غزہ‘ پاکستانی امریکن ڈاکٹرز اور وزیراعظم پاکستان

گزشتہ چھ سات ماہ سے ہیبت ناک اسرائیلی دیو اہلِ غزہ پر وہ مظالم ڈھا رہا ہے جنہیں برداشت کرنے کی انسان میں سکت ہی نہیں۔ مگر آفرین ہے ان فلسطینیوں پر جو نہتے ہو کر بھی تباہ کن صہیونی وار مشینری کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ گزشتہ 205 دنوں کے دوران شب و روز کا کوئی ایک لمحہ ایسا نہیں گزرا جب اسرائیل نے فضا یا زمین سے غزہ کے مکینوں کو نشانہ نہ بنایا ہو۔صہیونی فوجوں نے اہلِ غزہ کے دو چار نہیں‘ تیرہ ہزار پھول سے بچے ذبح کر دیے ہیں۔ اس پر عوامی ضمیرِ عالم تو تڑپا ہے‘ سٹپٹایا ہے اور بے قرار ہو کر صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے سڑکوں پر اور یونیورسٹیوں میں نکلا ہے اور مسلسل نکل رہا ہے۔ اب تک ساڑھے 34 ہزار فلسطینی شہید اور تقریباً 78 ہزار شدید زخمی ہو چکے ہیں مگر دنیا کی سپر پاور امریکہ اور اُس کی ہاں میں ہاں ملانے والی یورپی حکومتیں ہر طرح سے اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔
جہاں تک عالمِ اسلام کی حکومتوں کا تعلق ہے وہ نہایت ''اخلاص‘‘ کے ساتھ اظہارِ افسوس کر رہی ہیں۔ حالیہ دنوں ریاض میں منعقدہ ورلڈ اکنامک فورم کی دو روزہ کانفرنس کے موقع پر سعودی عرب کے وزیراعظم محمد بن سلمان نے اپنے خیر مقدمی خطاب میں دنیا کو خبردار کیا کہ غزہ میں جاری حملوں سے خطے کے امن کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں‘ اگر یہاں بدامنی پھیلتی ہے تو اس کے عالمی معیشت پر ہولناک اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سے قبل سعودی وزیر منصوبہ بندی نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ دنیا ایک تنے ہوئے رسے پر چل رہی ہے اور سکیورٹی و خوشحالی کے لیے توازن قائم رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سعودی وزیر نے کہا کہ ہم ورلڈ اکنامک فورم میں ایک ایسے موقع پر ملاقات کر رہے ہیں کہ جب موجودہ نازک حالات کو سمجھنے‘ ان کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانے یا ان کے بارے میں کمیونیکیشن کی کوئی ایک غلطی بھی بہت بڑی مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے بھی ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت کی۔ یقینا انہیں اندازہ ہو گیا ہوگا کہ غزہ کی صورتحال سے خطے کا امن اور عالمی معیشت جڑے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان بظاہر ریاض کے اس فورم میں اور اس سے قبل سعودی زعما کے ساتھ ملاقاتوں میں بہت متحرک رہے ہیں۔ البتہ وہاں بھی میاں شہباز شریف اپنے نشیمن کی سیاست میں اُلجھے رہے۔ خدا جانے ایسی کیا ایمرجنسی آن پڑی کہ انہیں وہاں سے اپنا ''شریکِ اقتدار‘‘ ڈپٹی وزیراعظم بقلم خود مقرر کرنا پڑا۔
امریکی و یورپی حکومتوں کی ترجیحات اپنی جگہ اور عالمِ اسلام کی ''مجبوریاں‘‘ اپنی جگہ مگر آزاد دنیا کے آزاد شہری ہر طرح سے اپنی انسانی ذمہ داریاں پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ طرح طرح کی عالمی میڈیکل تنظیمیں اور رفاہی ادارے غزہ میں طبی امداد پہنچانے اور انہیں غذا فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مارچ میں امریکہ کی ایک تنظیم نے آٹھ رکنی میڈیکل ٹیم دو ہفتوں کے لیے غزہ روانہ کی۔ یہ ٹیم بیشتر امریکی اور دو تین یورپی ڈاکٹرز پر مشتمل تھی۔ اس طبی مشن میں دو پاکستانی امریکن ڈاکٹرز بھی شامل تھے۔ ایک ایمرجنسی سپیشلسٹ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر بلال پراچہ اور دوسری گائناکالوجسٹ حنا چیمہ۔ مشن میں شامل ہر فرد نے غزہ تک آنے جانے کے اخراجات خود برداشت کیے۔ ڈاکٹرز خود ہی بہت سی لائف سیونگ اور دیگر ادویات بھی اپنے ساتھ لے کر گئے تھے۔ یہ ڈاکٹرز غزہ کے علاقے دیر البلاح کے الاقصیٰ ہسپتال میں دو ہفتوں تک رات دن زخمیوں اور بیماروں کا علاج کرتے رہے۔ وہاں سے واپس آ کر ڈاکٹر بلال نے پاکستانی چینلز اور امریکہ کے فاکس اور سی بی ایس نیوز پر انٹرویوز دیتے ہوئے بتایا کہ غزہ میں خوراک اور ادویات کی انتہائی قلت ہے‘ نیز 78 ہزار زخمیوں میں سے کئی کئی ہزار کو اگر فوری طور پر علاج کی سہولتیں مہیا نہ کی گئیں تو ان کی زندگی شدید خطرے سے دوچار ہو جائے گی۔اُن کا کہنا تھا کہ غزہ کے 34ہسپتالوں میں سے اس وقت صرف نو اپنی لرزتی ہوئی عمارتوں کے ساتھ جزوی طور پر کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی کہا کہ اُن سے مریض اور وہاں کے لوکل ڈاکٹرز پوچھتے تھے کہ آپ کا تعلق کہاں سے ہے تو میں انہیں بتاتا ''انا مولود بالطائف‘ اصلاً من الباکستان‘ جئتُ من امریکا‘ دمی فلسطینی و انا مسلم‘‘۔ میں طائف میں پیدا ہوا‘ میرا آبائی وطن پاکستان ہے‘ اب میں امریکہ سے آیا ہوں‘ میری رگوں میں فلسطینی محبت کا خون گردش کر رہا ہے۔ ''اصلاً باکستانی‘‘ کا لفظ سن کر میرے فلسطینی مریضوں کے چہرے خوشی سے تمتمانے لگتے۔ وہ کہتے: ماشاء اللہ باکستان الشقیق۔ پاکستان تو ہمارا بھائی اور جگری دوست ہے۔ انہوں نے پاکستانی عوام‘ پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف اورآرمی چیف جنرل عاصم منیر کے لیے سلامِ محبت بھجوایا ہے۔ وہاں پاکستانی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن نے ہزار رکاوٹوں کے باوجود خوراک اور ننھے بچوں کی ضروریات کے ہزاروں تھیلے پہنچائے ہیں جن کی ہمارے فلسطینی بھائیوں کے دلوں میں بہت قدر ہے۔
ڈاکٹر بلال نے نہایت دل سوزی کے ساتھ وزیراعظم پاکستان کے نام آن لائن پیغام اس درخواست کے ساتھ ہمیں بھجوایا ہے کہ ہم ان تک پاکستانی ڈاکٹرز کے جذبات پہنچا دیں۔ ان ڈاکٹروں نے اپنے پیغام میں بتایا کہ اس وقت غزہ کے شدید زخمیوں کو فوری علاج معالجے اور عام بیماریوں کے طبی معائنے کی شدید ضرورت ہے۔ بعض ملکوں نے غزہ میں اپنے عارضی ہسپتال قائم کر رکھے ہیں۔ ہم نے وہاں اردنی فوج کے فیلڈ ہسپتال کو بھی دیکھا ہے۔ ڈاکٹر بلال کا کہنا ہے کہ ہمارے غزہ جانے کے بعد بہت سے پاکستانی اوریجن کے غیرملکی ڈاکٹرز ذاتی اخراجات پر اپنے فلسطینی بھائیوں کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے مسلسل غزہ پہنچ رہے ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم اور آرمی چیف سے ہماری درخواست ہو گی کہ وہ مصر کے ذریعے غزہ میں اردن وغیرہ کی طرح آرمی فیلڈ ہسپتال قائم کریں۔ اوورسیز پاکستانی ڈاکٹرز‘ جو اس وقت کچھ اور ملکوں اور عالمی تنظیموں کے ساتھ کام کر رہے ہیں‘ انہیں اپنے ملک کے قابلِ فخر ادارے کے قائم کردہ ہسپتال میں کام کرکے بہت خوشی ہوگی۔
پاکستانی امریکن ڈاکٹروں کے پیغام میں کہا گیا ہے کہ اس ہسپتال کے ممکنہ اخراجات کا اکثریتی بوجھ یہ فرزندانِ پاکستان بطیب خاطر برداشت کریں گے۔ ڈاکٹر بلال نے بہت سے پاکستانی امریکن ڈاکٹروں کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ہم نے غزہ جا کر یہ بھی آبزرو کیا ہے کہ برادر مسلم ملک مصر کے تعاون سے پاکستانی ڈاکٹرز بھی غزہ جا سکتے ہیں۔ یہ پاکستانی امریکن ڈاکٹرز پاکستان آ کر جناب وزیراعظم کو اپنے میڈیکل پروگرام کی تفصیلات سے آگاہ کر سکتے ہیں۔وقت کی سب سے اہم ضرورت غزہ میں مستقل بنیادوں پر سیز فائر ہے۔ اس فلسطینی ریاست کا تباہ حال انفراسٹرکچر اور کھنڈرات بنی رہائشی عمارتوں کی تعمیر نو پر سالہا سال لگیں گے۔ اہلِ غزہ کے جسمانی زخم مندمل ہونے میں بھی نہ جانے کتنے برس بیت جائیں گے بقول شاعر
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
البتہ اہلِ غزہ کی روح پر اپنوں اور پرایوں کے لگائے ہوئے گھاؤ مندمل ہونے میں نہ جانے کتنی صدیاں لگیں گی۔ حال ہی میں اسرائیلی فوجوں نے النصر ہسپتال خان یونس کا محاصرہ ختم کیا تو وہاں سینکڑوں افراد کی اجتماعی لاشیں دریافت ہوئیں۔ یہ صہیونیوں کی درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے‘ بہرحال فوری طور پر پاکستان کو آگے بڑھ کر غزہ میں فیلڈ ہسپتال قائم کرنے چاہئیں۔حکومتِ پاکستان کو پاکستانی امریکن ڈاکٹروں کی اس پیشکش پر غور کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں