فیصل آباد میں تذلیلِ آدمیت

ہمارے ہاں آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا دل خراش واقعہ پیش آ جاتا ہے جو نہ صرف ہمیں تڑپا جاتا ہے بلکہ یہ باور کرا جاتا ہے کہ ہم ذلت و پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکے ہیں۔ ان واقعات بلکہ سانحات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم شرفِ انسانیت تو دور کی بات حیوانیت کے درجے سے بھی نیچے گر چکے ہیں۔
تین چار روز قبل فیصل آباد سے یہ روح فرسا خبر آئی کہ وہاں کا دانش نامی ایک صنعت کار، اپنی بیٹی، ملازمہ اور تین چار گارڈوں اور ملازموں کے ہمراہ مقامی میڈیکل کالج کی فائنل ایئر کی طالبہ اور اس کے بیرونِ ملک سے آئے ہوئے بھائی کو اُن کے گھر سے اغوا کر کے اپنے گھر لے آئے۔ اس کے بعد اس مغویہ بچی کے ساتھ اس ''باپ‘‘ نے جو شرمناک حرکات کیں اُن پر یقینا عرش بھی کانپ اٹھا ہو گا۔ صنعت کار دانش نے اپنے گھر کے دوسرے کمرے میں اپنی بیٹی کی موجودگی کے دوران مغویہ میڈیکل سٹوڈنٹ کے ساتھ جن حیا سوز جرائم کا ارتکاب کیا ان کا تذکرہ کرنے سے پہلے اس واقعے کا مختصر پس منظر اپنے ذہن میں تازہ کر لیجیے۔
صنعت کار کی اپنی بیٹی بھی اسی میڈیکل کالج کی جونیئر طالبہ ہے جس میں خدیجہ نامی طالبہ فائنل ایئر میں زیرِ تعلیم ہے۔ دونوں کے درمیان دوستی ہو گئی۔ اس دوران شیخ دانش خدیجہ میں دلچسپی لینے لگا جس کا مظلوم بچی کو ہرگز کوئی اندازہ نہ تھا۔ شیخ دانش نے بیٹی کی کالج فیلو کو اپنا رشتہ بھیجا۔ خدیجہ اور اس کے والدین نے اس حرکت کا بہت برا منایا مگر کسی غم و غصّے کا اظہار کیے بغیر رشتہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اسے تاجر نے اپنی اہانت سمجھا۔ اس نے اپنی بیٹی کے ساتھ مل کر بندوقوں کے بل بوتے پر لڑکی کو اغوا کر لیا۔
شیخ دانش نے اپنے گھر لا کر اپنے ملازمین سے اس معصوم بچی کے سر کے بال کٹوائے۔ اس کی بھنویں منڈوا دیں اور اسے کمرے میں بند کر کے نہ صرف جسمانی بلکہ جنسی تشدد بھی کیا۔ جنسی تشدد کی تفصیل ایف آئی آر اور سوشل میڈیا پر آئی ہے‘ اسے یہاں لکھنے سے میرے قلم کو حیا آتی ہے۔ دولت کے نشے میں بدمست اس تاجر نے انسانیت کی اس بے انتہا تذلیل پر ہی بس نہیں کی بلکہ اس مظلوم مغویہ بچی سے اپنے جوتے اپنی بیٹی اور خدیجہ کے بھائی کی موجودگی میں چٹوائے اور اس کی وڈیو بنوائی اور اسے وائرل کر دیا۔ اس کے علاوہ تشدد سے بے حال بچی کی وڈیو بنا کر اسے بھی نشر کر دیا اور خدیجہ کو یہ دھمکی دی کہ خبردار کسی کو مت بتانا وگرنہ میں تم پر جنسی درندگی کی وڈیو بھی وائرل کرا دوں گا۔
مظلوم بچی کے واجب صد احترام والدین تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے درندگی و شیطنت کے اس واقعے کو چھپانے اور مظلوم بچی کو کلبۂ احزاں میں ڈالنے کے بجائے وہ سٹی پولیس آفیسر فیصل آباد کے پاس گئے اور ان کے سامنے یہ سارا شرمناک واقعہ بیان کیا۔ سی پی او نے بھی شیخ دانش کے مالی و سماجی مقام و مرتبے کو خاطر میں لائے بغیر اس کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا حکم دیا اور اسی روز شام تک مرکزی ملزم شیخ دانش سمیت چھ افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔
مجھے حیرت ہے کہ تاجر کی بیٹی کو ابھی تک کیوں گرفتار نہیں کیا۔ باقی دس ملزموں کی تلاش بھی جاری ہے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق گرفتاری کے دوران ملزم شیخ دانش کے گھر سے الکوحل کی بہت سی بوتلیں اور بھاری تعداد میں اسلحہ بھی برآمد ہوا۔ اس طرح کے واقعات سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ معاشرے کا مالدار اور طاقتور طبقہ فرعون بن چکا ہے۔ یہ طبقہ سمجھتا ہے کہ دولت اور طاقت کے بل بوتے پر وہ جو چاہے اسے حاصل کر سکتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ دولت سے ہر چیز خریدی جا سکتی ہے۔ اگر کوئی دولت کی دیوی کے سامنے جھکنے اور اپنی عزت بیچنے سے انکار کر دے تو پھر طاقت کے زور پر اسے ناقابلِ فراموش سبق سکھانا چاہیے۔ اس واقعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ:
غیرت نام تھا جس کا گئی ''تیمور‘‘ کے گھر سے
ایک زمانہ تھا کہ فیصل آباد کا ہر تاجر حاجی نمازی ہوتا تھا اور خدا ترسی کی شہرت رکھتا تھا‘ یقینا اب بھی ایسا ہوگا۔ تاہم انہی تاجروں کی اگلی نسل میں ایک یہ تاجر ہے جو بے غیرتی اور بے حیائی کے سارے انسانیت سوز جرائم گھر پر بیٹی کی موجودگی کے دوران انجام دیتا رہا۔ دوسری طرف بیٹی کا رویہ بھی نہایت نامناسب تھا۔ اسے اپنے باپ کو غیرت دلانی چاہیے تھی کہ وہ اس کی دوست کو باپ کے بجائے کسی اوباش کی نگاہوں سے کیوں دیکھ رہا ہے؟ اس کے بجائے شرم و حیا سے عاری بیٹی نے ان گھنائونے جرائم میں اپنے باپ کا ساتھ دیا۔
اب آئیے اُن اسباب کی طرف جن کی بنا پر یہ معاشرہ اس پستی کا شکار ہو چکا ہے۔ سب سے پہلا سبب یہ ہے کہ اس ملک میں مطلقاً قانون کی حکمرانی نہیں۔ یہاں ہر مالدار اور طاقتور کو معلوم ہے کہ وہ دولت و طاقت کے بل بوتے پر سزا سے بچ جائے گا۔ اوّل تو پولیس اس پر ہاتھ نہیں ڈالے گی اور اگر وہ قانون کے کسی پھندے میں آ بھی گیا تو برسوں پر پھیلے ہوئے لامتناہی عدالتی پروسیجر کا فائدہ اٹھا کر وکلا اسے بچا لیں گے۔
معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حیائی اور بداخلاقی کا دوسرا سبب یہ ہے کہ ہم نے کردار سازی اور اخلاق سازی کو اپنے تعلیمی نظام سے نکال باہر کیا ہے۔ وہ زمانہ گیا جب سکولوں میں سارے امیر غریب اکٹھے پڑھتے اور انہیں اخلاقی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ اب یہ سمجھا جاتا ہے کہ ٹیکنالوجی‘ کمپیوٹر اور جدید تعلیم دو۔ کسی زمانے میں گھروں اور محلوں میں اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی تھی۔ ہر گھر میں ''گلستاں بوستاں‘‘ پڑھی پڑھائی اور سنی سنائی جاتی تھی مگر اب والدین کو بچوں پر توجہ دینے کی فرصت نہیں۔
تیسرا سبب سوشل میڈیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر طرح کے مناظر‘ ہر طرح کی اخلاق سوز کہانیاں اور طرح طرح کی چٹ پٹی پوسٹیں دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں مقدس ترین رشتوں کی پامالی کے جھوٹے سچے قصّے یوں پیش کیے جاتے ہیں جیسے یہ کوئی انہونی بات نہیں۔
فیصل آباد کے اس دل دہلا دینے والے واقعے کو کئی دن گزر چکے ہیں مگر ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہیں دکھائی نہیں دیے۔ تذلیلِ نسوانیت پر سب سے پہلا احتجاج تو ''عورت مارچ‘‘ والی خواتین کو کرنا چاہیے تھا مگر اُن کا بھی کوئی اَتا پتا نہیں‘ سب سے زیادہ حیرت ناک بلکہ تشویشناک بات تو یہ ہے کہ ''یوم حجاب‘‘ اور ''وومن ڈے‘‘ پر جلوس نکالنے والی جماعت اسلامی کی باحیا خواتین کہاں ہیں؟ کبھی جماعتِ اسلامی ان معاملات کے بارے میں بڑی حسّاس ہوا کرتی تھی۔ تب شیخ دانش جیسے لوگوں کو خوف ہوتا تھا کہ ''ظالمو! قاضی آ رہا ہے‘‘۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی نے خود کو منصورہ میں محدود و مقید کر لیا ہے۔ شاید جماعت اسلامی نے ملت کی اخلاق و کردار سازی کے مشن سے دستبردار ہو کر منصورہ کے اندر محض کارکنوں کی تربیت گاہیں منعقد کرنے کو فریضۂ اقامت دین سمجھ لیا ہے۔ اگر سیاسی و دینی جماعتیں اخلاق و کردار سازی کے بنیادی فریضے سے غافل ہو چکی ہیں تو پھر سول سوسائٹی کو بھرپور طریقے سے فیصل آباد میں تذلیلِ آدمیت و تذلیلِ نسوانیت کی پورے ملک میں بھرپور مذمت کرنی چاہیے اور حیا سوز حرکات پر شیخ دانش، اس کی بیٹی اور شریک ملزمان کو عبرتناک سزا دلوانے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں