گزرتے وقت کی کیا دل نشیں تصویر کشی کی گئی ہے:''اے نبیؐ‘ ان سے کہو کبھی تم لوگوں نے غور کیا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کیلئے رات طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہیں روشنی لا دے؟ کیا تم سنتے نہیں‘ سو ان سے پوچھو‘ کبھی تم نے سوچا کہ اگر اللہ قیامت تک ہمیشہ کیلئے دن طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہیں رات لا دے تاکہ تم اس میں سکون حاصل کر سکو؟ کیا تم کو سوجھتا نہیں‘‘۔
وقت ایک بہتا ہوا سمندر ہے جو ازل سے ابد تک بہتا چلا جا رہا ہے۔ ہم نے اپنی سہولت کیلئے وقت کوناپنے کیلئے لمحوں‘ گھنٹوں‘ سالوں اور صدیوں کے پیمانے بنا رکھے ہیں وگرنہ وقت کو ماضی‘ حال اور مستقبل سے سروکار نہیں وہ رواں دواں ہے اور گزرتا جا رہا ہے اور یہی وقت کا سب سے اچھا پہلو ہے کہ وہ ٹھہرتا نہیں‘ یہ رحمت ِایزدی ہے کہ دن ٹھہرتا ہے نہ رات ٹھہرتی ہے اور نہ ہی قہر آلود لمحات ٹھہرتے ہیں۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے بھی بہت پہلے اسی حقیقت کی نشاندہی کی تھی؎
وہ تو کہئے کہ گزر کر خس و خاشاک ہوئے
ورنہ سنگین تھی حالات کی صورت کیا کیا
اقبال کی عظمت اور اس کی ہمہ پہلو شخصیت کو اس کی اپنی قوم نے ابھی تک نہیں پہچانا‘ جبکہ عالمِ عرب اور عالمِ فارسی اسے حکیم الامت تسلیم کرتے ہیں اور دانش گاہوں سے لے کر منبر و محراب تک اس کے گن گاتے ہیں۔ اقبال یقینا حکیم الامت تھے۔ وہ نبض شناس بھی تھے‘ مردم شناس بھی تھے اور تاریخ شناس بھی تھے۔ اقبال اپنی قوم کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کے روگ کی نشاندہی فرماتے رہے اور اسے یاد دلاتے رہے کہ وہ احساسِ کمتری سے تب نجات پائے گی جب وہ مغرب کی نقالی ترک کر کے اس عظیم ورثے کی طرف متوجہ ہوگی جس ورثے سے اس کے آراء کو قوموں کی امامت عطا کی تھی۔
متحدہ ہندوستان میں آنے والے طوفانوں کا بہت پہلے اندازہ لگا کر 1930ء ہی میں اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ وطن کا تصور اور اس کی عملی تصویر بھی پیش کر دی تھی‘ پھر علامہ کی مردم شناسی کا اندازہ لگائیے کہ انہیں حق الیقین تھا کہ اس کارِ عظیم کو انجام دینے کیلئے محمد علی جناحؒ کی قیادت ہی موزوں ترین ہے۔ اسی لیے اقبال محمد علی جناح کو خطوط لکھ کر لندن سے واپس ہندوستان آنے پر آمادہ کرتے رہے۔ بالآخر محمد علی جناح واپس ہندوستان تشریف لائے اور انہوں نے مسلمانانِ ہند کی موجوں اور طغانیوں میں گھری ہوئی کشتی کو ساحل مراد تک پہنچایا۔ ذرا یہ منظر ملاحظہ کیجئے؛ 9ستمبر 1931ء کو علامہ اقبال صبح ساڑھے سات بجے دہلی سٹیشن پہنچے جہاں مولانا سید احمد امام جامع مسجد دہلی کی قیادت میں زعمائے شہر اور ہزاروں کا مجمع اُن کے استقبال کیلئے موجود تھا۔ بعد ازاں مولانا سید احمد نے صوبہ مسلم کانفرنس کی طرف سے سپاسنامہ پڑھ کر سنایا۔ اقبال نے سپاسنامہ کے جواب میں ایک مدلل اور جذباتی خطاب فرمایا اور کہا کہ ''اگر لندن کانفرنس میں بنگال اور پنجاب کی اکثریت اور مسلمانوں کے دیگر مطالبات کو تسلیم نہ کیا گیا تو جو دستور اساسی بھی ہندوستان کو دیا جائے گا‘ مسلمانانِ ہند اس کے پرخچے اڑا دیں گے۔ سن رسیدہ نسل نے نوجوانوں کو اپنی جانشینی کے لئے تیار کرنے کا کام جیسا چاہیے تھا ہرگز نہیں کیا لندن میں نوجوانوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ قرآن پاک کی تعلیمات اور اسوئہ حسنہ کو پیش نظر رکھیں۔ (نعرہ تکبیر‘ اللہ اکبر)
نوجوانوں کی قرآنی تعلیمات سے وابستگی کی ضرورت اور مستقبل کی جدید اسلامی فلاحی ریاست کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ نے حیدر آباد دکن سے مولانا مودودی کو پنجاب آ کر آباد ہونے کی دعوت دی۔ علامہ اقبال کے مشورے سے چودھری نیاز علی ایک ایسا ادارہ بنانا چاہتے تھے جہاں اہل علم شہروں کی رونقوں اور دل چسپیوں سے دور نہایت محنت و لگن کے ساتھ اسلامی فقہ کی تدوین جدید کر سکیں۔ چودھری نیاز علی نے مارچ 1936ء میں پٹھانکوٹ ضلع گورداسپور پنجاب میں اس کارِ خیر کیلئے 60ایکڑ زمین وقف کر دی۔ میں ماہر اقبالیات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے اُن مصادر تک نہایت فراخدلی کے ساتھ رسائی بہم پہنچائی جن میں براہ راست معلومات موجود ہیں۔ علامہ کے مشورے سے اس مجوزہ ادارے کا نام ''دارالاسلام‘‘ تجویز کیا گیا تھا۔ 1937ء میں علامہ اقبال نے چودھری نیاز علی سے فرمایا کہ ''حیدر آباد سے ترجمان القرآن کے نام سے ایک بڑا اچھا رسالہ نکل رہا ہے مودودی صاحب اس کے ایڈیٹر ہیں‘ میں نے اُن کے مضامین پڑھے ہیں۔ دین کے ساتھ ساتھ وہ مسائل حاضرہ پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ اُن کی کتاب ''الجہاد فی الاسلام‘‘ مجھے بہت پسند آئی ہے۔ آپ کیوں نہ انہیں دارالاسلام آنے کی دعوت دیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ دعوت قبول کر لیں گے؛ چنانچہ علامہ اور چودھری نیاز علی کی گفتگو کے حوالے سے سید نذیر نیازی صاحب نے علامہ کی طرف مولانا مودودی کو خط لکھا۔ ''ڈاکٹر صاحب کی طبیعت سخت خراب ہے اور وہ آپ سے ملنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ آپ کیلئے ممکن ہو تو فوراً تشریف لے آئیں‘‘۔ چودھری نیاز علی 1937ء میں دہلی میں مولانا مودودی سے کئی بار اس منصوبے کے سلسلے میں ملاقاتیں کرتے رہے۔ مولانا چودھری نیاز علی کے ہمراہ پہلے پٹھانکوٹ اور پھر لاہور تشریف لائے جہاں مسلسل تین روز تک اُن کی علامہ اقبالؒ کے ساتھ ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ان ملاقاتوں کے نتیجے میں مولانا مودودی مارچ 1938ء میں پٹھانکوٹ منتقل ہو گئے‘ مولانا لاہور آ کر علامہ اقبال سے ایک اور ملاقات کرنا چاہتے تھے مگر اسی اثنا میں 21اپریل کو علامہ رحلت فرما گئے۔
تاہم مولانا مودودیؒ نے پٹھانکوٹ میں تصنیف و تالیف کا کام شروع کردیا۔ وہ ایک وقفے کے علاوہ پٹھانکوٹ میں اگست 1947ء تک مصروف عمل رہے۔ علامہ اقبال کے وژن کے مطابق مولانا مودودی اسلامی تعلیمات کی تعبیر نو جدید پیرایہ اظہار میں فرماتے رہے اسی دوران اگست 1941ء کو جماعت کی تاسیس ہو گئی۔ مولانا مودودی نے نہایت جرأت مندی کے ساتھ مسلمانانِ ہند کو حقیقی اسلام کی طرف بلایا۔ قیامِ پاکستان کے بعد مولانا نے جدید اسلامی فلاحی ریاست کے خاکے میں رنگ بھرنے کیلئے بڑے واضح انداز میں کام کا آغاز کیا۔ مولانا مودودی نے پاکستانی عوام اور بالخصوص تعلیم یافتہ طبقے اور نوجوانوں کی خصوصی تعلیم و تربیت پرتوجہ دی۔ مولانا ذہن سازی‘ افراد سازی اور کردار سازی کے ذریعے ایک ایسی قوم تیار کرنا چاہتے تھے کہ جو دورِ جدید میں راست گوئی‘ دیانتداری اور باہمی ایثار و ہمدردی کا اعلیٰ اسلامی شاہکار ہو۔ چند سالوں میں مولانا اور جماعت اسلامی کی شبانہ روز محنت رنگ لائی ...
اور اقبال کا مردِ مومن کوچہ و بازار سے لے کر حکومتی اور عدالتی ایوانوں تک نظر آنے لگا۔ حکمرانوں کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی لہٰذا قدم قدم پر خود پسند حکمرانوں نے جماعت ِاسلامی کے راستے میں کانٹے بچھائے اور روڑے اٹکائے۔ مولانا مودودی کو پھانسی گھاٹ تک پہنچایا گیا اور اُن کے ساتھیوں کو جیلوں کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں ڈالا گیا۔ اس کے باوجود آج تک جماعت اسلامی کے مردانِ کار کو دیانت و امانت کی مثال سمجھا جاتا ہے۔ اگر مولانا اور اُن کی جماعت کو اقبال کے وژن کے مطابق آزادانہ کام کرنے دیا جاتا تو آج یہ ہجوم قوم منظم بن چکا ہوتا۔آج 21اپریل 2020 ء کو علامہ اقبال کا اپنی قوم کیلئے وہی پیغام ہے جو انہوں نے 10ستمبر 1931ء کو بمبئی میں عطیہ فیضی کی چائے پارٹی میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے دیا تھا۔
چناں بزی کہ اگر مرگ ماست مرگ دوام
خدا زکردئہ خود شرمسار تر گردد!
زندگی ایسی خوب صورتی سے گزارو کہ اگر موت ہی سب کا انجام ہے تو خدا کو تمہاری زندگی ختم کرنے پر خود شرمندگی اٹھانی پڑے۔