اگلا محاذ

سابق سیکرٹری خارجہ جناب اعزاز احمد کو سننا کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔ پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے اُن کی گفتگو نہایت خیال افروز تھی۔ انہوں نے عالمی سفارتی حلقوں اور تھنک ٹینکس کے حوالے سے بتایا کہ چار روزہ جنگ کے نتیجے میں بھارت کی جنوبی ایشیا‘ بالخصوص پاکستان پر روایتی و جدید جنگی برتری کا تاثر چکنا چور ہو گیا ہے۔ نیز بھارت کا پاکستان کے بارے میں بیانیہ بھی اب پِٹ چکا ہے‘ اسے عالمی حلقوں میں اب سنا جا رہا ہے اور نہ ہی کوئی اس پر اعتبار کرنے کو تیار ہے۔ دو روز قبل لاہور میں میزبان بیگم صباحت رفیق کی رہائش گاہ پر اہلِ دانش خواتین و حضرات نے اپنی اپنی بصیرت کے چراغ جلائے۔ پاک بھارت تعلقات اور حالیہ جنگ کے حوالے سے سیاسی و واقعاتی اعتبار سے تفصیلی اظہارِ خیال کیا۔
ہم اس سے پہلے بھی ان صفحات پر مئی کی چار روزہ جنگ کے بارے میں لکھ چکے ہیں‘ تاہم تازہ ترین صورتحال کے پیشِ نظر اور بھارت میں پاکستان کے خلاف حکمران جماعت کی طرف سے تیزی کے ساتھ پھیلائی جانے والی نفرت کے حوالے سے اپنا نقطۂ نظر مذکورہ بالا علمی و فکری نشست میں پیش کیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ قارئین کرام کو بھی اس گفتگو میں شریک کیا جائے۔ چار روزہ جنگ کے دوران بھارت کی کوشش تھی کہ وہ روایتی جنگ کے ہلکے ہلکے شعلوں کو دھکاتا رہے تاکہ یہ آگ بھارت کے موجودہ ریاستی انتخابات میں نریندر مودی کی شعلہ بیانی کیلئے انگارے فراہم کرتی رہے۔
بھارت کا خیال تھا کہ ہمارے حملوں کے جواب میں پاکستان کسی شدید ردِعمل کا اظہار کرے گا اور نہ ہی اس کے پاس اتنی سکت ہے‘ مگر جب پاکستان نے جدید ترین طیاروں‘ میزائلوں اور سائبر حملوں کے ذریعے بھارتی جنگی مشینری اور بجلی کے ترسیلی نظام کو جام کر دیا تو جہاں بھارت ششدر رہ گیا وہاں ساری دنیا کو معلوم ہو گیا کہ پاکستان نے امریکی اور فرانسیسی جنگی جہازوں کے بجائے چینی فضائی وار مشینری کے ذریعے بھارت پر اپنی برتری ثابت کر دی۔ اس کامیابی پر پاکستان میں سجدۂ شکر کے ساتھ ساتھ جشنِ فتح منایا گیا۔ اب ہمیں فتح کے نشے اور یوفوریا (Euphoria) کے مرحلے سے آگے بڑھنا چاہیے۔
سمجھ لیجئے ہمیں اب اگلا چیلنج درپیش ہے جس کیلئے تیاری کرنا ہوگی۔ حالیہ بھارتی جارحیت اب اس کے گلے پڑ گئی ہے۔ پاکستانی برق رفتار جوابی حملوں کے نتیجے میں بھارت کی واضح شکست کے بعد بھارتی وزیراعظم مودی پر انڈیا میں شدید تنقید ہو رہی ہے۔ اب مودی جلسے جلوسوں میں پاکستان کے خلاف لفظی جنگ کے شعلوں کو خوب بھڑکا رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وہ دریائوں کے پانی سے پاکستان کو ایک قطرہ نہیں دے گا۔ بھارت فنّی اور قانونی طور پر ایسا نہیں کر سکتا مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ شاید اگلی پاک بھارت جنگ پانی پر ہی ہو سکتی ہے۔
سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد کی رائے میں نریندر مودی پانی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس کیلئے ہمیں عالمی فورمز پر اپنی قانونی جنگ مکمل تیاری کے ساتھ لڑنا ہو گی۔ ہمیں بھارت پر واضح کرنا ہو گا کہ 25کروڑ عوام کی رگِ حیات کاٹنا عملاً ناممکن ہے‘ تاہم اگر پڑوسی نے ایسی شرارت کی تو اسے پاکستان کے خلاف کھلم کھلا اعلانِ جنگ سمجھا جائے گا۔ بیگم صباحت رفیق نے بھی سندھ طاس معاہدہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ ہماری رائے میں اگلے چند ماہ کے دوران بھارتی چیلنج کے جواب کیلئے چار پانچ شعبوں پر بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ اس چار روزہ جنگ کے دوران پاکستان کو دفاعی ضروریات میں جو جو کمی محسوس ہوئی اسے پورا کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ ہمیں اپنی فضائی مشینری اور میزائلوں کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔ مصنوعی ذہانت سے کنٹرول کردہ جنگی صلاحیت کو بھارتی ردِعمل کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔
حالیہ جنگ میں پاکستان کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے کہ چین نے پہلی مرتبہ پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے ایک دلچسپ عربی محاورہ ہے کہ اگر تمہارا بھائی شہد ہے تو پھر سارا مت کھا جاؤ۔ مگر فارسی زبان کا بھی ایک محاورہ ہے کہ ''حسابِ دوستاں در دل‘‘۔ اس لیے ہمیں چین سے جدید ترین ففتھ جنریشن طیارہ J-35 A حاصل کرنے کیلئے اپنے دوست تک یہ درخواست پہنچانی چاہیے۔ دوست بھی اپنے دوستوں کی تب مدد کرتے ہیں جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ دوست کے دست و بازو بھی مضبوط ہیں۔
آج کی دنیا میں جدید ترین دفاعی مشینری کے حصول اور دفاعی اخراجات کی کسی رکاوٹ کے بغیر فراہمی اور عوام کی خوش حالی کیلئے اکانومی کی مضبوطی نہایت ضروری ہے۔ اقتصادی ترقی کا خواب گزشتہ دو تین دہائیوں سے ہماری پلکوں میں سجا ہوا ہے مگر ابھی تک اس کی حسبِ خواہش تعبیر کو ہم ترس رہے ہیں۔ یہی ہماری فالٹ لائن ہے جس سے بھارت کو حوصلہ ملتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ بڑے بزنس مینوں پر ٹیکس لگانے کا کوئی مؤثر نیٹ ورک ابھی تک قائم نہیں ہو سکا۔
اب تو برسوں سے کوئی بڑی انڈسٹری ملک میں نہیں لگ سکی۔ اگر آپ آئی پی پیز کی تیار کردہ بجلی اور قدرتی گیس مہنگے نرخوں پر دیں گے تو صنعتکار کیسے نئے کارخانے لگائیں گے۔ ابھی تک ہماری معیشت غیر ملکی قرضوں کی مرہونِ منت ہے۔ غیرملکی قرضوں سے نجات اور خود کفالت حاصل کرنے کیلئے سنجیدگی سے غور و فکر کرنے اور اقتصادی ماہرین سے مشوروں کی روشنی میں انقلابی اصلاحات اور تیز رفتار معاشی ترقی والی پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت ہر لحاظ سے اللہ کے فضل سے پاکستان کا پلڑا بھاری ہے۔ گزشتہ ہفتے پاکستانی وزیراعظم اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے برادر مسلم ملکوں کے دورے میں پاکستان کو زبردست پذیرائی ملی‘ تاہم اگلی تیاری کیلئے ہمیں قومی یکجہتی کی بے حد ضرورت ہے۔ نیز اقتصادی شعبے میں سیاسی استحکام کے بغیر کوئی بڑی کامیابی ممکن نہیں۔ موجودہ حکومت کو اس طرف سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینی چاہیے۔ ناراض بلوچ بھائیوں کے گلے شکوے دور کرنے کیلئے بلوچ رہنماؤں کے ساتھ مل کر اقدامات ہونے چاہئیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی والے دوستوں کی تالیفِ قلب اور رہائی کیلئے فراخدلی کے ساتھ کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
جناب اعزاز احمد کے تجزیے کے مطابق تین کاموں کی طرف حکومت اور مقتدر حلقوں کو توجہ دینی چاہیے۔ 2016ء میں کلبھوشن یادیو سے لے کر 2025ء میں جعفر ایکسپریس تک بلوچستان کے اندر کی جانے والی بھارتی دہشت گردی کی تفصیلات کو ثبوتوں کے ساتھ جمع کر کے دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ اسی طرح ہمیں سندھ طاس معاہدہ اور کشمیر کے حوالے سے اپنا کیس بھرپور طریقے سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت دنیا ڈونلڈ ٹرمپ سمیت ہماری بات سننے اور اس پر یقین کرنے کو تیار ہے۔
اکتوبر‘ نومبر میں بھارتی ریاست بہار میں 243 نشستوں کیلئے ریاستی انتخابات ہونے ہیں‘ یہ الیکشن مودی کے مستقبل کیلئے فیصلہ کن ہوگا۔ اس سے پہلے مودی پہلگام کی طرح کا کوئی ڈرامہ کھڑا کرکے پاکستان کے خلاف اگلا محاذ کھول سکتا ہے۔ اس سے پہلے ہمیں قومی یکجہتی اور اقتصادی ترقی کا ہوم ورک مکمل کر لینا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں