یہ کہنا خاصا مضحکہ خیز لگتا ہے کہ لڑکیوں کیلئے تعلیم ضروری ہے۔ لڑکیاں ہوں یا لڑکے اُن کیلئے تعلیم ضروری ہی نہیں لازمی ہے۔ نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی گو کہ عمر میں چھوٹی ہیں مگر انہوں نے اتوار کے روز اسلام آباد میں لڑکیوں کی تعلیم کیلئے منعقد کی گئی بین الاقوامی کانفرنس میں ساری ہی بڑی سچی باتیں کہہ ڈالی ہیں۔ ملالہ نے بالخصوص اپنے خطے میں لڑکیوں کی تعلیم میں حائل رکاوٹوں کی بالکل درست نشاندہی کی ہے۔ یوسفزئی قبیلے سے تعلق رکھنے والی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان خاتون نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ گزشتہ دس برس سے افغان لڑکیوں کو زیورِ تعلیم سے محروم رکھا گیا ہے انہوں نے اس حوالے سے طالبان حکومت پر شدید تنقید کی ۔
آج تک طالبان نے کسی اسلامی فورم میں یہ وضاحت نہیں کی کہ انہوں نے کس اصولِ دین کے مطابق خواتین کو تعلیم کے حق سے محروم کر رکھا ہے۔ کس نصِّ صریح کا سہارا لے کر انہوں نے افغان خواتین کی دانش گاہوں پر تالے لگا رکھے ہیں۔ ہمیں اُس زمانے کے سعودی عرب کی وزارتِ تعلیم کے کالجوں میں تدریسی فرائض ادا کرنے کا موقع ملا جب سعودی عرب پر مطوعین(مولوی حضرات) کا غلبہ تھا۔ تاہم شاہ فیصل نے اکابر علما کے ساتھ قرآن و حدیث کی روشنی میں مکالمہ کر کے اور اُن کے اعتراضات کو سُن کر یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ بنین یا بنات یعنی لڑکے ہوں یا لڑکیاں‘ تعلیم دونوں کا دینی و سماجی فریضہ ہے۔
شاہ فیصل نے لڑکیوں اور لڑکوں کیلئے ابتدائی سے لے کر اعلیٰ درجے تک الگ الگ مدارس‘ جامعات اور انتظامی اداروں کا نظام رائج کر دیا تھا۔ 1970ء کی دہائی سے لے کر 2000ء تک تدریسی فرائض کی ادائیگی کیلئے عرب اور مسلم دنیا سے مرد اور خواتین اساتذہ بڑی تعداد میں آتے تھے اور سعودی مدارس و جامعات میں تدریسی فرائض انجام دیتے تھے ۔ گزشتہ 20 برس سے سعودی عرب میں آرٹس ہی نہیں‘ سائنس کی تدریس کے لیے سعودی مدرسین و مدرسات سکولوں اور یونیورٹیوں میں آ چکے ہیں۔
ہماری تجویز یہ ہے کہ افغانستان اس سعودی ماڈل کو بلاتاخیر اختیار کر کے اپنے ہاں فوری طور پر لڑکیوں کے مدارس اور جامعات میں تعلیم کا سلسلہ فی الفور جاری کر سکتا ہے۔ افغانستان میں تو پہلے سے اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین ٹیچرز موجود ہوں گی جو ہر سطح کے گرلز تعلیمی اداروں میں فوری طور پر کام شروع کر سکتی ہیں۔ اس وقت سعودی عرب میں اپنی ٹیچرز خواتین ہی نہیں اپنی ڈاکٹرز‘ میڈیکل سٹاف‘ کمپیوٹر انجینئرز وغیرہ بھی کافی تعداد میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ہمیں حیرت ہے کہ اب افغانستان میں امراضِ نسواں کا علاج کون کرتا ہوگا۔
اگر افغان خواتین ڈاکٹرز نہیں ہوں گی تو پھر مرد ڈاکٹر ہی علاج کریں گے۔ طالبان امت ِمسلمہ کو بتائیں کہ کیا یہ امر پسندیدہ ہوگا؟ ہم نے تو اعتدال پسند علمائے کرام سے یہاں تک سُن رکھا ہے کہ مسلمان عورت حجاب کی حدود میں رہتے ہوئے جہاز بھی اڑا سکتی ہے۔کہا جاتا تھا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مثالی ہوں گے اور پاکستان مغربی بارڈر سے بے فکر ہو جائے گا۔ یہ بھی سوچا جا رہا تھا کہ پاکستان کی قربت سے طالبان حکومت بہت حد تک ماڈریٹ ہو جائے گی۔
تاہم یہ سارے اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ پاکستان کے خلاف کالعدم ٹی ٹی پی افغان سرزمین سے دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہی ہے ۔ طالبان حکومت پاکستان کے40 سالہ احسانات کو بھلا کر ٹی ٹی پی کو ان تخریبی کارروائیوں سے نہیں روکتی‘ لہٰذا ان حالات میں پاکستان تو خواتین کی تعلیم کے سلسلے میں طالبان حکومت پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ اس سلسلے میں اسلامی و عالمی فورمز کو دو ٹوک انداز میں فی الفور اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
ملالہ یوسفزئی نے غزہ کا تعلیمی ڈھانچہ تباہ کرنے کے جرم میں نیتن یاہو کی حکومت پر بھی شدید تنقید کی ۔ غزہ میں شرح خواندگی 90 فیصد سے اوپر تھی۔ ہمیں ذاتی طور پر معلوم ہے کہ وہاں دنیا کے کونے کونے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ فلسطینی مقدس مٹی کی محبت میں گزشتہ دو تین دہائیوں سے بطورِ خاص واپس اپنے وطن آ کر تعلیمی و اقتصادی ترقی کے فروغ کیلئے رات دن محنت کر رہے تھے۔ 25 لاکھ آبادی کی اس شہری ریاست میں 14 سے زیادہ یونیورسٹیاں تھیں جن میں طلبہ و طالبات عالمی معیار کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اسرائیل کی ظالم صہیونی حکومت نے تقریباً سو فیصد تعلیمی ادارے تباہ کر دیے ہیں۔ لاکھوں فلسطینی طلبہ و طالبات کا سلسلہ تعلیم گزشتہ سوا سال سے مکمل طور پر منقطع ہے۔45 ہزارمعصوم بچے کہ جنہیں ایک سال سے سکولوں میں ہونا چاہیے تھا مگر وہ بیچارے سردی سے ٹھٹھرتے‘ بھوک سے بلکتے اور آسمان و زمین سے برستی ہوئی آتش و آہن سے محفوظ رہنے کے لیے اپنی ماؤں کی گود میں چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان اسرائیلی جرائم پر عالمی عدالت انصاف نے زبردست ایکشن لیا تھا مگر اس کے فیصلوں کو ابھی تک نیتن یاہو اور اس کی مجرم حکومت پر نافذ نہیں کیا جا سکا۔ یو این او کے سلامتی کونسل اور یونیسکو جیسے ادارے اپنے فرائض سے غفلت برت رہے ہیں یا سپر پاور کے سامنے بے بس ہیں۔اس سلسلے میں عرب اور اسلامی فورمز نے بھی ہلکی پھلکی مذمتی قراردادوں کی منظوری کے علاوہ کوئی فیصلہ کن قدم اٹھایا اور نہ ہی امریکہ اور یورپ پر کسی طرح کا کوئی دباؤ ڈال کر سیز فائر کروانے کی کوشش کی۔
ملالہ یوسفزئی نے پاکستان میں بھی لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے شدید مگر جائز تنقید کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ وطن عزیز میں سوا کروڑ سے اوپر لڑکیاں اَن پڑھ اور جاہل ہیں۔ تعلیم سے محروم تقریباً اتنی ہی تعداد لڑکوں کی بھی ہے۔ اس طرح اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر زندگی کی سفاک رتھ میں جتے ہوئے ہیں۔ نورِ علم سے ان بچوں کی محرومی کی ذمہ داری ہماری حکومتوں‘ معاشرے‘ میڈیا‘ دانشوروں اور ہمارے علمائے کرام‘ سبھی پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستانی حکومت نے بیچارے غریب عوام پر رنگ برنگے اَن گنت ٹیکس لگا رکھے ہیں۔ حکومت ہر پاکستانی لڑکے اور لڑکی کی تعلیم کو اسی طرح یقینی بنائے جیسے وہ پولیو کی ویکسین کو ہر بچے کے لیے یقینی بناتی ہے۔
پنجاب کی وزیراعلیٰ بظاہر دلِ درد مند رکھتی ہیں۔ ماشاء اللہ روزانہ وہ بڑے بڑے دعوے کرتی اور اپنی ریڈ لائن کا اعلان کرتی رہتی ہیں۔ یقینا یہ ایک اچھی بات ہے مگر وہ بلاتاخیر پنجاب کی ہر بچی اور ہر بچے کیلئے حصولِ تعلیم کو بھی اپنی ریڈ لائن قرار دیں۔پنجاب میں اس وقت ایک کروڑ 30 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں جن میں ساٹھ لاکھ لڑکیاں اور ستر لاکھ لڑکے ہیں۔ دردمند وزیراعلیٰ کیسے برداشت کر لیتی ہیں کہ سات آٹھ سال کی کملائے ہوئے پھول جیسی بچی لوگوں کے گھروں میں برتن مانجھ رہی ہو یا آٹھ نو سال کا بچہ سکول کی بجائے ورکشاپوں پر ''چھوٹے‘‘ کی حیثیت سے استاد کی گالیاں اور جھڑکیاں سن رہا ہو۔اس سلسلے میں وزیراعلیٰ پنجاب باقاعدہ قانون سازی کریں اور سولہ سال سے کم عمر بچے اور بچی کیلئے تعلیم کو یقینی بنائیں ۔
اگر محترمہ مریم نواز صاحبہ حصولِ تعلیم کیلئے قربانی دینے والی ملالہ یوسفزئی کو یہ یقین دہانی کرا دیں کہ اگلے تین سال میں پنجاب کی کوئی بچی زیور تعلیم سے محروم نہیں رہے گی تو ملالہ بصد مسرت و اطمینان واپس برطانیہ جا سکیں گی کہ اُن کی قربانی اور محنت رنگ لے آئی ہے۔