ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا…

23اگست کو بھارت میں جشن منایا گیا۔ بھارت کا چندریان 3 مشن کامیابی کے ساتھ چاند پر اُتر گیا ہے۔ ایسی ہی ایک کوشش پڑوسی ملک نے 2019ء میں بھی کی تھی مگر عین چاند پر لینڈنگ کے وقت سسٹم میں کوئی خرابی واقع ہوئی جس کے نتیجے میں بھارتی چاند مشن ناکامی سے دوچار ہو گیا۔ اب چندریان 3 مشن 14جولائی کو بنگلور انڈیا سے سوئے مہتاب روانہ ہوا۔ چاند گاڑی 5اگست کو چاند کے مدار میں داخل ہوئی۔ ''وِکرم‘‘ نامی لینڈر 17اگست کو چاند گاڑی سے الگ ہو گیا تھا جس کے بعد 23اگست کو یہ مشن چاند پر کامیابی سے اتر گیا۔ اس مشن میں کوئی بشری خلا نورد نہ تھا۔
امریکہ‘ روس اور چین کے بعد بھارت دنیا کا چوتھا ملک ہے کہ جس کا مشن کامیابی کے ساتھ چاند پر اُتر گیا۔ جب نیل آرم سٹرانگ سب سے پہلے چاند پر 1969ء میں اُترا تو ڈاکٹر وزیر آغا مرحوم نے ایک فکر انگیز بات کہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بلاشبہ انسان چاند پر اُتر تو گیا ہے مگر وہ اپنی زمین کے ساتھ اُترا ہے۔ اس سے مراد یہ تھی کہ اس نے ہر طرح کے زمینی سازو سامان کے ساتھ چاند کی سطح پر قدم رکھا ہے۔ نیل آرم سٹرانگ حیران کن شخصیت کا مالک تھا۔ وہ 39برس کی عمر میں چاند مشن پر روانہ ہوا تھا۔ وہ بیک وقت خلا نورد‘ خلائی انجینئر‘ بحری جہاز کا ملاح‘ ہوائی جہاز کا پائلٹ اور یونیورسٹی پروفیسر تھا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر سنگھ مودی برکس کی میٹنگ میں شرکت کے لیے 22تا 24اگست تک جنوبی افریقہ میں تھا۔ برکس پانچ ملکوں پر مشتمل ایک اقتصادی فورم ہے۔ اس فورم میں برازیل‘ روس‘ انڈیا‘ چین اور ساؤتھ افریقہ شامل ہیں۔ نریندر مودی نے وہاں سے ایک لائیو پیغام میں کہا کہ مسرت کے اس موقع پر میرا دل چاہتا ہے کہ میں ساری دنیا کے لوگوں سے خطاب کروں کیونکہ یہ صرف بھارت کی کامیابی نہیں‘ ساری انسانیت کی کامیابی ہے۔ بھارتی وزیراعظم کے منہ سے لفظ ''انسانیت‘‘ سن کر مجھے انتہائی حیرت ہوئی۔ یہی حیرت یہ کالم لکھنے کا سبب بنی ہے۔
دنیا مودی کو انسانیت کے قاتل کے طور پر جانتی ہے۔ چاند پر پہلے کامیاب مشن کے پچاس برس بعد وہاں پہنچنا کوئی بڑی بات نہیں۔ اس کے برعکس اگر نریندر مودی بھارت کی تقریباً ڈیڑھ ارب آبادی کو درسِ اخلاق دینے میں کامیاب ہو جاتا تو اسے اس خوشی کے لیے ایک روز بعد 24اگست کو ساری دنیا کے سامنے سرنگوں نہ ہونا پڑتا۔ جمعرات کے روز 21بھارتی طالب علموں کو جعلی ویزوں اور جعلی ڈگریوں کی بنا پر امریکہ سے ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ مودی اپنی جنگی مشینری اور اپنی ظلم و ستم پر مبنی پالیسی پر اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے جس کے نتیجے میں بھارت کے کروڑوں شہریوں کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ اُن کے سر پر چھت نہیں۔ وہ مختلف بڑے شہروں کے فٹ پاتھوں پر پیدا ہوتے‘ وہیں پلتے بڑھتے اور وہیں فوت ہو جاتے ہیں۔
یوں تو قیام پاکستان سے بہت پہلے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ پاکستان بننے کی صورت میں مسلمانوں کے خلاف خون خرابے کے لیے بھرپور تیاری کر رہی تھی۔ چنانچہ اگست 1947ء میں ہی‘ اعلانِ پاکستان کے فوراً بعد مسلح ہندو اور سکھ جتھوں نے وسیع پیمانے پر مار دھاڑ اور آتش زنی شروع کر دی تھی جس کی لپیٹ میں سارا مشرقی پنجاب آ گیا۔ اس دن سے لے کر آج تک بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جب بھارت میں کسی نہ کسی شہر یا گاؤں میں مسلمانوں پر قیامت نہ ڈھائی جاتی ہو۔
''انسانیت نواز‘‘ نریندر مودی 2002ء میں بھارتی گجرات کا وزیراعلیٰ تھا۔ اس وقت 2500مسلمانوں کو حکومتی سرپرستی میں گولیوں سے بھون دیا گیا یا بھڑکتے ہوئے شعلوں میں جلا کر رکھ کر دیاگیا۔ اب مودی نے وزیراعظم کی حیثیت سے ملک کے طول و عرض میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ بھارتی انتہا پسند اپنی حکومت اور فوج کی سرپرستی میں آئے روز مختلف علاقوں میں فسادات کی آگ بھڑکا کر مسلمانوں کی املاک کو تباہ کرتے ہیں‘ اُن کے گھر مسمار کرتے ہیں‘ کہیں مساجد کو آگ لگا دیتے ہیں اور کہیں بلاسبب مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں‘ کہیں امام مسجد اور نمازیوں کو شہید کر دیا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں ہریانہ میں مسلمانوں کے 50سے زائد گھر اور 700 سے زائد دکانیں گرا دی گئیں۔ اس ظالمانہ کارروائی کو تجاوزات کے خلاف آپریشن کا نام دیا گیا مگر وہاں کے مسلمانوں نے ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ یہ حقیقت طشت ازبام کی کہ ہندو انتہا پسندوں کے کہنے پر یہ کارروائی کی گئی کیونکہ اس آپریشن میں کسی ایک ہندو کی دکان بھی مسمار نہیں کی گئی۔
بھارت میں مسلمانوں کی تعداد پاکستان کی کل آبادی کے برابر ہے۔ بھارت چاند پر تو پہنچ گیا ہے مگر آج تک بھارتی حکمران اپنے دعوے کے مطابق سیکولر بن سکے ہیں اور نہ ہی وہ حقیقی معنوں میں انسان بنے ہیں۔ ساری انسانیت کو خطاب کرنے کی خواہش رکھنے والے مودی نے بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف جگہ جگہ محاذ کھول رکھے ہیں۔ موجودہ حکومت کی سرپرستی میں ہندو انتہا پسندوں اور آر ایس ایس کے غنڈوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ ان انتہا پسندوں کی اپنے ہی ملک کے مسلمان شہریوں پر قاتلانہ حملوں کے خلاف بھارتی حکومت کوئی تادیبی کارروائی کرنے کے بجائے الٹا اُن کی پشت پناہی کرتی ہے۔ جب مسلمان مجرموں کے خلاف بھارتی عدالتوں میں جاتے ہیں تو وہاں سے بھی انہیں انصاف نہیں ملتا۔ یہی کچھ مقبوضہ کشمیر میں مظلوم و مجبور کشمیریوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کی بھارت میں منفرد حیثیت تھی۔ یہاں جدی پشتی کشمیریوں کے سوا کوئی اور جائیداد نہیں خرید سکتا تھا مگر بھارتی حکومت نے یہ قانون بدل دیا ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت سے اسلحہ اور جہادیوں کی تلاش کے نام پر روز کوئی نہ کوئی سرچ آپریشن ہوتا رہتا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ یو این او اور سلامتی کونسل جیسے ادارے اپنی قراردادوں اور معاہدوں کو پس پشت ڈال کر مظلوم کے بجائے ظالم کا ساتھ دے رہے ہیں۔
پاکستان میں ہندو ہوں یا سکھ‘ عیسائی ہوں یا پارسی‘ سب کی حفاظت ریاست اپنی اولین ذمہ داری سمجھتی ہے۔ ابھی چند روز قبل پاکستانی پنجاب کے شہر جڑانوالہ میں کسی افواہ کی بنا پر چند شرپسندوں نے مسیحی بستی کے کئی مکانات جلا دیے اور وہاں خوف و ہراس پھیلایا تو وزیراعظم پاکستان‘ وزیراعلیٰ پنجاب‘ نامزد چیف جسٹس‘ علمائے کرام اور کئی سیاسی پارٹیوں کے سربراہان بنفس نفیس وہاں پہنچے اور انہوں نے مسیحی برادری سے معافی و معذرت طلب کی اور ٹوٹے ہوئے گھروں کی تعمیر نو کے لیے فی گھر 20لاکھ روپے دیے نیز مسمار شدہ گرجوں کی بھی ازسرنو تعمیر جاری ہے۔اس کے برعکس چاند پر اپنے مشن کی کامیاب لینڈنگ پر ساری انسانیت کو خطاب کرنے کی خواہش رکھنے والے کو یہ معلوم ہی نہیں کہ انسانیت کیا ہے اور انسان نوازی کے تقاضے کیا ہیں۔ بھارتی وزیراعظم کو یہ بھی معلوم نہیں کہ حکمرانی و جہانبانی کی کیا کیا ذمہ داریاں ہیں۔ کسی بھی راجدھانی میں بسنے والا کوئی بھی شہری کسی بھی مذہب‘ کسی بھی دھرم اور کسی بھی عقیدے سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہو‘ اس کے جان و مال اور بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت اُس ریاست کے حکمران کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ نریندر مودی جیسے ''انسانیت نواز‘‘ حکمرانوں کے بارے میں علامہ اقبال فرما گئے ہیں ؎
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
ساری انسانیت کو خطاب کرنے کی خواہش رکھنے والے کو پہلے اخلاقیات و انسانیت سے اپنا ناتا جوڑنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں