کیا 2024ء گزشتہ سال سے مختلف ہوگا؟

وقت تو ایک بہتا ہوا دریا ہے جو ازل سے ابد تک یونہی رواں دواں رہے گا۔ انسانوں نے اپنی سہولت کی خاطر وقت کو ماہ و سال کے پیمانوں میں بانٹ رکھا ہے۔ ہم نئے سال کی آمد پر خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں۔ شاید ہمیں معلوم نہیں کہ گھڑی کی سوئیوں اور کیلنڈر کی تاریخوں کے بدلنے سے کچھ نہیں بدلتا۔ فیض لدھیانوی سالِ نو سے یوں مخاطب ہوئے ہیں:
تُو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
2023ء کے واقعات و حوادث آپ کے سامنے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ دورِ جدید کے انسان نے انسانی و اخلاقی اقدار کے حوالے سے ترقی کی ہے یا اس میں تنزلی ہوئی ہے۔ 2023ء میں یقینا آئی ٹی‘ سپیس ٹیکنالوجی اور سائنس کی دنیا میں نئی دریافتیں ہوئی ہوں گی۔ انسانوں کی جگہ لینے کیلئے طرح طرح کے روبوٹس سامنے آ رہے ہیں‘ مگر دیکھنا یہ ہے کہ انسانوں نے ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنے کے حوالے سے کیا پیش قدمی کی ہے۔
یوں تو انسانی اقدار کی کئی اقسام ہیں مگر ہم صرف تین کا ذکر کریں گے۔ اہم ترین اقدار میں سرِفہرست صداقت‘ امن و امان اور عدل و انصاف ہیں۔ عالمی و علاقائی جنگوں میں لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر مغرب نے جمہوریت تک کا سفر طے کیا تھا۔ مغرب کو اس جمہوری منزل کے حصول پر بہت فخر ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ صداقت کو جمہوریت کی پہلی سیڑھی شمار کرتے ہیں‘ تاہم یہ صداقت صرف اُن کے اپنے ملکوں تک محدود ہوتی ہے۔ یہ مغربی جمہوریتیں دوسرے ملکوں کے بارے میں ہر جھوٹ اور فریب کو نہ صرف روا سمجھتی ہیں بلکہ اس پالیسی پر استمرار کے ساتھ عمل درآمد بھی کر رہی ہیں۔ یہ ترقی یافتہ حکومتیں اپنے شہریوں کیلئے تو امن و امان کے قیام کو از بسکہ ضروری سمجھتی ہیں مگر اپنے مفادات کیلئے دوسرے ممالک کو تباہی و بربادی سے دوچار کرنا پڑے تو ذرہ برابر تامل نہیں کرتیں۔
اسی طرح یہ جمہوریتیں عدل و انصاف اور انسانی حقوق کو بھی اپنے ملکوں تک ہی محدود رکھتی ہیں۔ 2023ء میں ساری دنیا نے دیکھا ہے کہ کس طرح سے سات اکتوبر سے اسرائیل غزہ پر بمباری و گولہ باری کر رہا ہے اور کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔ اس وقت تک 22ہزار سے زائد فلسطینی شہید کر دیے گئے ہیں۔ ان شہداء میں آٹھ ہزار سے زائد بچے شامل ہیں۔ لگ بھگ پچپن ہزار فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ کی 23لاکھ آبادی کے گھروں کو بموں اور ٹینکوں سے ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے‘ اس کے علاوہ فلیٹوں پر مشتمل کئی کئی منزلہ عمارتوں‘ ہسپتالوں‘ سکولوں اور مساجد کو بھی کھنڈر بنا دیا گیا ہے۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران اسرائیلی جارحیت کو روکنے اور غزہ میں جنگ بندی کیلئے درجنوں مرتبہ سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں کوششیں کی گئیں۔ مگر ہر کوشش کو امریکہ نے ویٹو کر دیا۔ اس جنگ کو بھڑکانے اور اس کے شعلوں کو علاقے کے دوسرے ممالک تک پھیلانے کیلئے دنیا کی سپرپاور علی الاعلان اسرائیل کی بے پناہ مالی مدد کر رہی ہے اور اسے اسلحہ بھی فراہم کر رہی ہے۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق امریکہ نے اسرائیل کیلئے تقریباً ڈیڑھ سو ملین ڈالر مالیت کے انتہائی تباہ کن اسلحہ کو فروخت کرنے کی منظوری دی ہے۔ جہاں تک 57مسلمان و عرب حکومتوں کا تعلق ہے تو وہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔
2023ء نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ جہاں تک بنیادی حقوق‘ جمہوری کلچر‘ عدل و انصاف اور انسانی اقدار کا تعلق ہے تو اس کے با رے میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک Selective Morality پر عمل پیرا ہیں۔ امریکہ جب چاہتا ہے کسی دوسرے ملک میں انسانی حقوق کی پامالی پر انسانی و اخلاقی اقدار کی سربلندی کا علم لہرانا شروع کر دیتا ہے اور جب اپنے سیاسی و عالمی مفادات کیلئے ضروری سمجھتا ہے تو علی الاعلان ناحق خونریزی‘ امن و امان کی پامالی‘ سرحدوں کے تقدس کی خلاف ورزی کا نوٹس تک نہیں لیتا اور مظلوموں کے بجائے ظالموں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ البتہ 2023ء میں انسانیت نوازی اور ہمدردی و غمخواری کے انتہائی دل خوش کن اور حیران کن مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔ اہلِ فلسطین پر ڈھائی جانے والی قیامت پر ساری دنیا کے انسان بلاتفریق مذہب و ملت تڑپ اٹھے ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ لاکھوں افراد کے مظاہروں میں اسرائیل کی پُرزور مذمت کی جا رہی ہے اور اہلِ فلسطین کے ساتھ اظہارِ یک جہتی اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ اکثر مغربی حکومتیں اسرائیل کی حمایت کر رہی ہیں مگر لندن ہو یا برلن‘ واشنگٹن ہو یا نیو یارک‘ شکاگو ہو یا ڈیلس‘ ہر جگہ یہودیوں سمیت لاکھوں افراد مسلسل کئی ہفتوں سے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور اسرائیل کی پُرزور مذمت کر رہے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ اجتماعی عالمی ضمیر کیلئے ظلم ناقابلِ برداشت ہے چاہے وہ دنیا کے کسی کونے میں ہی کیوں نہ کیا جا رہا ہو۔
اب چلتے چلتے یہ بھی جائزہ بھی لیتے ہیں کہ 2023ء وطن عزیز کیلئے کیسا رہا۔ اس سال کے دوران پاکستان کو سیاسی افراتفری‘ معاشی بدحالی اور دوبارہ سر اٹھاتی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ تینوں مسائل اپنی تمام تر سنگینی کے ساتھ 2024ء میں آنے والی حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج ثابت ہوں گے۔ قابلِ اعتماد انتخابات کے نتیجے میں سامنے آنے والی ایک مضبوط حکومت ان مسائل سے کامیابی کے ساتھ نبرد آزما ہو سکتی ہے۔ اگر مضبوط منتخب جمہوری حکومت کے بجائے کوئی اور بندوبست سامنے آیا تو ہمارے مصائب و مشکلات میں اضافہ ہی ہو گا‘ کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔ جس طرح سے ایک سیاسی پارٹی کے بہت سے امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہوئے ہیں اس سے انتخابات کی شفافیت پر بہت سے سوالات اُٹھ گئے ہیں۔ جہاں تک معیشت کا تعلق ہے تو ڈیفالٹ کا خطرہ وقتی طور پر ٹلا ہے مگر ختم نہیں ہوا۔ ہماری معاشی مشکلات کا حل اپنے قدموں پر کھڑی معیشت ہے۔ سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک کب تک ہماری مدد کرتے رہیں گے۔ معیشت کی ڈوبتی اُبھرتی نیاّ کو ہمیں خود ہی کنارے لگانا ہوگا۔ ایک اور بات کا بھی آنے والی حکومت کو خیال رکھنا ہو گا کہ عالمی بینک کی رپورٹ کی روشنی میں غریبوں پر نہیں‘ اشرافیہ پر زیادہ بوجھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔
آج پھر اس بات کو دہرا رہا ہوں کہ اقتصادی و مالی مسائل کا حل سیاسی استحکام سے جڑا ہوا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ انتخابات کے موقع پر پری پول مینجمنٹ کی جاتی ہے جس سے نتائج کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں۔ اس بار بھی اگر 2018ء کی طرح ہوا تو سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔ نئی حکومت کو ایک تیز نگاہ اور متحرک خارجہ پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔ خلیج اور شرقِ اوسط میں بگڑتے ہوئے حالات میں ہمیں بھی بروقت فیصلے کرنا ہوں گے۔ ہمیں اپنے پڑوسی ممالک بالخصوص بھارت کے ساتھ معاملات سلجھانا ہوں گے۔ جب تک عالمی طاقتیں بلاامتیاز سب کیلئے عدل و انصاف کا یکساں معیار دل و جان سے تسلیم نہیں کرتیں اور ان پر عمل پیرا نہیں ہوتیں تو اس وقت تک دنیا لاکھ مہذب ہونے کا دعویٰ کرتی رہے مگر وہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے زمانے سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔
2024ء کے آغاز میں اگر ہم صاف و شفاف انتخابات کروانے اور حقیقی جمہوری حکومت کے قیام میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر ان شاء اللہ ہمارے بہت سے دکھوں کا مداوا ہو جائے گا وگرنہ ہم ہوں گے اور وہی گردابِ مسلسل۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں