کیا دنیا اتنی بے بس ہے؟

اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس ایک بار پھر چیخ اُٹھے ہیں کہ غزہ کی ہر لحظہ بگڑتی ہوئی صورتحال سے عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ دنیا بھر کے امن پسند لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے کیلئے کی گئی عارضی جنگ بندی کو اسرائیل مستقل جنگ بندی میں بدل دے گا مگر ہوا اس کے برعکس ہے۔
غزہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر خلیل احمد خلیلی طائف‘ سعودی عرب کے ایک سرکاری کالج میں میرے کولیگ تھے۔ وہ عربی اور انگریزی دونوں زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ طائف میں وہ تقریباً بیس برس مقیم رہے۔ دوستوں سے خندہ پشیمانی کیساتھ ملتے‘ سعودی کمیونٹی میں بھی وہ ہر دلعزیز تھے‘ مگر خلیلی کا دل ہمیشہ غزہ کیلئے دھڑکتا تھا۔ بالآخر انہوں نے واپس اپنے وطن جانے کا ارادہ کر لیا۔ سعودی محکمہ تعلیم نے بھی انہیں روکنے کی کوشش کی مگر وہ غزہ واپس جا کر ایک خوبصورت گھر تعمیر کرنے اور وہاں آباد ہونیکا فیصلہ کر چکے تھے۔ میں نے انہیں ان کے البلد الثانی یعنی دوسرے وطن پاکستان کو عربی سکھانے کی دعوت دی لیکن انہوں نے میری یہ دعوت قبول کرنے سے معذرت کر لی۔ گزشتہ برس اُن سے فون پر بات ہوئی تو وہ بہت خوش تھے۔ اُس وقت غزہ میں عصر کا وقت تھا۔ کہنے لگے: ہم سمندر کے کنارے بیٹھے چائے پی رہے ہیں۔ انہوں نے ملفوف انداز میں اسرائیلی مظالم کا ذکر کیا اور کہا کہ اللہ کا شکر ہے زندگی کسی نہ کسی طرح گزر رہی ہے۔
اب میں کئی روز سے انہیں کال کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر کامیابی نہ ہوئی۔ بالآخر میں نے سعودی عرب میں ایک مشترکہ دوست کو فون کیا تو اس نے بتایا کہ جب سے غزہ پر اسرائیلی جنگ مسلط ہوئی ہے‘ اس کی خلیلی سے تین چار بار بات ہوئی۔ آخری کال میں اس نے سعودی دوست کو بتایا کہ ہمارا نو تعمیر شدہ گھر کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔ وہ اپنے بیوی بچوں کو لے کر کسی سکول میں پناہ گزیں ہیں۔ اس نے کہا کہ ہم زخموں سے چور ہیں اور حیات و موت کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اگر ہمیں اس قربانی سے آزادی مل جائے تو یہ مہنگا سودا نہیں۔ یہ صرف ایک خلیلی کی داستان نہیں بلکہ اس وقت یہی صورتحال غزہ کے 20لاکھ انسانوں کی ہے۔
عارضی جنگ بندی کے بعد اب اسرائیل نے غزہ پر پہلے سے کہیں بڑھ کر درندگی سے زمینی و فضائی حملوں میں تباہ کن اضافہ کر دیا ہے۔ پہلے اسرائیل کہتا تھا کہ شمالی غزہ کو خالی کر دو اور جنوبی غزہ چلے جاؤ۔ اب وہ جنوبی غزہ پر بھی وحشیانہ حملے کر رہا ہے۔ اسرائیل تمام تر بین الاقوامی قواعد و ضوابط اور یو این او کے چارٹر کو اپنے پاؤں تلے روند کر فلسطینیوں کی نسل کُشی کر رہا ہے۔ ایک طرف اسرائیل کو امریکہ تھپکی اور لامحدود تباہ کن اسلحہ دے رہا ہے۔ امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کے مطابق اس اسلحہ میں ٹنل تباہ کرنے والے 900کلو گرام وزنی بم بھی شامل ہیں۔ دوسری طرف عرب اور مسلمان ملکوں کی خاموشی اور بے عملی نے غاصب صیہونی ریاست کو فری ہینڈ دے رکھا ہے۔اسرائیل کے نزدیک غزہ کا ہر شہری حماس کا رکن ہے‘ اس لیے قابلِ گردن زدنی ہے۔ ہولو کاسٹ میں بچ جانے والے یہودیوں کی اولاد ہٹلر کی نسل کُشی سے سبق سیکھنے کے بجائے فلسطینیوں کو ہٹلر کی ہولو کاسٹ سے کئی گنا ہولناک ہولوکاسٹ کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کا خیال ہے کہ وہ ارضِ فلسطین پر آباد فلسطینیوں کو شہید کرکے یا انہیں صحرائے سینا میں دھکیل کر غزہ کی پٹی کو بھی ایسے ہی اسرائیل میں ضم کر لے گا جیسے اس نے بزورِ شمشیر 1948ء اور پھر 1967ء میں فلسطین کے 70فیصد سے زائد علاقے پر قبضہ کر لیا تھا‘ مگر اب فلسطینی مزاحمت ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔
غزہ کی تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ وہاں شمالی یا جنوبی غزہ میں کوئی جائے پناہ نہیں۔ غزہ پر فضا سے اسرائیلی بمبار طیارے بم گرا رہے ہیں اور غزہ کی سرزمین پر صہیونی ٹینک دندنا رہے ہیں۔ ان حالات میں حماس کے جانباز اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر مزاحمت اور مدافعت کر رہے ہیں مگر ہاتھی اور چیونٹی کا کیا مقابلہ۔ امریکہ نہ صرف اسرائیل کو تباہ کن بم دے رہا ہے بلکہ اربوں ڈالر بھی دے رہا ہے۔ اہلِ غزہ پر مسلط کی گئی جنگ صرف اسرائیلیوں کی نہیں‘ یہ اب امریکہ کی بھی جنگ ہے۔ بعض امریکی افسران کا دعویٰ ہے کہ اس جنگ کے نتیجے میں مسئلہ فلسطین مستقل طور پر حل ہو جائے گا‘ تاہم امریکی طرزِ عمل ان افسران کے اس دعوے کی مکمل طور پر نفی کرتا ہے۔ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق اسرائیل نے غزہ میں موجود حماس کی سرنگوں میں ہزاروں کیوبک میٹر پانی چھوڑنے کے لیے پائپ تیار کر لیے ہیں۔ اسرائیل ان سرنگوں میں موجود حماس کے مجاہدین کو شہید کرنا اور ان سرنگوں کو ناکارہ بنانا چاہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسرائیل کو اپنے سینکڑوں یرغمالیوں کی زندگیوں کی بھی کوئی پروا نہیں۔ امریکی جریدے کے مطابق اس منصوبے کے بارے میں اسرائیل نے امریکہ کو نومبر میں اعتماد میں لیا تھا۔ گویا غزہ کے بے گناہ شہریوں پر جو بھی انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے ہیں‘ وہ امریکی اسلحے‘ امریکی ڈالروں اور امریکی ارادوں کی مدد سے ڈھائے جا رہے ہیں۔
اس دوران پانچ دسمبر کو قطر میں خلیج تعاون کونسل کی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی۔ میزبان کی حیثیت سے اس اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے امیرِ قطر نے آغاز میں ہی کہا کہ عالمی کمیونٹی کیلئے یہ انتہائی شرمناک ہے کہ اس نے اسرائیل کو غزہ میں اتنے بھیانک جرائم کرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں خلیج کونسل کے سربراہوں نے اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف کھلی جارحیت کی مذمت کی۔ کونسل نے مکمل سیز فائر کے فی الفور نفاذ کا مطالبہ بھی کیا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مقبوضہ فلسطینی حدود میں نمائندے ڈاکٹر ریک پیپرکارن(Rik Peeperkorn) نے رپورٹروں کو وڈیو لنک پر رفح سے بتایا کہ اسرائیلی جارحیت و بربریت کے نتیجے میں اس وقت غزہ میں انسانیت اپنے تاریک ترین ایام سے گزر رہی ہے۔ شمالی غزہ سے بھاگ کر جنگ زدہ لوگوں نے جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں پناہ لی مگر اسرائیل اب اس جنوبی شہر پر مسلسل بمباری اور گولہ باری کر رہا ہے۔ اس لیے اب شمالی‘ وسطی اور جنوبی غزہ سے بے گھرفلسطینیوں کا سیلاب مصر کے ساتھ فلسطین کے ملحقہ شہر رفح کی طرف آ رہا ہے۔ ضمیرِ عالم چیخ رہا ہے‘ یو این او کا سیکرٹری جنرل چیخ رہا ہے‘ عالمی ادارۂ صحت کا ذمہ دار چیخ رہا ہے مگر چھ ہزار بچوں کے قاتل نیتن یاہو کے کانوں پر جوں رنگ رہی ہے اور نہ ہی امریکہ اپنی انسانی و اخلاقی ذمہ داریوں کو پہچان رہا ہے۔ امریکہ پر اگر کوئی اخلاقی و سیاسی دباؤ ڈال سکتا ہے تو وہ اس کے عرب اتحادی ہیں۔
بدھ کے روز حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے مجلسِ اتحادِ امت پاکستان کے زیر اہتمام حرمتِ اقصیٰ کانفرنس اسلام آباد سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان سے درخواست کی کہ وہ اسرائیل کو دھمکی دے تو غزہ جنگ رُک سکتی ہے۔ حماس کے صدر کی پکار کا سرکاری سطح پر تو کوئی جواب نہیں دیا گیا‘ تاہم پاکستان کے علمائے کرام نے اپنے بھرپور اتحاد سے اپنے فلسطینی بھائیوں کی پکار پر لبیک کہا ہے۔ اس کانفرنس میں وزیر مذہبی امور انیق احمد‘ مولانا فضل الرحمن‘ جناب سراج الحق‘ مفتی تقی عثمانی‘ مفتی منیب الرحمن‘ شاہ اویس نورانی‘ علامہ ساجد میر‘ جناب اعجاز الحق وغیرہ نے خطاب کیا۔ جمعۃ المبارک کو ساری دینی جماعتوں کی اپیل پر یومِ تحفظِ اقصیٰ منایا گیا۔ کیا دنیا اتنی بے بس ہے؟ نہیں دنیا ہرگز بے بس نہیں‘ دنیا کے ہر ملک میں باضمیر یورپی و امریکی عوام انسانیت کے ناتے اسرائیل کی شدید مذمت اور فلسطینیوں کی پُر زور حمایت کر رہے ہیں۔ عالمِ اسلام بھی بے بس نہیں‘ بس عالمِ اسلام کے حکمرانوں کو اپنے اندر پاکستانی علمائے کرام کی طرح اتحاد قائم کرکے امریکی و یورپی حکمرانوں کو زور دار طریقے سے اُن کی ذمہ داریاں یاد دلانی چاہئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں