پہلے تو میں اپنے ینگ قارئین کو یہ بتا دوں کہ بہت سال پہلے پاکستان میں رائج حساب کے مطابق ایک روپے میں 16آنے اور 64پیسے ہوا کرتے تھے۔ اُن دنوں چھوٹے موٹے ریسٹورنٹس میں بل نہ بنتے بلکہ ہر میز کا ویٹر کاؤنٹر پر بیٹھے صاحب کو بآواز بلند بتاتا کہ گاہک نے کیا کھایا اور اُن کا کتنا بل ہے۔ وہیں سے یہ محاورہ مشہور ہوا کہ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔
اب آئیے براڈ شیٹ کی طرف۔ قارئین میں بڑا تجسس ہے کہ یہ قصہ ہے کیا۔ 2000ء میں جنرل پرویز مشرف ملک کے حکمران تھے اور نیا نیا نیب وجود میں آیا تھا۔ جنرل صاحب نامرغوب سیاست دانوں اور سول‘ فوجی افسروں کے گرد شکنجہ کسنے کیلئے نیب سے کام لینا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنے تئیں اِن شعبوں سے تعلق رکھنے والے 200 کرپٹ افراد کی لسٹ تیار کروائی۔ نواز شریف اینڈ فیملی اس لسٹ میں سرفہرست تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے نیب کے ذریعے برطانیہ کی براڈ شیٹ نامی ایک مالیاتی سراغ رساں کمپنی کے سپرد اِن لوگوں کی فہرست کی اور انہیں یہ ہوم ورک دیا کہ وہ ان لوگوں کے بیرون ملک اثاثوں اور جائیدادوں وغیرہ کا کھوج لگائے۔
جب میاں نواز شریف دس سالہ جلاوطنی پر سعودی عرب چلے گئے تو براڈ شیٹ نے اپنے بڑے شکار کے منظر سے غائب ہونے پر نیب سے کیا گیا معاہدہ توڑ دیا اور نیب و حکومت پاکستان کے خلاف بھاری ہرجانے کا برطانوی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ اس دوران کئی برس تک خاموشی طاری رہی مگر اب یکایک لندن کی ایک عدالت کے فیصلے کی روشنی میں اس مالیاتی سراغ رساں کمپنی کے تیزو طرار منتظم اعلیٰ کاوے موسوی کو 28ملین ڈالر بھاری ہرجانہ ادا کردیا گیا ہے۔ موسوی صاحب نے اپنا مطلب نکالنے کے بعد حکومت پاکستان کو ایک اور سبز باغ دکھایا کہ سعودی عرب سے ایک بلین ڈالر سنگاپور کے ایک بینک میں منتقل کئے گئے ہیں۔ موسوی نے کہا کہ اُن کے خیال کے مطابق یہ رقم میاں نواز شریف کی ہے۔ اگر حکومت پاکستان چاہے تو وہ یہ رقم انہیں واپس دلاسکتے ہیں۔عجلت پسند اور ا پوزیشن مخالف حکومت نے یہ تو سوچا ہی نہیں کہ اس شخص نے ایک پیسے کے کسی فارن اکاؤنٹ کا تو کوئی سراغ لگایا نہیں اور ہم سے 28ملین ڈالر نکلوا کر ا پنی جیب میں ڈال لئے اور اب وہ ھل من مزید کے چکر میں ہے۔ البتہ اس سیکنڈل میں پی ٹی آئی دوسروں کی عیب جوئی کرتے کرتے خود کٹہرے میں کھڑی نظر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ 28ملین ڈالر کی بھاری رقم پاکستانی ہائی کمیشن لندن کیسے پہنچی‘ کس کے حکم سے پہنچی‘ کیا وزیر خزانہ اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کو اس کی اطلاع تھی؟ مزید حیرت ناک اور تشویشناک بات یہ بھی سننے میں آئی ہے کہ لندن کورٹ کے فیصلے سے قبل ہی پیشگی یہ رقم لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ میں منتقل ہو چکی تھی۔ گویا ہم سائل کے مطالبے سے پہلے ہی مائل بہ کرم تھے۔ کاوے موسوی نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اسے کچھ حکومتی شخصیات کے علاوہ ایک پاکستانی جنرل بھی لندن میں کئی بھاری فائلوں سمیت ملے اور انہوں نے مزید کئی مقدمات دینے کی پیشکش کی مگر ان کا مطالبہ یہ تھا کہ میں انہیں یہ بتاؤں کہ اُن صاحب کا حصہ کتنا ہوگا؟ موسوی کے بقول: میں نے اُن کو بتایا کہ ہم اس طرح کے لین دین پر یقین نہیں رکھتے۔
حکومت پاکستان کو فی الفور ایک انکوائری کروانی چاہئے جس سے یہ معلوم کیا جا سکے کہ موسوی کی باتوں میں حقیقت کتنی اور افسانہ کتنا ہے۔ نیز حکومت کو چاہئے کہ وہ پاکستانی عوام کو بھی اعتماد میں لے اور انہیں بتائے کہ لندن کورٹ کا فیصلہ کیا تھا؟ یہ بھی بتائے کہ موسوی کو بغیر کسی کارکردگی کے بلا چون و چرا تین کروڑ ڈالر کیوں ادا کئے گئے‘ نیز یہ بھی جاننا عوام کا حق ہے کہ پاکستانی ہائی کمیشن لندن میں یہ خطیر رقم کس کے حکم سے اور کس کے ذریعے سے منتقل کی گئی اور سب سے سے ا ہم یہ بات بتانے کی ہے کہ کون سی شخصیات نے کاوے موسوی سے خفیہ ملاقاتیں کیں۔ ابھی تک تو صرف یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ براڈ شیٹ نے کسی پاکستانی اثاثے کا سراغ لگائے بغیر پاکستان سے تین کروڑ ڈالر وصول کر لئے۔ گویا ہم نے...
کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے
ابھی براڈ شیٹ کے معاملے کی دھول بیٹھی نہیں کہ ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں پاکستان کو ایک اہانت آمیز واقعے کا سامنا کرنا پڑا۔ پی آئی اے کے بوئنگ طیارے 777 کو عین اڑان سے پہلے وہاں روک لیا گیا۔ مسافروں کو اتار لیا گیا۔ جہاز خالی کرانے کے بعد بتایا گیا کہ آپ نے لیز پر لئے گئے دو جہازوں کی مطلوبہ رقم لیزنگ کمپنی کو ادا نہیں کی اس لئے ان دونوں جہازوں میں سے ایک یہاں آیا توعدالتی حکم پر اسے روک لیا گیا۔پی آئی اے کے ترجمان کی وضاحت کے مطابق ایک برطانوی جہاز لیزنگ کمپنی اور پی آئی اے کے درمیان 14ملین ڈالر کی ادائیگی کا ایک مقدمہ ایک برطانوی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ 6ماہ سے پی آئی اے نے لیز کی رقم بھی ادا نہیں کی اور جہازوں کو بھی زیر استعمال رکھا ہوا ہے۔ پاکستانی ترجمان کا کہنا یہ ہے کہ کورونا کی وجہ سے بزنس بہت مندا تھا اس لئے ہم نے برطانوی عدالت کے ذریعے لیز کی رقم کم کروانے یا کچھ عرصے کیلئے معطل کرنے کی درخواست دائر رکر رکھی تھی۔ یہ لیزنگ کمپنی کئی ماہ سے ملائیشیا میں پاکستانی ہائی کمیشن کو نوٹس دیتی رہی کہ ہماری لیزنگ فیس ادا کریں نہیں تو ملائیشیا آنے کی صورت میں ہم جہاز پر عدالت کے ذریعے قبضہ بھی کرسکتے ہیں۔ اس بات کو پاکستان میں کسی نے سیریس لیا اور نہ ہی ملائیشیا میں موجود پاکستانی ہائی کمیشن نے شاید اس معاملے کی شدت اور اہمیت سے حکومت پاکستان کو آگاہ کیا۔شاید حکومت پاکستان نے یہ سمجھا تھا کہ برطانیہ کی عدالتیں بھی اُن کی خواہشات کے تابع ہوں گی‘ نیز ملائیشیا میں کوئی ہمارے جہاز کو نہیں روک سکے گا۔ ہم نے اگرجہاز کا چھ ماہ تک طے شدہ کرایہ ادا نہ کیا توکیا ہوا۔
جہاز کے روکے جانے کا واقعہ ہماری قانونی‘ انتظامی اور بدترین سفارتی ناکامی ہے۔سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ حکومت معیشت میں ناکام‘ گورننس میں ناکام‘ لوگوں کو ریلیف دینے میں ناکام‘ قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام‘ بروقت ویکسین کا آرڈر دینے ا ور اس کیلئے ضروری فنڈز فراہم کرنے میں ناکام‘ آٹے ‘چینی اور ایل این جی سیکنڈلز کی روک تھام کرنے میں ناکام اور تو اور لاہور کی سڑکوں سے کچرا اٹھانے میں ناکام کیوں نظر آتی ہے؟ اس کا ایک جواب تو خود جناب وزیراعظم نے وزیروں مشیروں کو خطاب کرتے ہوئے دیا تھا کہ اب غلطی کی گنجائش نہیں مگروزیراعظم نے یہ تجزیہ نہیں فرمایا کہ اُن سمیت اُن کی تمام کابینہ پے بہ پے غلطیاں کیوں کرتی جا رہی ہے؟اس کا سبب یہ ہے کہ جناب وزیراعظم اپوزیشن دشمنی اور اُن کا کچا چٹھا کھولنے کو ہی پسے اور سسکتے ہوئے عوام کے جملہ مسائل کا حل سمجھتے ہیں اور رات دن اسی ''کارِ خیر‘‘ میں مصروف رہتے ہیں۔ اُن کی دیکھا دیکھی وزیر خارجہ‘ وزیرریلوے‘ وزیر داخلہ‘ وزیر ہوا بازی‘ وزیراطلاعات‘ وزیر منصوبہ بندی وغیرہ وغیرہ کے اپوزیشن کو برا بھلا کہنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کرتے۔ اس لئے ہرکام چوپٹ ہے۔ گویا یہ حکومت عوام کے کھانے پینے کا بندوبست کئے بغیر گلاس پر گلاس توڑے جا رہی ہے اور اُن کے جرمانے اور ہرجانے اداکیے جا رہی ہے نیز آئے روز پٹرول‘ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھاتی چلی جا رہی ہے۔