عیدالاضحی اور بھوک سے تڑپتے اہلِ غزہ

دل تو یہی چاہتا ہے کہ کوئی ایسا اجتہاد ہو جائے یا علمائے امت کے درمیان کوئی ایسا اتفاق طے پا جائے کہ کم از کم عید الاضحی سعودی عرب کے ساتھ منائی جائے۔ بظاہر یہ کتنی حیران کن بات ہے کہ جس روز میدانِ عرفات میں حج کے رکنِ اکبر کے مناسک ادا کئے جا رہے ہوں اس روز ہمارے ہاں پاکستان میں 8ذو الحجہ ہو۔ میں نے جمعرات کے روز میدانِ عرفات میں اپنے بھائی محمد یوسف پراچہ سے بات کی۔ میرے قیامِ سعودی عرب کے دوران اللہ نے کئی بار اس عاصی کو میدانِ عرفات میں حاضر ہونے اور توبہ استغفار کی توفیق دی اور حج کی سعادت عطا فرمائی۔ تاہم اب بھی عرفات کے میدان میں حجاج کرام کو لبیک اللھم لبیک‘ اے اللہ میں حاضر ہوں‘ میں حاضر ہوں... بآواز بلند دہراتے ہوئے سنتا ہوں تو نہاں خانۂ دل سے یہی صدا بلند ہونے لگتی ہے: لبیک اللھم لبیک۔ دل یہ چاہتا ہے کہ کاش میں بھی وہاں موجود ہوتا۔
امریکی مسلم علمائے کرام نے بالعموم متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ ابتدائے رمضان المبارک اور عید الفطر کی تاریخیں رویت ہلال کا جدید ترین طریقوں کے مطابق پہلے سے حساب کتاب لگا کر طے کر دی جائیں مگر جہاں تک عید الاضحی اور ایامِ حج اور یوم عرفہ وغیرہ کا تعین ہے تو اس میں سعودی عرب کے طے کردہ کیلنڈر کی پابندی کی جائے۔ یعنی جس روز سعودی عرب میں عید الاضحی ہو‘ اسی روز امریکہ میں بھی عیدِ قربان منائی جائے۔
میں نے جمعرات کے روز رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین جناب مفتی منیب الرحمن صاحب سے فون پر بہت سے لوگوں کی اس خواہش کا اظہار کیا کہ ساری امتِ مسلمہ ایک روز ہی عید الاضحی منائے۔ مفتی صاحب نے دو ٹوک جواب دیا کہ اسلام ایک آفاقی دین ہے‘ اس میں بہت تنوع ہے۔ کہیں سورج طلوع ہو رہا ہے تو کہیں غروب ہو رہا ہے۔ مفتی صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا ساری دنیا کے مسلمان ایک ہی وقت میں نماز ادا کرتے ہیں؟ کہیں نمازِ فجر ادا کی جا رہی ہوتی ہے تو کہیں عین اسی وقت نماز عشاء ادا کی جا رہی ہوتی ہے۔ مفتی صاحب کی بات دلیل و منطق کے میزان پر تو پوری اترتی مگر حج جیسے سرزمین حجاز میں ادا ہونے والے منفرد فریضے کے حوالے سے کسی اجتہادی راستے کے امکانات کا جائزہ لینے میں غالباً کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔ دیکھئے ہماری اس درخواست کے جواب میں حضرت مفتی منیب الرحمن صاحب اور دیگر حضرات علمائے کرام کیا ارشاد فرماتے ہیں۔
عید الاضحی کے موقع پر ساری امت مسلمہ ربِ ذوالجلال کے حضور اپنی اپنی استعداد کے مطابق قربانی پیش کرتی ہے۔ قربانی کے اس انعام کے پس منظر میں جو عظیم واقعہ ہے اس کو باری تعالیٰ قرآن مجید کی سورۃ الصافات کی آیت: 102میں یوں بیان فرماتے ہیں:
''پھر وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہو گیا‘ (ابراہیم نے) کہا: اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا کہ میں تجھے ذبح کرتا ہوں۔ اب تو دیکھ کہ تیری کیا رائے ہے؟ (بیٹے نے) کہا: اے ابا جان! کیجئے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے۔ خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔
سارے واقعے کی خالقِ دو جہاں نے کیا زبردست تصویر کشی کی ہے۔ باپ رب کے احکامات کی بجا آوری کے لیے دل و جان سے مستعد ہے۔ پیغمبر کے دل میں ادنیٰ سا بھی خیال نہیں آتا کہ اسے کیسا حکم دیا جا رہا ہے۔ پھر بیٹا دیکھئے کہ اپنے لڑکپن میں ہی کتنا تابع فرمان اور تسلیم و رضا کے کس مقام پر کھڑا ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بھی اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام سے عرض کیا کہ آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے اس کو بجا لائیں۔ دیکھئے مرشد اقبال نے اس عظیم واقعے سے کیسا عظیم درس حاصل کر کے امت مسلمہ تک پہنچایا ہے۔ مرشد فرماتے ہیں:
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
آج کی نژادِ نو جائزہ لے کہ وہ آدابِ فرزندی کے کس درجے پر کھڑی ہے‘ تاہم سارا دوش انہیں بھی نہیں دیا جا سکتا۔ ہمیں بھی دیکھنا ہے کہ ہم نے نئی نسل کے لیے فیضانِ نظر کا بھی کوئی اہتمام کیا ہے یا نہیں۔ جہاں تک آج کے مکتب یعنی سکول‘ کالج کا تعلق ہے تو وہ الّا ماشاء اللہ فیضانِ نظر سے بالکل تہی نظر آتے ہیں۔اس سارے واقعے میں قربانی کا درس محض جانوروں کی قربانی تک محدود نہیں‘ یہ ایک وسیع تر اور جامع نظریہ ہے۔ اس نظریے میں اصل درس خالقِ دو جہاں کی خوشنودی کے لیے بلا چون و چرا اپنی عزیز ترین متاع قربان کرنا ہے۔ آج امتِ مسلمہ میں رسمِ قربانی تو رہ گئی ہے مگر جذبۂ ابراہیمی ہے اور نہ ہی روحِ اسماعیلی۔ آج بیس‘ بائیس لاکھ غزہ کے مسلمانوں پر گزشتہ ڈیڑھ پونے دو برس سے جو قیامت ٹوٹی ہوئی ہے اب وہ اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ چکی ہے ایک طرف امت مسلمہ قربانی کے گوشت سے لذت یاب ہونے کی تیاری کر رہی ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں فریزر میں گوشت محفوظ کرنے کے پروگرام بن رہے ہیں‘ دوسری طرف ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے چند لاکھ بھائی بہنیں اور بچے بلک بلک کر دم توڑ رہے ہیں۔ امدادی ٹرکوں کی قطاریں غزہ کے باہر لگی ہوئی ہیں مگر نیتن یاہو اُن تک کچھ پہنچنے نہیں دیتا۔ اپنے وقت کے خوشحال اور خوش پوش لوگ پھٹے ہوئے کپڑوں میں جب دو روٹیاں یا چاولوں کی ایک پلیٹ حاصل کرنے کے لیے قطاروں میں لگتے ہیں تو اوپر سے سفاک دشمن ان پر جہازوں سے بمباری کرتا ہے۔ اب تو اہلِ غزہ نے اعلان کیا ہے کہ انہیں کسی کا کوئی انتظار نہیں۔
جہاں تک مسلم حکمرانوں کا تعلق ہے تو الا ماشاء اللہ اکثر نہایت سگندل ہیں۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ اُن کے چند لاکھ بھائی بہن اور بچے بھوک سے تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں۔ تیل کی دولت سے مالا مال ہمارے عرب بھائی جب ڈونلڈ ٹرمپ آتے ہیں تو اُن کے قدموں میں کھربوں ڈالر نچھاور کر دیتے ہیں اور ان سے اتنی بات بھی نہیں منوا پاتے کہ اہلِ غزہ تک بلا روک ٹوک خوراک اور دوائیں پہنچنے دی جائیں اور اہلِ غزہ پر بمباری کا سلسلہ بند کیا جائے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ' 'امن کا پیامبر‘ ‘قرار دے رہے ہیں اور اُن سے تعلقات مضبوط بنانے کے دعوے کر رہے ہیں۔ نجانے وہ اتنا بڑا اعزاز ٹرمپ کی خدمت میں کیوں پیش کررہے ہیں۔ سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی اور خوراک کی فی الفور بلا رکاوٹ ترسیل کی قرارداد پیش کی گئی تو اسی ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ نے اسے ویٹو کر دیا اور ''امن کے پیامبر‘‘ نے امریکی وزن سفاک قاتل نیتن یاہو کے پلڑے میں ڈال دیا۔
امت مسلمہ بالعموم اور مسلم حکمران بالخصوص سوچ لیں کہ کل میدانِ حشر میں جب اُن سے سوال کیا جائے گا کہ جب عید الاضحی کے موقع پر تم لذیذ گوشت کے مزے اڑا رہے تھے تو غزہ میں تمہارے مسلمان بھائی بہن بھوک سے تڑپ رہے تھے‘ تم نے اس وقت ان کے لیے کیا کیا تو اس وقت ان کے پاس کیا جواب ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں