میں اِن دنوں والدِ گرامی مولانا گلزار احمد مظاہری کی ''رودادِ قفس‘‘ کے نام سے جیل میں لکھی ہوئی ڈائری مرتب کر رہا ہوں۔ جنرل ایوب خان نے مارشل لاء 1958ء میں لگایا اور پھر 1962ء میں اپنی مرضی کا دستور نافذ کرکے مارشل لاء اٹھا لیا‘ مگر طریق کوہکن میں بھی وہی پرویزی حیلے برقرار رہے۔ دستور میں محدود و مجبور سی جمہوریت کی اجازت دینے کے باوجود ایوب خانی آمریت عروج پر تھی۔ حکومت نے 1963ء میں جماعت اسلامی کو لاہور میں بغیر لائوڈ سپیکر جلسہ کرنے کی اجازت دی اور پھر جماعت اسلامی نے تمام قوانین کی پوری پابندی کی۔ اس کے باوجود حکومت نے غنڈوں کے ذریعے جماعت اسلامی کے جلسے پر حملہ کروایا اور ایک کارکن کو شہید کروا دیا۔
جب جماعت اسلامی لالچ و خوشامد کے کسی سنہری جال میں گرفتار ہوئی اور نہ ہی اس پر دھونس کا کوئی حربہ کارگر ہوا تو اُس وقت حکومت کی حالت اُس کھسیانی بلی جیسی ہو گئی جو بوکھلاہٹ میں کھمبا نوچنے پر اُتر آتی ہے۔ حکومت نے 6 جنوری 1964ء کو جماعت اسلامی کو خلافِ قانون قرار دے دیا اور اس کے مشرقی و مغربی پاکستان کے 50 ارکان مجلس شوریٰ کو مختلف زندانوں میں بھیج دیا۔ والد محترم مولانا مظاہری کو بھی اسی روز گرفتار کر لیا گیا اور ڈسٹرکٹ جیل لائل پور (فیصل آباد) پہنچا دیا گیا۔ وہیں والد صاحب نے اپنی ڈائری کے اکثر اوراق قلم بند کیے۔ اگرچہ اسیرانِ چمن 6 جنوری سے 9 اکتوبر 1964ء تک پس دیوارِ زنداں رہے اور یہ ڈائری بھی زیادہ تر انہی ایام کی ہے مگر بعد میں ڈائری کے جو اوراق ہمیں دستیاب ہو سکے وہ 24 دسمبر 1964ء تک کے ہیں۔ ان میں اہم ترین صفحات وہ ہیں جو اواخر نومبر اور اوائل دسمبر 1964ء تک والدِ گرامی نے مشرقی پاکستان (حال بنگلہ دیش) میں تحریر کیے۔ ان اوراق سے آپ کو سقوطِ ڈھاکہ سے صرف 6 برس قبل مشرقی پاکستان کا منظرنامہ دیکھنے کو ملے گا۔
مولانا گلزار احمد مظاہری جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ جمعیت اتحاد العلما پاکستان کے ناظم اعلیٰ بھی تھے۔ وہ 27 نومبر 1964ء کو اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں ''مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی معیت میں مشرقی پاکستان کے دورے کا پروگرام ہے۔ آج اڑھائی بجے لاہور سے ہمارا جہاز اڑتیس ہزار فٹ کی بلندی پر بادلوں سے بھی اوپر پرواز کرتے ہوئے تقریباً 5 بجے شام کے قریب ڈھاکہ ایئرپورٹ پر اُتر گیا۔ ہوائی اڈے پر ہزاروں افراد مولانا مودودی کے استقبال کیلئے جمع ہیں۔ ایئرپورٹ کی چھتیں بھی جم غفیر سے بھری ہوئی ہیں۔ فلک شگاف نعرے لگ رہے ہیں۔ دل باغ باغ ہوگیا کہ مغربی پاکستان ہو یا مشرقی ہر جگہ محبت کرنے والے موجود ہیں‘‘۔ مولانا مظاہری 29 نومبر 1964ء کو اپنی ڈائری میں تحریر کرتے ہیں ''آج ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جلسۂ عام ہے۔ ٹھیک 4 بجے مقررہ وقت پر جلسہ کی کارروائی کا آغاز ہوا۔ پچیس تیس ہزار کی حاضری ہوگی۔ چند منٹ میرا خطاب ہوا۔ مولانا مودودی کی تقریر بڑی خاموشی اور سنجیدگی سے سنی گئی۔ مولانا پندرہ منٹ تقریر کرتے‘ پھر پروفیسر غلام اعظم اس کا ترجمہ کرتے تھے۔ سامعین کا تقریر کے اختتام تک انہماک اور جوش و خروش دیدنی ہوتا تھا‘‘۔
ذرا چشم تصور سے سوچئے کہ یہی مولانا مودودی صرف 6 برس بعد 1970ء کے عام انتخابات سے تین چار ماہ قبل ڈھاکہ پہنچے تو شہر کا ہی نہیں سارے صوبے کا منظرنامہ خاصا بدل چکا تھا۔ مولانا پلٹن میدان کے جلسہ عام سے خطاب کرنے کیلئے اپنی رہائش گاہ سے روانہ ہوئے تو راستے میں اُن کے قافلے کو عوامی لیگ کے مسلح کارکنوں نے روک لیا۔ جماعت اسلامی کے دو کارکنان کو شہید کر دیا اور بہت سے لوگوں کو زخمی کر دیا۔ عوامی لیگ کے منہ زور کارکنوں نے مولانا مودودی کو پلٹن میدان پہنچنے ہی نہ دیا۔
اگرچہ سقوطِ ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان کی ٹریجڈی اور پاکستان کے دولخت ہونے پر کئی کتابیں تحریر کی گئی ہیں؛ تاہم محققین و مؤرخین کو 1964ء سے لے کر 1970ء تک کے 6 برس کا انتہائی غیرجانبدارانہ جائزہ لینا اور بنظرِ عمیق تجزیہ کرنا چاہئے کہ صرف 6 سال قبل جو قوم دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے تھی وہ چند برس کے بعد بات سننے کو تیار نہ تھی۔ بلاشبہ جماعت اسلامی کے کارکنان تو اسی طرح اپنے قائد کے لیے محبت و احترام کے جذبات سے لبریز تھے مگر عمومی فضا کیوں بدل گئی تھی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو یہ حقیقت آپ کے سامنے آئے گی کہ قائداعظم کے بعد ہر حکمران‘ چاہے وہ سیاسی حکمران تھا یا عسکری‘ کی اوّل و آخر ترجیح ملک کا استحکام نہیں اس کا ذاتی استحکام تھا۔ اگرچہ 1950ء سے ہی مشرقی پاکستان کی صنعتی ترقی کے لیے کئی منصوبے شروع کیے گئے تھے‘ ایک بہت بڑا ڈیم تعمیر کر دیا گیا تھا‘ چٹاگانگ میں ریفائنری قائم کر دی گئی تھی‘ اصفہانی اور آدم جی نے مشرقی پاکستان میں حکومتی حوصلہ افزائی سے بہت بڑے منصوبے شروع کر دیئے تھے‘ نرائن گنج میں 1950ء میں ہی دنیا کا جیوٹ کا سب سے بڑا کارخانہ وجود میں آ گیا تھا؛ تاہم پروپیگنڈا یہ شروع کردیا گیا کہ مشرقی پاکستان کی خون پسینے کی کمائی سے مغربی پاکستان بالخصوص اسلام آباد گلچھرے اڑاتا ہے۔
آج ہمیں ذرا پیچھے مڑ کر مارچ 1971ء اور اپریل 2010ء کا موازنہ کرنا چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ مارچ 1971ء میں 6 نکات پر کیوں افہام و تفہیم نہ ہو سکا جبکہ اپریل 2010ء میں صوبوں کو خود مختاری دینے والی 18ویں ترمیم کثرت رائے سے منظور ہو گئی۔ 2010ء میں معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہوگیا جبکہ مارچ 1971ء میں ہمیں آگ اور خون کے دریا سے کیوں گزرنا پڑا؟ ہم نے کیوں دشمنوں کو موقع دیا کہ وہ مقامی آبادی کے ساتھ مل کر پاکستان کو دولخت کریں۔ ہمارے تجزیے کے مطابق مشرقی پاکستان کے جمہوریت پسند عوام طویل آمریت سے بیزار ہو چکے تھے۔ جب ایوب خان کے اقتدار سے دستبردار ہونے کے بعد ایک تازہ دم جرنیل آکر اقتدار پر قابض ہو گیا تو عوام بہت گھبرائے مگر جب یحییٰ خان نے براہِ راست انتخابات کا اعلان کیا تو لوگ مطمئن ہوگئے۔ اس دوران عوامی لیگ نے مغربی پاکستان کے خلاف جذبات کو بھڑکایا‘ انتخابی مہم میں من مانی کی اور مشرقی پاکستان سے تقریباً تمام نشستیں جیت لیں‘ جبکہ مغربی پاکستان کی سیٹوں میں سے ایک معتدبہ حصہ پیپلز پارٹی کو ملا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے کسی بھی طرح کے اقتدار کو اپنا مطمح نظر بنا لیا اور سیاست کو شطرنج کی بازی سمجھتے ہوئے چالیں چلیں۔
سوال یہ ہے کہ صوبائی خودمختاری اور وسیع تر اختیارات 1971ء میں مشرقی پاکستان کو کیوں نہ دیئے جا سکے اور ملک دولخت کر دیا گیا۔ اپریل 2010ء میں ملتے جلتے اختیارات اٹھارہویں ترمیم میں چاروں پانچوں صوبوں کو کیسے دیئے گئے اور کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوا۔ 2010ء میں کسی حد تک جمہوریت تھی اور سیاسی پارٹیوں کے درمیان افہام و تفہیم تھی جس کے نتیجے میں سیاسی صدر نے آمروں کا اپنے لیے پارلیمنٹ توڑنے کا اختیار خود واپس کیا جبکہ 1971ء میں ایک آمر نے اپنا رعب و دبدبہ قائم رکھنے کی خاطر پہلے قومی اسمبلی کا اوائل مارچ کا اجلاس ملتوی کیا اور پھر 25 مارچ 1971ء میں اپنے ہی ملک کے شہریوں کے خلاف خوفناک مسلح ایکشن کیا۔
بہتر ہے آج کے حکمران سیاسی مخالفین کو دھمکانے سے اجتناب کریں۔ انہیں اس صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں جہاں اُن کی حکومت نہیں۔ ہمیں اپنی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے کہ جمہوری راستہ چھوڑ کر جب آمرانہ روش اختیار کی جاتی ہے تو دو چار برس میں ہی المیے جنم لے لیتے ہیں۔ اللہ ہمیں ہر طرح کی ٹریجڈی سے محفوظ رکھے۔