مجھے کس بات پہ رونا آیا

شیخ توقیر احمد سے شناسائی تو سکول کے زمانے سے ہی تھی مگر دوستی گورنمنٹ کالج سرگودھا میں ہوئی۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اقتصادیات میں پہنچ کر یہ دوستی گہری رفاقت میں بدل گئی۔ 1970ء کی دہائی میں سرگودھا سے لاہور آئے تو ہمیں ایم اے کے سال اوّل میں نیو کیمپس کے ہوسٹل میں داخلہ ملا۔ ہم دونوں کو ماڈل ٹائون میں یونیورسٹی کے زیر اہتمام جس کرائے کے ہوسٹل میں جگہ ملی اس کے وارڈن معروف اینکر حامد میر کے والد پروفیسر وارث میر تھے۔ شیخ توقیر احمد بہت عرصہ شہر اقتدار میں اہل اقتدار کے ساتھ مختلف سرکاری حیثیتوں میں فرائض منصبی انجام دیتے رہے۔ بحیثیت ایڈیشنل سیکرٹری ریٹائر ہوئے تو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کراچی کے ڈائریکٹر ہوگئے۔ گزشتہ برس کورونا سے اُن کی بیگم صاحبہ انتقال کر گئیں۔ ان دنوں شیخ صاحب زیادہ تر یادِ خدا میں محو رہتے ہیں۔ ہم سے پہلے اگلی دنیا میں پہنچ جانے والے دوستوں کو دعائے نیم شبی میں بادیدۂ تر یاد کرتے ہیں اور اس دنیا میں باقی رہ جانے والے دوستوں کو روزانہ صبح امن و سلامتی اور خوشحالی کی دعا دیتے ہیں۔
شیخ صاحب روٹین میں کوئی ویڈیو یا کوئی چٹخارے دار پوسٹ فارورڈ نہیں کرتے البتہ کبھی کبھار کوئی اہم ویڈیو واٹس ایپ کر دیتے ہیں۔ اُن کی ویڈیو کو میں ضرور دیکھتا ہوں کیونکہ اس میں کوئی ایسی خبر ہوتی ہے جو آپ کے دل کی دنیا میں ہلچل مچا دیتی ہے۔ آج جو ویڈیو شیخ صاحب نے بھیجی ہے اس میں ایک ہندو پروفیسر نے حق گوئی کا حق ادا کرتے ہوئے نہایت دل سوزی اور دردمندی کے ساتھ بتایاکہ اُن کی ایک کمیٹی نے بچشمِ خود آسام کے مسلمانوں پر ڈھائی جانے والی قیامت سے ہونے والی تباہی و بربادی کو دیکھا ہے۔ شستہ انگریزی میں اس خاتون نے دنیا کو بتایاکہ گزشتہ ہفتے آسام کی پولیس نے بغیر کسی نوٹس اور بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اچانک گھروں پر دھاوا بول دیا۔ انہوں نے نہیں دیکھا کہ سامنے خاتون ہے‘ کوئی بوڑھا ہے یا کوئی بچہ‘ سب کو طاقت کے زور پر اُن کے گھروں سے بے دخل کردیا اور بلڈوزروں سے ان کے آشیانوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔
خاتون 24 ستمبر 2021ء کو دنیا بھر میں وائرل ہونے والی و یڈیو میں 23 ستمبر والے واقعے کا ذکر کررہی تھیں۔ انہوں نے بتایاکہ پولیس نے کس طرح نشانہ لے کر دونوجوانوں کو ہلاک اور درجنوں کو شدید زخمی کردیا۔ ہندو خاتون نے رندھی ہوئی آواز میں بتایاکہ ایسا تو کوئی جنگی قیدیوں کے ساتھ بھی نہیں کرتا۔ تفتیشی ڈیلی گیشن کی اس سربراہ نے دنیا کو خبردی کہ ان لوگوں کے پاس اپنی شہریت اور اپنے گھروں کی ملکیت کا ایک نہیں کئی ثبوت تھے مگر انسانیت سے عاری بی جے پی کی حکومت کے کارندوں نے کوئی ثبوت دیکھا نہ مظلوموں کی فریاد سنی۔ خاتون پروفیسر کے مطابق ان میں سے بہت سے لوگ اس جگہ پر گزشتہ پچاس برس سے رہائش پذیر ہیں۔ انصاف پسند ہندو خاتون نے کہا کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کا تو 1951ء سے نیشنل رجسٹر آف سٹیزن میں اندراج موجود ہے۔ خاتون نے مزید بتایاکہ آر ایس ایس کے ہندو فلسفہ پر قائم یہ حکومت کسی طرح کے انسانی جذبات اور اخلاقی صفات سے تہی دامن ہے۔
خاتون کے مطابق یہ بھیانک ڈرامہ صرف اور صرف ایک اقلیت کو کچلنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہ ''اقلیت‘‘ یا دوسری بڑی اکثریت مسلمان ہیں۔ یہ ساری مہم جوئی اور فوج کشی مسلمانوں کے خلاف ہے۔ خاتون نے بتایا کہ آسام کے مسلمانوں کو بزور شمشیر اُن کے ملکیتی گھروں سے نکال کر ایک ایسے چٹیل ویرانے میں ڈال دیا گیا ہے جہاں پانی ہے نہ لیٹرین‘ نہ ہی اُن کے سروں پر کوئی چھت ہے اور یہ ایک ہزار خاندان گزشتہ ایک ہفتے سے خوراک سے محروم ہیں۔ 23 ستمبر کو مسلمانوں کو آسام میں اُن کے گھروں سے بے دخل کرتے ہوئے جن دو مسلمانوں کو شہید کردیا گیا تھا اُن میں سے ایک کی لاش کی بے حرمتی کی گئی۔ پولیس جس ہندو فوٹوگرافر کو اپنے ساتھ لائی تھی وہ اپنے کیمرے سمیت لاش کے اوپر ناچتا اور کودتا رہا۔ اس ویڈیو کو دیکھ کر ایک اور ہندو خاتون نے کہا کہ ''ندامت سے میرا سرجھک گیا ہے‘ کیا ہم خون کے پیاسے ہوگئے ہیں؟‘‘
مودی کی شرم و حیا سے عاری حکومت قبل ازیں مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف سینکڑوں شرمناک کارروائیاں کر چکی ہے اور بھارتی دستور کے آرٹیکل 370 اور 35اے کو ختم کرکے وادیٔ کشمیر کی خودمختاری کا اپنے تئیں خاتمہ کر چکی ہے۔ آسام میں رجسٹریشن کے نام پر یہ ہندو نواز حکومت جو کچھ کررہی ہے وہ مسلمانوں کو ٹارگٹ کرنے کیلئے ہے۔ جی ہاں! وہی مسلمان جن کی دنیا میں تعداد ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہے‘ وہی مسلمان جن کے پیارے پیغمبر محمد مصطفیﷺ نے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی مانند ہے کہ اس کے کسی ایک حصے کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو درد کی شدت سارا بدن محسوس کرتا ہے۔ جی ہاں! وہی مسلمان جن کے ملکوں میں انڈیا کے لاکھوں کارکن کام کرتے ہیں اور وہاں اربوں ڈالر کا کاروبار بھی کرتے ہیں۔
آج وہی درد محسوس کرنیوالا جسم بے حس کیوں ہوگیا ہے کہ کشمیریوں کو کشمیر میں شہید کیا جائے‘ وہاں خواتین کے ساتھ دست درازی کی جائے‘ وادی کا محاصرہ کرکے اسے جیل میں بدل دیا جائے‘ خوشحال کشمیریوں کو معاشی پابندیوں اور ٹورازم کا خاتمہ کرکے تباہ حال کردیا جائے اور آئے روز کبھی دہلی میں‘ کبھی آسام میں اور کبھی کسی اور مقام پر مسلمانوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جائے‘ تو یہ سب کچھ مسلمان حکمران دیکھتے ہیں مگر اُن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور نہ ہی اُن کے ضمیر میں کوئی خلش پیدا ہوتی ہے۔ جہاں تک دنیا بھر کے عامۃالمسلمین کا تعلق ہے‘ وہ اپنی حد تک صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر انڈین مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم بھی چلاتے ہیں۔
جہاں تک پاکستان کی موجودہ حکومت کا تعلق ہے تو اس کی بھارت کے ساتھ دوستی ہے نہ دشمنی‘ نہ ہی کوئی کامیاب ڈپلومیسی ہے۔ کشمیریوں پر خنجر چلے‘ بھارتی مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جائے یا مختلف علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں پر قیامت ڈھائی جائے تو پاکستان کے پاس اس کا صرف ایک علاج ہے کہ انڈین ہائی کمشنر یا اس کے کسی نائب کو پاکستانی وزارتِ خارجہ اسلام آباد میں طلب کیا جائے اور اس کے ہاتھ میں ایک احتجاجی مراسلہ تھما دیا جائے اور سمجھا یہ جائے کہ انہوں نے قائداعظمؒ کا فرمان پورا کردیا ہے۔
قائد کا فرمان کیا تھا؟ قائد سے جب یہ پوچھا گیا تھاکہ ہندوستانی مسلمانوں کی حفاظت کس طرح کی جائے گی تو اُن کا جواب تھاکہ ایک مضبوط پاکستان بھارتی مسلمانوں کے جان و مال کا ضامن ہوگا۔ پاکستان کی موجودہ حکومت نہ باہمی قومی اتحاد کی ضرورت محسوس کرتی ہے‘ نہ استحکام پاکستان کیلئے عملی اقدامات کرتی ہے‘ نہ خارجہ تعلقات کو علاقائی و عالمی تقاضوں کے مطابق استوار کرتی ہے اور نہ ہی ڈپلومیسی کی لطیف و دقیق مہارتوں سے کام لیتی ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ افغانستان میں ہماری خدمات کا اعتراف کرنے کے بجائے امریکہ الٹا ہمارے خلاف کارروائی کیلئے دھمکیاں دے رہا ہے۔ اگر انڈیا ہماری نہیں سنتا توکم ازکم ہم اپنے عرب بھائیوں کے ذریعے بھارت کو مسلمانوں پر ظلم و ستم سے روک سکتے ہیں مگر حکومت سے یہ کام بھی نہیں ہو سکتا۔
اب آئیے اس سوال کی طرف کہ مجھے کس بات پہ رونا آیا؟ مجھے بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار اور پونے دو ارب مسلمانوں کی بے حسی پہ رونا آیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں