جیو تو سر اٹھا کے جیو

بھارت میں مسلمانوں پر سرِعام تشدد اور اُن کی تذلیل ایک معمول بن چکا ہے۔ ایسے واقعات کی ہندو نواز بھارتی حکومت مذمت کرتی ہے اور نہ ہی بلوائیوں کو عبرت ناک سزا دیتی ہے۔ بھارتی ریاست کرناٹک کے سکولوں‘ کالجوں میں مسلمان طالبات کے حجاب پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ منگل کے روز کرناٹک کے کامرس کالج میں ایک باحجاب مسلمان طالبہ اپنی اسائنمنٹ جمع کروانے آئی تو زعفرانی مفلر گلے میں ڈالے ہوئے سینکڑوں ہندو نوجوانوں نے جے شری رام، جے شری رام کہتے ہوئے اکیلی مسلمان لڑکی کو ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ بھارت میں مسلمانوں کے عمومی عاجزانہ رویے کے برعکس یہ باغیرت مسلمان لڑکی مسکان شیرنی کی طرح دہاڑتی ہوئی ڈٹ کر کھڑی ہو گئی۔ اس نے فضا میں اپنا ہاتھ بلند کرتے ہوئے جے شری رام کے نعروں کے جواب میں بہ آواز بلند اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگائے۔ سوشل میڈیا پر ساری دنیا میں وائرل ہونے والی ویڈیو میں مسکان نے کہا کہ برقع اوڑھنا میرا مذہبی فریضہ اور بحیثیت شہری میرا حق ہے۔ کوئی مجھے اس حق سے محروم نہیں کر سکتا۔ بعض خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق کانگریس، انڈین یونین مسلم لیگ اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے کرناٹک میں حجاب پر پابندی کا معاملہ لوک سبھا میں اٹھا دیا۔ کرناٹک کی ریاست میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ کرناٹک کی ہائیکورٹ میں باحجاب مسلم طالبات کے تعلیمی اداروں میں داخلے پر پابندی کے خلاف کیس زیر سماعت ہے۔
ہندوؤں اور مسلمانوں میں آویزش اور چپقلش زمانوں سے چلی آ رہی ہے مگر انتہا پسند ہندوؤں کو مودی کی صوبائی اور اب مرکزی حکومتوں میں سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی ہے۔ گزشتہ دو تین برس کے دوران ہندوستان میں جگہ جگہ بغیر کسی اشتعال کے ہندو جتھے محض دل لگی کیلئے مسلمانوں کو سرعام تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ گزشتہ برس ایک وائرل ویڈیو میں پانچ افراد راجستھان کے ضلع اجمیر میں ایک مسلمان کی شدید ترین پٹائی کرتے ہوئے اسے پاکستان جانے کیلئے کہہ رہے ہیں۔ وڈیو میں ایک ہندو جنونی ایک بھارتی مسلمان کے سر پر لات مار کر اسے ادھ موا کر دیتا ہے۔ یہ ویڈیو بھارت سمیت دنیا میں ہر جگہ پہنچی۔ اجمیر پولیس نے بھی یہ ویڈیو دیکھنے کی تصدیق کی تھی مگر اس نے مقدمہ اس لئے درج نہیں کیا کہ کسی نے تحریری شکایت نہیں کی۔ غریب مسلمان نوجوانوں کو جگہ جگہ زمین پر لٹا کر ان کی مار پیٹ بھارت میں روز کا معمول بن چکا ہے۔ چند ماہ قبل ایک اور ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں بھارتی ریاست یو پی کے شہر کانپور میں ہندو انتہا پسند ایک 45 سالہ مسلمان رکشہ ڈرائیور کو گھیر کر اس پر تشدد کر رہے تھے جبکہ ڈرائیور کی خوفزدہ ننھی منی بچی اپنے باپ سے چمٹی ہوئی تھی اور اپنے باپ کو بچانے کیلئے داد فریاد کر رہی تھی۔
جنوبی مجمع ڈرائیور کو ہندوستان زندہ باد، جے شری رام جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کر رہا تھا۔ یہ نعرے لگانے کے باوجود انتہا پسند ہندوؤں کا ہجوم باپ اور بیٹی کو تشدد کا نشانہ بناتا اور قہقہے لگاتا رہا۔ آخر کار ایک پولیس والے نے معصوم بچی اور اس کے ڈرائیور باپ کو بچایا۔ بلوائیوں کے خلاف مقدمہ درج ہوا مگر اگلے روز اُن کی ضمانت ہو گئی۔ یہ ویڈیو بھی صرف چند ماہ پیشتر منظر عام پر آئی تھی جس میں مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں ایک چوڑیاں فروخت کرنے والے تسلیم علی نامی مسلمان کو ہندوؤں کا ایک جتھا مکے، گھونسے اور لاتیں مارتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے۔ تسلیم علی نے تھانے میں اس واقعے کی رپورٹ درج کروائی تو اگلے روز حیران کن طور پر تسلیم علی ہی کو گرفتار کر لیا گیا۔ حملہ آوروں میں سے ایک کی بچی نے چوڑی فروش پر زیادتی کا جھوٹا الزام لگا دیا۔
کبھی مسلمانوں کو مساجد میں نماز ادا کرنے سے روک دیا جاتا ہے‘ کبھی کوئی اور حرکت کی جاتی ہے۔ دو برس قبل ہندوستان کی تبلیغی جماعت کے خلاف کورونا پھیلانے کا الزام بڑے پیمانے پر لگا دیا گیا‘ اور مسلمانوں کی کردار کشی کی مہم شروع کر دی گئی۔ اس موقع پر خلیج کی بعض شخصیات نے انفرادی طور پر بھارتی حکومت کے رویے کیخلاف احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ مودی سرکار فوری طور پر مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیز مہم کو ختم کروائے۔ ستمبر 2021 کی ایک ویڈیو میں ریاست آسام کے ایک گاؤں میں پولیس کو مسلمانوں پر فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ ویڈیو میں پولیس کی فائرنگ سے ایک شخص زخمی ہو کر گر گیا‘ جس کے بعد پولیس اہلکاروں اور ایک ہندو صحافی نے زخمی مسلمان پر تشدد کر کے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا‘ اور پھر اس کی لاش کو گلیوں میں گھسیٹ کر انسانیت کی تذلیل کی۔
اس شرمناک حرکت کی ساری باضمیر دنیا نے مذمت کی۔ او آئی سی اور پاکستان نے بھی رسمی سا احتجاج کیا‘ اور پھر خاموشی چھا گئی۔ خلیج کے ایک عرب دانشور عبدالرحمن النصار نے مودی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے بڑا جرأت مندانہ ٹویٹ کیا۔ النصار نے اپنے میسج میں لکھا کہ خلیج میں 30 لاکھ سے اوپر ہندو ملازمت اور تجارت سے وابستہ ہیں۔ وہ اربوں ڈالر انڈیا بھیجتے ہیں۔ ہم اُن کے ساتھ احترام کا سلوک کرتے ہیں۔ بھارت بتائے کہ کیا ہمارے بھائی بھارت میں اس لئے قتل کئے جا رہے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب وغیرہ نے بھارت کی بہت پذیرائی کی ہے۔ ہمارے ان برادر مسلم ممالک نے بھارت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ہندوستان کے لاکھوں ہندو ان ممالک میں کام کرنے کے بعد زرمبادلہ اپنے ملک کو بھیجتے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ حدیث پاک کے مطابق مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا گیا ہے مگر ہمارے عرب بھائی اپنے بھارتی وکشمیری مسلمان بھائیوں پہ ظلم و ستم ہوتا اور انہیں قتل و غارت گری کا شکار ہوتے دیکھتے ہیں مگر وہ بھارتی حکومت سے کوئی جاندار احتجاج کیوں نہیں کرتے۔ اس سے بڑا سوالیہ نشان یہ ہے کہ پاکستان اس ظلم و بربریت پر خاموش کیوں ہے۔ اعلانِ نہ سہی مگر ہم سفارتی محاذ پر سرگرم عمل ہو کر ضمیرِ عالم کو جھنجھوڑ تو سکتے ہیں۔ ہمارے وزیر خارجہ بیرونی محاذ پر اپنی خطابت اور طلاقتِ لسانی کی جولانیاں دکھانے کے بجائے پاکستان میں اپوزیشن کو ڈرانے دھمکانے پر یہ جوہر آزماتے رہتے ہیں۔
بھارت اپنے انتہا پسندانہ اقدامات میں روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق بھارتی حکومت نے یو پی میں عالمی شہرت یافتہ دارالعلوم دیوبند کی آفیشل ویب سائٹ بھی بند کر دی ہے۔ جمعیت علمائے ہند نے تقسیم برصغیر کے موقع پر بھارت کا ساتھ دیا تھا۔ یقینا آج وہ بزرگوں کے فیصلے پر پچھتا رہی ہوگی۔ بہرحال جمعیت علمائے ہند نے بھارتی ریاست کرناٹک کے کالج میں انتہا پسند ہندو جتھے کے سامنے ڈٹ جانے والی بہادر لڑکی مسکان خان کیلئے بھاری انعام کا اعلان کیا ہے۔ گزشتہ دو روز سے سوشل میڈیا پر اللہ اکبر ٹاپ ٹرینڈ ہے۔ بھارت میں مسلمان بہت بڑی تعداد میں صدیوں سے آباد ہیں۔ ان میں بعض سیاسی قائدین بھی ہیں، بعض واجب الاحترام مذہبی شخصیات بھی ہیں اور بعض نامور تاجر حضرات بھی ہیں مگر عمومی طور پر مسلمان کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت معاشی طور پر بدحالی‘ سیاسی طور پر دوسرے درجے کے شہری اور مذہبی طور پر ڈر اور خوف کے سائے میں زندگی گزار رہی ہے۔ بھارت کی ساری مسلمان سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو مثالی اتحاد کی لڑی میں پرو لیں اور جرأت مندانہ رویہ اختیار کریں۔ شیر دل نہتی لڑکی مسکان نے بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کو اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر یہ پیغام دیا ہے کہ ڈرے سہمے رہ کر اور ذلیل و خوار ہو کر جینا بھی کوئی جینا ہے۔ جیو تو سر اٹھا کے جیو!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں